Nai Baat:
2025-04-22@11:18:40 GMT

قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے!!

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے!!

رفیع سودا کا شعر آج کل ہر طرف رائتے کی طرح پھیلے خطوط کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔سودا کہتے ہیں ۔
تیرا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
نہ جانے کہ اس آغاز کاانجام کیا ہوگا
انجام کا تو شاید کسی کو بھی کچھ معلوم نہیں لیکن پاکستان میں خط لکھنے کا سلسلہ جو قاضی فائز عیسیٰ صاحب شروع کرگئے تھے وہ ایک وبا کی طرح پھیلتا ہی جارہا ہے پہلے یہ سلسلہ جسٹس منصور علی شاہ سے اسلام آبادہائی کورٹ آیاتو وہاں سے خطوط لکھے گئے۔ ایک خط امریکا سے بھی آیا تھا اُسی خط کو بگاڑ کا بانی بھی کہاجاسکتا ہے ۔اُس خط کا حاحل تو یہ ہوا کہ اس خط کو پڑھ کر بتانے والے عمران خان کیخلاف مقدمہ تک بنایا گیا۔عمران خان کو سزا بھی ہوئی اور وہ بری بھی ہوئے ۔ویسے خط لکھنے پر پرویز مشرف نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کو سزا دلوادی تھی۔ اب بانی پی ٹی آئی کی طرف سے آرمی چیف کو لکھا گیا ایک کھلا خط سامنے آگیا ہے۔
اب خط تو وہ لکھ بیٹھے ہیں اور سوال کرنے والے ایسے ایسے سوال پوچھتے ہیں جیسا کہ احسن مارہروی کہتے ہیں کہ۔
کسی کو بھیج کے خط۔ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہر اک پوچھتا ہے۔ نامہ بر آیا جواب آیا
کچھ کہتے ہیں کہ جواب کی نوبت تو تب آتی اگر خط ان کو ملاہوتا یہاں توصورتحال کو بہرام جی کے اس شعر سے تشبیہہ دی جارہی ہے کہ۔۔
پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط
خط لکھنے والے عمران خان کے مخالف لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ خط نہیں انہوں نے کوئی معافی نامہ لکھ دیا ہے جیسا نظام رامپوری کہتے ہیں کہ۔
مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے
قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے
اب بات جواب پر رکی ہوئی ہے اور اس پر بھی اپنی خواہشوں کو خبروں کا روپ دینے کا سلسلہ جاری ہے جیسا کہ امیر مینائی نے کہا تھا کہ ۔
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
اگر جواب نہ ہی آئے تو یہ نسخہ بھی استعمال کیاجاسکتا ہے جیسا فہمی بدایونی نے کیا تھا کہ ۔۔
میں نے اس کی طرف سے خط لکھا
اور اپنے ہی پتے پہ بھیج دیا
یاپھر داغ دہلوی کی زبانی کہ۔۔۔
کیا کیا فریب دل کو دئیے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں
ایسا بھی تو ہوتاہے ناں کہ جب سامنے والا خط کا جواب نہ دے یا اس کو پڑھنے میں ہی دلچسپی نہ رکھے اور مختلف ذرائع سے یہی پیغام بھجوائے کہ وہ خط پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اس کے بعد بھی اگر کوئی خط لکھنے سے باز نہ آئے تو صورتحال کچھ یہ بھی ہوسکتی ہے جیسا مومن خان مومن نے کہا تھا کہ ۔۔
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
اب یہاں کسی قاصد کی لاش تو نہیں ہے لیکن جن کو لکھا گیا ہے وہ ماننے کو تیارنہیں کہ ان کو کوئی خط ملا بھی ہے لیکن لکھنے والے خود کو مطمئن کررہے ہیں کہ خط تو لکھا گیا ہے بلکہ وہ تو ایسی ایسی تصویر کشی کررہے ہیں جیسا ماتم فضل محمد نے کہا تھا کہ۔۔
خط دیکھ کر مرا۔ مرے قاصد سے یوں کہا
کیا گُل نہیں ہوا وہ چراغ سحر ہنوز
اورپھر لکھنے والے تو ایسی خوش فہمی میں ہیں جیسا سردارگینڈاسنگھ مشرقی نے کہا تھا کہ۔۔
پھاڑ کر خط اس نے قاصد سے کہا
کوئی پیغام زبانی اور ہے
بلکہ شاید ان کو یہاں تک کی امید ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جیسا کہ دواکر راہی جی کی زندگی میں آیا تھا کہ ۔۔
غصے میں برہمی میں غضب میں عتاب میں
خود آ گئے ہیں وہ مرے خط کے جواب میں
اب صوتحال یہ بنے گی کہ،کوئی جواب آئے گا، وہ خود آئیں گے یا پھرمعاملہ کچھ یوں ہوجائے گا جیسا مرزاغالب کے ساتھ ہوا تھا کہ ۔۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
اب اس خطوط نویسی کی سیاست کیا کوئی رنگ بھی لائے گی یا ہر بار یہی جواب آئے گا کہ ہماری طرف سے جواب ہی ہے ۔۔؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: نے کہا تھا کہ خط لکھنے کہتے ہیں جواب میں ہے جیسا ہیں کہ

پڑھیں:

ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 

اسلام آباد (وقائع نگار) اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جمعہ کو درخواست دائر کی تھی اب آئے ہیں کہ وہ درخواست فکس کیوں نہیں ہوئی۔ اس کو ڈائری نمبر لگ گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے حوالے سے پہلے دائر درخواستیں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سنیں، عدالت کے آرڈر کے بعد ہماری ملاقاتیں باقاعدہ ہوتی تھیں، کوئی زمین و آسمان اوپر نیچے نہیں ہوا اور بانی پی ٹی آئی سے وکلاء، فیملی اور سیاسی لیڈران کی ملاقاتیں باقاعدہ ہوتی تھیں، بانی پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی، شاہ محمود قریشی اور دیگر سب سیاسی قیدی ہیں، ہم صرف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں، کوئی فورس نہیں کہ راکٹ لانچر، یا ایف 16 سے حملہ کریں، دو دن پہلے ہائی کورٹ میں بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور قیادت موجود تھی۔ چیف جسٹس کے پاس پیش ہونا چاہا مگر وہ شاید جمعہ کی وجہ سے چلے گئے تھے۔ مجھ پر بسکٹ چوری تک کے کیس لگائے گئے ہیں، ہہم ریاست کا حصہ ہیں اور جو تعریف یہ لوگ کرتے ہیں ریاست کی وہ یکسر مختلف ہے، عقل کے اندھوں سے کہتا ہوں کہ آئین کا مطالعہ کر لیں، ریاست کیا ہوتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اڈیالہ جیل سے دور روک لیا تاکہ بہانہ بنا سکیں کہ ملاقات کے لیے کوئی آیا ہی نہیں، علیمہ خان کا شکوہ
  • خاموش بہار ۔وہ کتاب جوزمین کے دکھوں کی آواز بن گئی
  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • جنگل کا قانون نہیں چلنے دیں گے، چین کا امریکا کو کرارا جواب
  • شادی سے قبل دلہا دلہن کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی ہوگا؟ قائمہ کمیٹی اجلاس میں بحث
  • کتاب ہدایت
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • ایم کیو ایم سندھ کے پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی: فاروق ستار 
  • لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، جنید اکبر
  • نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں