Nai Baat:
2025-04-23@05:22:23 GMT

1035 دن بعد

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

1035 دن بعد

جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو 10اپریل 2022ء کو 1035 دن گزر چکے ہیں اور جب آپ یہ پڑھ رہے ہیں یہ 1036 واں دِن گزر رہا ہے۔ قریب قریب، تین برس پہلے کا دس اپریل وہ دن تھا جب اس وقت کے نصب شدہ وزیراعظم اپنے اوپر سے مقتدر قوتوں کی چھتری اٹھنے کے بعد اتحادیوں کی حمایت کھو بیٹھے تھے جو ڈنڈے کی وجہ سے ان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سچ یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں بھی انہیں درجنوں ایسی سیٹیں ملی تھیں جو دھونس اور دھاندلی کی وجہ سے تھیں،انتخابی نتائج والا سافٹ وئیر آر ٹی ایس بٹھانے کے بعد ملی تھیں۔ اپریل 2022ء کے بعدعمران خان کے لئے دوسرا اہم ترین دن 5اگست 2023ء کا تھا جب وہ توشہ خانہ کیس میں سزا پانے کے بعد گرفتار ہوئے تھے۔ اس گرفتاری کو بھی ساڑھے پانچ سو کے بعد مزیددو دن اوپر گزر چکے ہیں۔ہمارے پاس سوشل میڈیا پر ایسے بہت سارے ٹویپس یا ٹرولز موجود ہیں جو ایک 1035 دنوں سے ہی مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں کہ عمران خان اقتدار میں واپس آ رہا ہے اور ساڑھے پانچ سو دنوں سے دوسرا جھوٹ بول رہے ہیں کہ مقتدر حلقے اس سے کوئی ڈیل کر رہے ہیں اور وہ رہا ہونے جا رہا ہے۔ ہمارا ایک ’نیم صحافی‘ تو اس کے ساتھ سابقے لاحقے لگا کے یہ بھی لکھتا چلا جا رہا ہے کہ وہ یعنی عمران خان ڈنکے کی چوٹ پر واپس آ رہا ہے۔ مجھے آج تک وہ ڈنکا نہیں ملا مگر وہ چوٹیں ضرور مل جاتی ہیں جو ایک کے بعد دوسری لگ رہی ہیں۔ میرے پاس کوئی علم نجوم نہیں ہے مگر میں پاکستان کی سیاست کا ایک طالب علم ضرور ہوں ، ایوانوں کے اندر ، باہر، نیچے اور پیچھے ہونے والی بہت ساری پیش رفتوں کا عینی شاہد اور اسی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر عمران خان خود بھی یہ کہتا ہے کہ وہ واپس آ رہا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے، گمراہ کرتا ہے۔

