تحریک انصاف کایوم سیاہ،حکومت کارکردگی پرخوش
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمود سمیر) 8 فروری کے انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے پر تحریک انصاف نے یوم سیاہ منایا،صوابی کے سوا باقی کسی علاقے میںکوئی موثر
احتجاج نہیں کیا گیا۔ پنجاب اور اسلام آباد میں دفعہ 144نافذکی گئی ، متعدد گرفتاریاں بھی ہوئیں۔صوابی کے جلسے میں تحریک انصاف کے حامیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ پنجاب سے بھی قافلے شریک ہوئے۔سٹیج پر عمران خان کے علاوہ کسی اور پارٹی رہنما اور وزیراعلیٰ گنڈا پورکی تصاویر نہیں لگائی گئیں اور یہ فیصلہ پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر نے کیا تھا ، جنید اکبر نے ہارڈ لائنرکے طور پر سخت تقریرکی اور اپنے کارکنوں کا لہوگرماتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ آئندہ ہم پوری تیاری اورگولیاں کھانے کیلئے آئیںگے ،یہ اسی طرح کا بیان ہے جس طرح کا 26نومبر سے قبل گنڈا پور نے دیا تھا، پی ٹی آئی کے اختلافات کی باتیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں، شیر افضل مروت کو جلسے میں سٹیج پر بیٹھنے کیلئے نشست نہیں دی گئی اور وہ وزیراعلیٰ گنڈا پورکے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچے ، کچھ دیر خطاب کیا اور اپنی پارٹی قیادت سے گلے شکوے کئے ، انہیں باضابطہ خطاب کا موقع نہیں دیا گیا، دلچسپ بات یہ تھی کہ گنڈا پور نے جب اپنی تقریر شروع کی تو انہوں نے شیر افضل مروت کو سٹیج پر بلا لیا اور دونوں نے ہاتھ ہلاکرکارکنوں اور پارٹی مخالفین کو پیغام دیا، جلسے کے منتظمین کے فیصلے کو نظر اندازکرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر سے قبل مائیک شیر افضل مروت کو دے دیا اور انہوں نے اپنا اگلا جلسہ لکی مروت میںکرانے کا اعلان کیا اور شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لب سی دیے گئے ہیں لیکن میری زبان بولے گی،بیرسٹرگوہر ،سلمان اکرم راجہ نے بھی خطاب کیا ، جنید اکبر جلسے کے انتظامات سے مطمئن دکھائی دے رہے تھے ، بیرسٹرگوہر نے 8 فروری کو مینڈیٹ چھیننے کے حوالے سے کچھ سخت باتیں بھی کیں اورکہا کہ 17نشستوں والی ن لیگ کو حکومت دے دی گئی ، جلسے میں عمران خان کے ویژن اور ان کی پالیسیوںکو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا، سنی اتحادکونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے عمران خان کو معشوق قرار دے کرکارکنوں سے خوب داد وصول کی اورکہا کہ وہ استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں،تحریک انصاف کا یہ احتجاج پرامن رہا اور ماضی کی نسبت اس مرتبہ تحریک انصاف نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ یا دھرنے کی کال نہیں دی ، اس سے پہلے اکتوبر اور نومبر میں دو مرتبہ اسلام آباد کی طرف مارچ کیا گیا ،اکتوبر میں ہونے والے ڈی چوک کے قریب احتجاج میں علی امین گنڈا پور اچانک احتجاج سے غائب ہوگئے اور کے پی ہائوس چلے گئے اور بعد ازاں یہ کہانی سنائی کہ وہ 12اضلاع سے گھومتے اور چھپتے چھپاتے پشاور پہنچے ہیں، ان کی اس کہانی کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا اور انہیں تنقیدکا نشانہ بنایا گیا جبکہ 26نومبر کے دھرنے سے قبل تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات بھی ہوتے رہے ۔گنڈا پور کے مطابق ان مذاکرات کے نتیجے میں عمران خان کی اڈیالہ جیل سے بنی گالہ، سی ایم ہائوس پشاور اور نتھیا گلی منتقلی کی بات چیت ہوگئی تھی تاہم اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی طرف سے یہ شرط عائدکی گئی تھی کہ احتجاج ڈی چوک کے بجائے سنگجانی تک محدود رکھا رجائے ، ایسا نہ ہونے کے باعث 26نومبرکی رات کو حکومت کی ہدایت پر سکیورٹی فورسز نے گرینڈ آپریشن کیا جس کے نتیجے میں بلیو ایریا کو مظاہرین سے خالی کرایا گیا، خون خرابہ بھی ہوا، پہلے چند روز تک یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ سینکڑوں لوگ مارے گئے حتیٰ کہ کسی نے 400توکسی نے 300کارکنوںکے جاں بحق ہونے کی افواہیں پھیلائیں ۔پی ٹی آئی کے سینئر رہنما لطیف کھوسہ نے تو یہاں تک بیان دے دیا تھا کہ 278کارکن شہید ہوئے تاہم بعد ازاں بیرسٹرگوہر اور پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے 11کارکنوں کے جاںبحق ہونے کی باضابطہ طور پر تصدیق کی تھی ،بہر حال تحریک انصاف ایک موثر اور احتجاجی جلسہ کر کے خیبرپختونخوا کے اندر اپنی سیاسی قوت دکھانے کی کوشش کی ، جنید اکبر کو جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ اس میں کافی حد تک کامیاب دکھائی دیے مگر تحریک انصاف کے اندرکھچڑی پہلے بھی پکتی رہی ہے اور اب تو اعظم سواتی نے وزیراعلٰی، سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اور دیگر پرکرپشن کے سنگین الزامات بھی عائدکئے ۔دوسری جانب حکومت نے یوم تعمیر وترقی کے طور پر ایک تقریب کا اہتمام کیا جس سے وزیراعظم شہبازشریف نے خطاب کر کے حکومت کے کارنامے ، معیشت میں ہونے والی بہتری، غیر ملکی سرمایہ کاری، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومتی اقدامات پر قوم کو اعتماد میں لیا ، شہباز حکومت کیلئے ایک سال خاصا مشکل رہا ، مہنگائی کوکنٹرول کیا گیااور اس کی شرح 40فیصد سے کم ہو کر 3،4فیصد کے قریب آگئی مگر اب بھی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا مسئلہ درپیش ہے اور جب تک سیاسی عدم استحکام کا مسئلہ نہیںکیا جاتا معیشت کو مستقل بنیادوں پر درست راہ پرچلانے میں مشکلات درپیش رہیںگی ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تحریک انصاف اسلام ا باد جنید اکبر گنڈا پور کیا گیا
پڑھیں:
مراد علی شاہ اور پیپلزپارٹی سندھ میں 16 سالہ حکومت کی کارکردگی بتائیں.عظمی بخاری
لاہور/کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے وزیراعلیٰ سندھ کے پنجاب کے کسانوں سے متعلق بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مراد علی شاہ اور ان کی جماعت 16 سال سے سندھ پر حکومت کر رہے ہیں، وہ اپنی کارکردگی بتائیں. نجی ٹی وی کے مطابق عظمیٰ بخاری نے کہا کہ مراد علی شاہ کو سندھ کے کسانوں سے زیادہ پنجاب کے کسان کے فکر ہے، پنجاب کے کسانوں کی فکر کرنے کے لیے پنجاب کے وارث موجود ہیں انہوں نے سوال کیا کہ کیا سندھ میں کاشت کار نہیں ہیں؟ کیا سندھ حکومت نے گندم کی قیمت مقرر کردی ہے؟.(جاری ہے)
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ کیا سندھ حکومت نے کسانوں سے گندم خرید لی ہے؟وزیراطلاعات پنجاب نے مطالبہ کیا کہ مراد علی شاہ اور ان کی جماعت 16 سال سے سندھ پر حکومت کر رہے ہیں، وہ اپنی کارکردگی بتائیں انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے مرکزی شاہراہ کو بند کرنے والوں کی حمایت پر طنز کیا کہ مراد علی شاہ کو علی امین گنڈاپور سے مختلف نظر آنا چاہیے. دوسری جانب سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے وزیر توانائی سندھ ناصر حسین شاہ اور سینیٹر عاجر دھامرا کے ساتھ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اور شہبازشریف ماحول خراب کرنے والوں کو سمجھائیں، وزیراعظم بعض لوگوں کوحالات بگاڑنے والے بیانات سے روکیں، بیان بازی نہ رکی تو ہمارے ترجمان جواب دینے پر مجبور ہوں گے، ہمارے لیے آسان ہے کہ حکومت کو آج خدا حافظ کہہ دیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ سسٹم چلے، اسمبلیاں چلیں، وفاق سے بیٹھ کر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، متبادل حل تلاش کیے جائیں. شرجیل میمن نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کینالز معاملے پر پہلے دن سے اپنے موقف پر قائم ہے اور متنازعہ کینالز کا مسئلہ حل کرنے کیلئے کوشاں ہے انہوں نے کہا کہ 25جنوری 2024 کو ارسا کے اجلاس میں سندھ کے نمائندے احسان لغاری نے پانی کی دستیابی پر اعتراض کیا، نگران حکومت کے دور میں ارسا کا اجلاس ہوا تو پنجاب کو پانی کا سرٹیفکیٹ جاری کیاگیا، سندھ کے نمائندے نے اس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے نوٹ لکھاکہ پانی نہیں ہے،سرٹیفکیٹ واپس لیاجائے. شرجیل میمن نے کہا کہ 13 جون کو سمری بنی جس میں واضح طور پرکینال پر اعتراض کیاگیا، 14جون کو وزیراعلیٰ نے اس پر دستخط کیے، سندھ حکومت نے سب سے پہلے اعتراضات کیے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے سی سی آئی اجلاس بلانے کے لیے متعدد خطوط لکھے، انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کا واضح موقف ہے کہ کینالز نہ بنائی جائیں، پنجاب میں زیر زمین میٹھا پانی موجود ہے اس سے کاشتکاری ہوسکتی ہے. انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کا 2 دن پہلے فون آیا اور انہوں نے کہا وزیراعظم اس معاملے کو حل کرناچاہتاہیں، رانا ثنااللہ سے کل اور آج بھی بات ہوئی، شرجیل میمن نے کہا کہ شہباز شریف پوری ملک کے وزیر اعظم ہیں، لوگوں کے خدشات ختم کرنے چاہیے، ملک عوام کے ساتھ ہوتا ہے انہوں نے کہاکہ 1991 کے معاہدے کے تحت بھی ہمیں پانی نہیں مل رہا ہے، قانونی اور آئینی طور پر جو ہمارا پانی کا شیئر بنتا ہے وہ دے دیں. سندھ کے سینئر وزیر نے کہا کہ احتجاج کرنا آئینی اور قانونی حق ہے لیکن سڑکوں کو بلاک نہ کریں، ٹرکوں میں مویشی پھنسے ہوئے ہیں، ان کو خوراک نہیں پہنچ پا رہی ہے، برآمدی سامان پھنسا ہوا ہے، میری التجا ہے کہ لوگوں کاخیال کریں، احتجاج کو پرامن رکھیں شرجیل میمن نے کہا کہ کینالز معاملے پر ن لیگ کے سنجیدہ لوگوں سے بات ہورہی ہے اور کچھ وزرا غیر ضروری بیان بازی کر رہے ہیں، اس طرح کی باتیں کرنے والے لوگ غیرسیاسی ہیں. انہوں نے کہا کہ رانا ثنااللہ نے جو بات کی ہم اس کو خوش آئند قرار دیتے ہیں، اگر ہمارے طرف سے بھی شعلہ بیانی ہوئی تو بات بنے گی نہیں، نون لیگ اپنے وزرا کو سمجھائے ورنہ پھر شاید ہم اپنے ترجمانوں کو روک نہ سکیں انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے درمیان حالات خراب ہوں، نواز شریف اور شہبازشریف ماحول خراب کرنے والوں کو سمجھائیں.