Nai Baat:
2025-04-23@00:25:31 GMT

خدا کی زیارت

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

خدا کی زیارت

اللہ کی مخلوق کولوٹ کرہم پھراس انتظارمیں بیٹھے رہتے ہیں کہ ہمیں اب اللہ اوراس کے پیارے حبیبﷺ کی زیارت ہو۔بھلاہمارے جیسے ظالموں اور گناہ گاروں کوبھی اللہ اوراس کے رسول کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔؟کہتے ہیں ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتاہے۔اللہ واقعی ملتاہے مگرملنے کی تڑپ ،خواہش اوردل میں خداکاخوف رکھنے والوں کو۔جن لوگوں کے شب وروزہماری طرح مخلوق خدا کو ایذا رسانی، دکھ، درد، نقصان،پریشانی اورتکلیف پہنچانے میں گزررہے ہوں ایسوں کو خدا کیسے ملے گا۔؟ اس سوال کاجواب شائد کسی کے پاس نہ ہو۔ خدا توکہتاہے کہ تم گرتے ہوئوں کو تھامو، غریبوں، مجبوروں اور مظلوموںکا ہاتھ پکڑو، میں تمہیں مل جائوں گا لیکن ہم غریبوں، مجبوروں، مظلوموں اور گرے ہوئوں کو دھکوں پردھکے دے کریہ سوچتے اورسمجھتے ہیں کہ اب خداہمیں مل جائے گا۔ایک طرف ہم خداکو ڈھونڈرہے ہیں لیکن دوسری طرف ہم اسی خداکی بے زبان مخلوق کولوٹنے اورمارنے سے بھی بازنہیں آ رہے۔ ڈاکٹر ہے، تاجر ہے، ڈرائیور ہے، ٹیچر ہے، انجینئر ہے، سرمایہ کار ہے، صنعتکار ہے، خان ہے ،نواب ہے، چوہدری ہے، وڈیرہ ہے، سیاستدان ہے یا پھر کوئی حکمران۔ ہرشخص اورفرداس تاک اورانتظارمیں بیٹھارہتاہے کہ مخلوق خداکی مجبوری اورکمزوری سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے۔؟آپ اپنے اردگرددیکھیں آپ کو روزانہ درجنوں اورسینکڑوں نہیں بلکہ ایسے ہزاروں لوگ ملیں گے جومخلوق خداکولوٹنے اورمارنے کے انتظارمیں بیٹھے ہوں گے۔ کسی مجبورکونہ تاجرمعاف کرتے ہیں اورنہ کوئی ڈاکٹرانہیں ٹیکہ لگائے بغیرچھوڑتاہے۔نہ صرف تاجر اور ڈاکٹر بلکہ ڈرائیور، ٹیچر، انجینئر،سرمایہ کار، صنعتکار،خان ،نواب ،چوہدری اورسیاستدان جوبھی کسی مجبور اور کمزور کو دیکھتے ہیں اس کوکاٹنے اورڈسنے کے لئے ان کاخون جوش مارنے لگتاہے۔مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھاناتواس ملک اورمعاشرے میں ایک عام سی بات ہے۔اللہ نہ کرے آپ کسی مجبوری میں ہوں اوراس کاکسی تاجر، ڈرائیور،ڈاکٹریاکسی سیاستدان کوپتہ لگے۔ مجبور کو تو محلے کادکاندار اورایک عام ریڑھی بان بھی نہیں بخشتا۔ آپ نے اگر غلطی سے کسی تاجر، ڈرائیور، ڈاکٹر یا سیاستدان کوکہہ دیاکہ میری مجبوری ہے میرے ساتھ یہ چھوٹی سی بھلائی کردیں جواب میں وہ آپ کے ساتھ ایسی بھلائی کریں گے کہ آپ کیا۔؟آپ کی آنے والی سات نسلیں بھی پھراس بھلائی کو یاد رکھیں گی۔ہمارے ایک دوست ماسٹر شوکت کہتے ہیں کہ غلطی سے بھی کبھی کسی تاجر، ڈرائیور اور سیاستدان کے سامنے اپنی مجبوری کاذکرنہ کرناورنہ ایساڈنک ماریں گے کہ پھرآپ برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے، ماسٹرصاحب کہتے ہیں کہ ایک بارمیں کہیں جنازے پر جا رہاتھااس علاقے تک بکنگ پرہزارپندرہ سو تک میں گاڑی جاتی تھی میں نے غلطی سے اڈے میں موجودڈرائیورسے جنازے میں لازمی شرکت کی مجبوری کا ذکر کیا۔ پھر کیا ڈرائیور اڑ گیاکہ وہاں چار ہزار سے کم پر کوئی نہیں جاتا،میں دوسرے ڈرائیورکے پاس گیاتومیرے جانے سے پہلے اس ڈرائیورنے اسے بھی میری مجبوری کا بتا دیا تھا۔ یہاں تومجبوروں کویہ ظالم آسمان پرمانگتے ہیں ،زمین پر توان کے ہاتھ جولگااس کاپھراللہ ہی حافظ ہے۔یہ حالات ہیں ہمارے ۔ان حالات میں ہمیں اللہ کی رضااور خوشنودی کیسے ملے۔اللہ توان کو ملتا ہے جو مشکل، پریشانی، بیماری، آزمائش اورکسی مصیبت میںاللہ کی مخلوق کاسہارابنتے ہیں۔کہیں ایک واقعہ پڑھاتھاکہ کسی زمانے میں ایک عابد نے ”خدا کی زیارت” کے لئے چالیس دن کا چلہ کاٹا۔وہ عابد دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے وہ یکسر کٹا ہوا تھا۔ اس کا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گزرتا تھا۔چلے کی36 ویں رات اس عابد نے غیب سے ایک آواز سنی۔ شام 6 بجے تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اور خدا کی زیارت کرو۔ عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس دکان کو ڈھونڈنے لگا۔وہ کہتا ہے میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی،اسے وہ بیچنا چاہتی تھی۔ وہ جس تانبہ ساز کو اپنی دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا۔چار ریال ملیں گے،وہ بڑھیا کہتی نہیں چھ ریال میں بیچوں گی پر کوئی تانبہ ساز اسے چار ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہیں تھا۔آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی۔ تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا۔بوڑھی عورت نے کہا۔میں یہ برتن بیچنے کے لئے لائی ہوں اور میں اسے چھ ریال میں بیچوں گی۔ کیا آپ اس کے چھ ریال دیں گے۔۔؟ تانبہ ساز نے پوچھا۔چھ ریال میں ہی کیوں۔۔؟ بوڑھی عورت نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا۔میرا بیٹا بیمار ہے، ڈاکٹر نے اس کے لئے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت چھ ریال ہے۔تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا۔ماں جی یہ دیگچی بہت عمدہ اور نہایت قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 25 ریال میں خریدوں گا۔بوڑھی عورت نے کہا۔کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔۔؟تانبے والے نے کہاہرگز نہیں۔میں واقعی پچیس ریال دوں گا،یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور بوڑھی عورت کے ہاتھ میں 25 ریال رکھ دیئے۔ بوڑھی عورت پہلے بہت حیران ہوئی پھردعا دیتی ہوئی جلدی اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔عابد کہتا ہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بوڑھی عورت چلی گئی تو میں نے تانبے کی دکان والے سے کہا۔چاچا لگتا ہے آپ کو کاروبار نہیں آتا۔۔؟ بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور چار ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی اور آپ نے 25 ریال میں اسے خریدلیا۔بوڑھے تانبہ ساز نے کہامیں نے برتن نہیں خریدا ہے،میں نے اس کے بچے کا نسخہ خریدنے کے لئے اور ایک ہفتے تک اس کے بچے کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دئیے ہیں۔ میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے۔عابد کہتا ہے میں سوچ میں پڑگیا۔ اتنے میں غیبی آواز آئی۔چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف حاصل نہیں کرسکتا۔ گرتے ہوئوں کو تھامو، غریب کا ہاتھ پکڑو، ہم خود تمہاری زیارت کو آئیں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تانبہ ساز ریال میں کی زیارت ہے میں نے کہا خدا کی ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

فصلوں کے لحاظ سے یہ بہت ہی خراب سال ہے، اسد عمر

لاہور:

سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ جب حکومت آئی اور شہباز شریف وزیراعظم بنے اس کے بعد انھوں نے اگلے ڈیڑھ سال پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، پاکستان کی تاریخ کی بد ترین معاشی پرفارمنس اس عرصے کے اندر گزری۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا 24-23 کا سال صنعتی پیداوار کے لحاظ سے بدترین سال تھا، فصلوں کا یہ بہت ہی خراب سال ہے، معیشت میں ترقی کے آثار کچھ کچھ ، تھوڑا تھوڑا نظر آنے شروع ہوئے تھے آج سے تین سے پانچ ماہ پہلے، وہ بھی اس وقت منفی ہو گئے ہیں۔

سابق سیکریٹری خارجہ جوہر سلیم نے کہا جے سی پی اواے ہوا تھا جو جوائنٹ کمپری ہنیسو پلان آف ایکشن کا مخفف ہے ہوا تھا تو کافی عرصہ تک تو لگا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے، لیکن اس کے بعد جب ٹرمپ آئے تو ٹرمپ نے آ کر کہ کہا کہ میں اس سے ودڈرا کرتا ہوں، اس وقت ایران کی پوزیشن بھی پہلے کی نسبت کچھ کمزور ہے، اتنے عرصے سے لگی پابندیوں نے اس کا بہت نقصان کیا ہے، وہ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

تجزیہ کار ڈاکٹر کامران بخاری نے کہا ایران کے پاس اب کوئی چوائس نہیں رہی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی جو چھیالیس سالہ تاریخ ہے اتنا کمزور کبھی بھی نہیں تھا، غزہ کی جنگ کے بعد خطے میں ان کا اثر ورسوخ جاتا رہا، اوپر سے اس کے عوام بالکل نالاں ہے، فنانشلی بہت بری حالت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول
  • عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان
  • پی ٹی آئی کو کرش کرنے کے لیے ملک کو بنانا ریپبلک بنا دیا گیا ، بانی پی ٹی آئی
  • فصلوں کے لحاظ سے یہ بہت ہی خراب سال ہے، اسد عمر
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • یہودیوں کا انجام