یہ بات نہیں کہ عمران خان نے اس دوران ایوان اقتدار میں دوبارہ جانے یا جیل سے باہر آنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں ’ اوور ‘ ہو گیا جیسے 9 مئی 2023 ء کی کوشش۔ مگر اس سے پہلے ہمیں ان کوششوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا جو اس نے عارف علوی کے ایوان صدر میں ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کی تھیں یعنی جنرل قمر جاوید باجوہ سے غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ملاقات۔ اس نے فوج کے نیوٹرل ہونے پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ فوج اس کی مدد کرے اور اسے ( درست طور پر) خدشہ تھا کہ اگر قمر جاوید باجوہ کے بعد ایک بہت ہی ایماندار، جرات مند ، محب وطن اور پروفیشنل جرنیل حافظ عاصم منیر نے فوج کی قیادت سنبھال لی تواس کے لئے ایسی ملاقات بھی ممکن نہیں رہے گی لہٰذا اس نے لاہور کے لبرٹی چوک سے اسلام آباد کے دروازے روات تک ایک لانگ مارچ بھی کیا تھا تاکہ ان کی فوج کی سربراہی کو روک سکے مگر وہ اس میں بھی ناکام رہا تھا۔ نو مئی اس کی سب سے بڑی موو تھی جب اس نے اپنی گرفتاری کی صورت میں ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں اور قبضوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ اتنی بڑی سازش تھی کہ اس میں کچھ بڑے جرنیل اور کچھ اس کے نیچے کے عہدیدار بھی شامل تھے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیزوں کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سے بھی اس بارے تفتیش کی جا رہی ہے اور ان کے سیاسی لوگوں کے ساتھ رابطے اور ڈانڈے مل رہے ہیں۔ عمران خان نے فوج کو ہر طرح سے دباو میں لانے کی کوشش کی کہ وہ غیر جانبداری چھوڑ دے اوراس کو اقتدار دینے کے لئے سہولت کاری کرے۔ اس نے امریکہ اور برطانیہ میں آرمی چیف کے خلاف مظاہرے کروائے۔ اس نے اپنے اسرائیلی اور امریکی سرپرستوں کو استعمال کرتے ہوئے امریکی ایوان نمائندگان سے قراردادیں منطور کروائیں۔ کرائے پر دستیاب امریکی سیاستدانوں سے ٹوئٹ اور تقریریں کروائیں مگر وہ سب ناکام رہے۔عمران خان فوج اور پی ڈی ایم کی دشمنی میں ملک اور عوام تک کا دشمن بن گیا اوراس نے پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش کی جو اب بھی سول نافرمانی کی جاری کال کی صورت میں جاری ہے ۔

میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو8 فروری کے انتخابات کو بھی ایک سال مکمل ہوچکا ۔ اس ایک برس میں پی ٹی آئی کو سب سے بڑا سیاسی نقصان پنجاب میں ہوا ہے کہ جب عمران خان نے فائنل کال دی تو اس صوبے سے کسی ایک جگہ سے بھی ایک سو بندے ایک ساتھ نہیں نکلے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لاہور جیسے سیاسی شہر کی سڑکوں پر اکیلے گھومتے اور ویڈیوز بناتے ہوئے ایکسپوز ہوئے۔ ہمیں ان انتخابات اور ان میں لگائے ہوئے الزامات کا بھی حقیقی، عقلی اور منطقی جائزہ لینا ہو گا۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس نے 180 سیٹیں جیتیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس نے ان سیٹوں پر انتخابی عذر داریاں دائر کیں جن پر اسے اس کے مطابق ہروایا گیا مگراس کے پاس اس کی جیت کے ثبوت فارم 45موجود ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی انتخابی عذر داریوں میں مسلم لیگ نون کے خلاف تو دھاندلی ثابت نہیں کر سکی مگر وہ خود اپنی جیتی ہوئی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک درجن سے زائد مختلف سیٹیں ضرور کھو بیٹھی۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ جنوری کے آغاز میں جب حکومت سے مذاکرات شروع ہو رہے تھے تو پی ٹی آئی عملی طور پر گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات کے آڈٹ کے مقابلے سے دستبردار ہو گئی تھی ، یہ مطالبہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں موجود ہی نہیں تھا، پی ٹی آئی کو علم تھا کہ اس کے پاس فارم 47کے ذریعے دھاندلی کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہیں جیسے 26جنوری کو مارے جانے والے یاغائب ہونے والوں کے شناختی کارڈ نمبر۔

مجھے ماضی کو بہت زیادہ ڈسکس نہیں کرنا کیونکہ بہت سارے اہل نظر سب جانتے ہیں، سب سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ 1035 دنوں کے بعد بھی عمران خان آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ دس اپریل کو تھے بلکہ اسے مزید واضح کر لیجئے کہ وہ اپنی مزید حماقتوں سے مزید بری صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی ملک دشمن حرکتوں سے ان بندشوں کو مزید مضبوط کر لیا ہے جن میں وہ اپنی نااہلی، بدعنوانی اورہٹ دھرمی کی وجہ سے پھنسایا تھا۔ وہ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بعدبڑی مشکلات کا شکار ہونے والے ہیں۔ شہباز شریف اور مریم نواز نے اپنی کارکردگی سے عمران خان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی روئے چیخئے یا پیٹے، پی ٹی آئی ختم شُد ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی یہ ہے کہ رہے ہیں رہا ہے کے بعد کے لئے مگر وہ تھا کہ

