باطل کی مزاحمت انبیا و مرسلین اور مجددین کا ورثہ ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کی مزاحمت کی۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کی مزاحمت کی۔ رسول اکرمؐ نے مکے کے کفار اور مشرکین کی مزاحمت کی۔ برصغیر میں مجدد الف ثانی نے جہانگیر کی مزاحمت کی۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی فکر اور سوشلزم کی مزاحمت کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم کا حالیہ کالم مزاحمت اور بی اے کئی اعتبار سے شرمناک ہے اس لیے کہ اس کالم میں خورشید ندیم نے مزاحمت کو بی اے اور ایم اے کی ڈگریوں کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنے کالم میں سرسید احمد خان کی بھی تحسین فرمائی ہے اور تاثر دیا ہے کہ برصغیر میں صرف سرسید تھے جنہوں نے جدید علوم کی تحصیل کا درس دے کر برصغیر کے مسلمانوں میں مزاحمتی روح کو پروان چڑھایا۔ ان کے بقول سرسید نہ ہوتے تو پاکستان کو پڑھے لکھے طبقے سے وکیل فراہم نہیں ہوسکتے تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’مسلمانوں نے اگر کسی ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنی ہے تو انہیں پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ یہ مجبوری ہے۔ لڑائی لڑنی ہے تو پہلے تلوار خریدنا پڑے گی۔
یہ بات برصغیر کی سطح پر سب سے پہلے سرسیّد احمد خاں نے سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا‘ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اکبر الہ آبادی جیسی مرنجاں مرنج شخصیت بھی سر سید کے خلا ف فن آزما ہوئی:
ہم کیا کہیں‘ احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے‘ نوکر ہوئے‘ پنشن ملی‘ پھر مر گئے
معلوم نہیں ہم مسلمان بی اے‘ ایم اے سے کیوں دور بھاگتے ہیں۔ لیلیٰ کی اماں نے جب رشتے کے لیے مجنوں کو ایم اے کرنے کو کہا تو وہ عشق سے دست بردار ہو گیا‘ مگر ایم اے کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ آخر وہ بھی مسلمان تھا۔ اکبر ہی نے ہمیں وہ جواب سنایا ہے جو مجنوں نے لیلیٰ کی ماں کو دیا:
یہی ٹھیری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفا مرا با حسرت و یاس
یہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ چند ایک نے سرسیّد کی بات مانی۔ بی اے کر لیا اور پھر ایل ایل بی بھی۔ پاکستان کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے کچھ وکیل میسر آگئے اور یہ ملک آزاد ہو گیا۔ تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ مزاحمت کے لیے بی اے کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ آزادی کے متوالے کبھی ایک میدان میں رزقِ خاک ہو جاتے ہیں اور کبھی دوسرے میدان میں۔ کبھی شاملی میں کام آتے ہیں اور کبھی ان کے قافلے افغانستان کی راہوں میں گردِ خاک ہو جاتے ہیں۔
یہ غلط فہمی ہمارے رگ وپے میں سرایت کر گئی ہے کہ مسلح جدوجہد ہی مزاحمت کی واحد صورت ہے اور جو اس پر نقد کرتا ہے‘ وہ مزاحمت ہی کا منکر ہے۔ مسلح جدوجہد کو مزاحمت کی واحد صورت قرار دینے کا رجحان انیسویں صدی کی انقلابی تحریکوں کے زیرِ اثر مقبول ہوا۔ ظلم کے خلاف مزاحمت انسانی فطرت میں ہے اور دنیا کے ہر معاشرے میں اسے جائز سمجھا گیا ہے۔ مزاحمت کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق حالات اور زمانے سے ہے۔ کبھی بی اے کرنا بھی مزاحمت ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ اس بات کی تفہیم کے لیے ہم پھر سرسیّد کی طرف لوٹتے ہیں۔