پڑھیں:

اڈیالہ جیل سے دور روک لیا تاکہ بہانہ بنا سکیں ملاقات کیلئے کوئی آیا ہی نہیں، علیمہ خان

راولپنڈی(نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے جیل حکام پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو قیدِ تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور فیملی و وکلا سے ملاقات میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔

اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے الزام لگایا کہ جیل حکام ملاقات نہ ہونے کا یہ بہانہ بنانے کے لیے پولیس کو جیل سے ڈیڑھ کلومیٹر پہلے ناکہ لگانے کی ہدایت دیتے ہیں تاکہ کہا جا سکے کہ کوئی ملاقات کے لیے آیا ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی عورتوں سے کیا خوف ہے؟ ہم تو صرف اپنے بھائی سے ملنے آئے ہیں۔ اب ایک مہینہ ہو گیا، ہمیں عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا۔ اگر وکلا اور فیملی کو روکا جائے گا تو وہ اپنے کیس کس سے ڈسکس کریں گے؟

علیمہ خان نے واضح کیا کہ ان کے وکلا سلمان اکرم راجہ، بیرسٹر سلمان صفدر اور ظہیر عباس کیسز کی پیروی کر رہے ہیں، اور انہیں ملاقات کی اجازت نہ دینا ناانصافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر صرف بیرسٹر سلمان صفدر کو ملاقات کی اجازت ملی، لیکن چیف جسٹس کے حکم کے برعکس انہیں صرف 35 منٹ بعد ہی اٹھا دیا گیا، حالانکہ ایک گھنٹے کی اجازت دی گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ صرف ہم ملیں، اگر 100 لوگ بھی عمران خان سے ملاقات کریں تو کریں، لیکن ہمارے وکلا کو تو ملاقات کی اجازت دی جائے۔ اگر ہمیں نہیں ملنے دیا جا رہا تو میری دو بہنوں کو بھیج دیں، وہ مجھ سے زیادہ ذہین ہیں، بانی کا پیغام ان کے ذریعے بھی آ جائے گا۔

علیمہ خان نے کہا کہ وہ جیل کے باہر ہی بیٹھے رہیں گی اور واپس نہیں جائیں گی جب تک ملاقات نہ ہونے دی جائے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ جیل انتظامیہ جان بوجھ کر ان کے وکلا کو ریپلیس کرکے غیر متعلقہ افراد کو بھیجتی ہے تاکہ اصل قانونی ٹیم کو عمران خان سے رابطہ نہ ہو سکے۔

ادھر سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے عمران خان سے عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات نہ ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کر دی ہے، جب کہ علیمہ خان، شبلی فراز اور عمر ایوب کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں بھی تاحال زیر التوا ہیں۔
مزیدپڑھیں:’شہد کی مکھی کے خاتمے سے انسانیت کا ایک ہفتے میں خاتمہ‘، آئن سٹائن کی تھیوری کی حقیقت کیا؟

متعلقہ مضامین

  • عمران خان سے ملاقاتیں روکنا ناقابلِ برداشت ہے، حلیم عادل شیخ
  • عمران خان سے ملاقات نہ کرنے دینا بچگانہ جبر ہے، سلمان اکرم راجہ
  • امریکی وفد کی عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، سلمان اکرم راجہ
  • ملک، عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے: عمران خان
  • عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان
  • اب ایک مہینہ ہو گیا، ہمیں عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا:علیمہ خان
  • ملک، عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے، عمران خان
  • عمران خان کی 2 بہنوں کو ملاقات کی اجازت مل گئی، اڈیالہ جیل کے اندر روانہ
  • اڈیالہ جیل سے دور روک لیا تاکہ بہانہ بنا سکیں ملاقات کیلئے کوئی آیا ہی نہیں، علیمہ خان
  • علیمہ خان کو سیاست میں گھسیٹنا ناجائز ہے، عمر ایوب