سرسیّد نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی سعی کی کہ اس وقت تعلیم ہی وہ ہتھیار ہو سکتا ہے جس سے مزاحمت ممکن ہے۔ جنگِ آزادی میں اگر چند سو بندوقیں تمہاری تلواروں اور افرادی قوت پر غالب رہیں تو اس فرق کو جانو۔ خود کو بندوق بنانے اور چلانے کے قابل بنائو۔ اس کے لیے پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ لوگ مان کر نہیں دیے۔ سب کچھ برباد کر ڈالا۔ شیخ الہند جیسا مجاہد بھی مالٹا کی اسیری کاٹ کر لوٹا تو اسی نتیجے تک پہنچا کہ سیاسی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ ذہین آدمی تھے‘ بی اے کیے بغیر یہ بات سمجھ گئے مگر انہیں معلوم تھا کہ عام آدمی اتنا ذہین نہیں ہوتا۔ اسے بی اے کرنے کے بعد ہی بات سمجھ میں آئے گی۔ بسترِ علالت پر جامعہ ملیہ کا سنگِ بنیاد رکھنے پہنچ گئے تاکہ مسلم قوم کے نوجوانوں کے بی اے کرنے کے لیے کوئی معیاری ادارہ موجود ہو‘‘۔ (روزنامہ دنیا: 28 جنوری 2025ء)
پوری انسانی فکر بتاتی ہے کہ مذہب انسان میں باطل کی مزاحمت کا جیسا جذبہ پیدا کرتا ہے کوئی اور چیز انسان کو باطل کا ویسا مخالف نہیں بناتی۔ انبیا و مرسلین نے باطل کی جو مزاحمت کی اس کا خاص پہلو یہ ہے کہ انبیا و مرسلین نے کبھی اس بات پر خدا سے شکوہ نہیں کیا کہ اس نے انہیں لاکھوں گنا طاقت ور باطل کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کے پاس نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ قوم تھی، نہ دولت تھی وہ صرف ایک فرد تھے مگر انہیں وقت کے سب سے بڑے بادشاہ کے خلاف صف آرا کردیا گیا۔ اس صورت حال میں سیدنا ابراہیمؑ نے اللہ سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے طاقت عطا کر پھر میں نمرود کو للکاروں گا۔ سیدنا موسیٰؑ کا مقابلہ فرعون سے تھا۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی نہ کوئی ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ مسلح پیروکار تھے ان کے معاون صرف ان کے بھائی سیدنا ہارونؑ تھے۔ سیدنا موسیٰؑ نے بھی خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے قوت و شوکت عطا فرما پھر میں فرعون کا مقابلہ کروں گا۔ رسول اکرمؐ کو غزوہ بدر میں کفار کے مقابل کھڑا کیا گیا تو کفار کا لشکر ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ ان کے پاس درجنوں اونٹ اور سیکڑوں گھوڑے تھے۔ ان کے پاس تلواریں تھیں نیزے تھے زرہ بکتر تھی یہاں تک کہ وہ ناچنے والی عورتیں بھی ساتھ لائے ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے پر رسول اکرمؐ کے پاس صرف 313 افراد تھے۔ مسلمانوں کے لشکر کے پاس ایک گھوڑا اور چند اونٹ تھے۔ ذرہ بکتر کسی کے پاس نہیں تھی۔ نیزے بھی چند تھے۔ اکثر مسلمان ڈنڈے لے کر میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے۔ اس منظرنامے میں رسول اللہ نے خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے لشکر جرار کے مقابلے پر لشکر جرار عطا کر پھر میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ مگر خورشید ندیم باطل کا مقابلہ کرنے والوں کو کمزور دیکھتے ہیں تو ان پر طنز کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں اسامہ بن لادن کے حوالے سے جاوید غامدی کا یہ فقرہ کوٹ کیا ہے کہ اسامہ کا ایمان قابل رشک مگر بصیرت قابل افسوس ہے۔ اب خورشید ندیم اسرائیل کے مقابلے پر حماس کی قوت کو کم پارہے ہیں تو وہ اس پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔
خیر یہ تو ایک طویل جملہ ٔ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ خورشید ندیم نے مزاحمت کو بی اے اور ایم بی ڈگریوں یا جدید تعلیم کے ساتھ منسلک کیا ہے حالانکہ مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ صرف مذہب ہے جس نے مسلمانوں سے باطل کی مزاحمت کروائی ہے۔ جدید مغربی تعلیم تو ایک ہزار سال سے مسلمانوں کو کاٹھ کباڑ میں تبدیل کررہی ہے۔ ابن سینا اور فارابی مسلمانوں کے بڑے فلسفی تھے۔ ان کا علم جدید عہد کے ہزاروں پی ایچ ڈیز سے زیادہ تھا مگر ان کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ وہ یونان کے فلسفے کو مذہب پر فوقیت دیتے تھے۔ ان دونوں کا عقیدہ تھا کہ معاذ اللہ خدا کلیات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ ان کا خیال تھا موت کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔ ان کی رائے تھی کہ خدا نے کائنات کسی خاص وقت میں تخلیق نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ تینوں باتیں صریح کفر ہیں۔ ابن سینا اور فارابی کے برعکس امام غزالی اپنے عہد میں مذہبی فکر کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ یونان کا فلسفہ مسلمانوں کا گمراہ کررہا ہے تو انہوں نے تہافت الفلاسفہ کے نام سے ایک کتاب لکھ ڈالی جس میں یونان کے فلسفے کا ایسا رد تھا جس نے مسلم دنیا میں مغربی فلسفے کا بیج مار دیا اور یہ فلسفہ مسلمانوں کے عقائد کے لیے ایک ہزار سال تک کبھی خطرہ نہ بن سکا۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں سرسید احمد خان کو ’’امامِ وقت‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔ حالانکہ سرسید کی پوری فکر ضلالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف سرسید اور ان کی فکر نے مسلم برصغیر کو مغرب کے ادنیٰ غلاموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سرسید کی فکر کی ضلالت اور گمراہی پر مبنی ہونے کی بات طنز یا مذاق نہیں ہے۔ سرسید منکر قرآن تھے، اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے کسی ایک جزو کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے اور سرسید نے اپنی تحریروں میں قرآن میں مذکور تمام معجزات کا انکار کیا ہے۔ مثلاً ان کا خیال ہے کہ ابراہہ کا لشکر خدا کی جانب سے بھیجے گئے پرندوں کی کنکریوں سے ہلاک نہیں ہوا بلکہ اس کے لشکر میں چیچک کی وبا پھیل گئی تھی جس سے ابراہہ کا لشکر ہلاک ہوا۔
اسی طرح سرسید نے سیدنا موسیٰؑ سے قرآن میں منسوب اس معجزے کا بھی انکار کیا ہے کہ ان کے عصا نے دریا میں راستہ بنایا۔ سرسید کا اصرار ہے کہ سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم نے دریا اس وقت پار کیا جب دریا اترا ہوا تھا۔ سرسید منکر حدیث تھے۔ وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کو بھی مشتبہ سمجھتے تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کی پوری فقہ کی روایت کو بھی مسترد کردیا تھا۔ وہ نہ امام ابوحنیفہ کے مقلّد تھے، نہ امام شافعی کے، وہ امام مالک کو مانتے تھے نہ امام حنبل کو تسلیم کرتے تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کی پوری تفسیری روایت کا بھی انکار کردیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا رکھا ہے، سیکھنی ہے تو انگریزی سیکھو، فرانسیسی سیکھو، جرمن سیکھو، یہ تمام حقائق بتارہے ہیں کہ سرسید مغرب اور اس کے علوم و فنون کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے دین اور اس کی علامتوں کی مزاحمت کررہے تھے اور وہ عام مسلمانوں کو بھی دین سے برگشتہ کررہے تھے۔
خورشید ندیم کا خیال ہے کہ سرسید کی پیدا کردہ علمی روایت نے پاکستان کو وکیل مہیا کیے۔ یہ خیال بھی سو فی صد غلط ہے۔ مسلم برصغیر نے جو دو دیوقامت شخصیات پیدا کیں ان میں سے ایک اقبال ہیں اور دوسرے قائداعظم، اقبال کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب تک ’’قوم پرست‘‘ تھے اس وقت تک ان میں اور ایک کٹر ہندو میں فرق کرنا ناممکن تھا۔ مثلاً اقبال نے اس عہد میں نہ صرف یہ کہ گوتم بدھ اور بابا گرونانک کو سراہا بلکہ رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کا خطاب دیا۔ ان کا اس زمانے کا ایک شعر ہے۔
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایسا شعر کوئی ’’مسلمان‘‘ نہیں کہہ سکتا تھا۔ یہ صرف ہندو کہہ سکتا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی قلب ماہیت کردی اور انہوں نے مذہب کے زیر اثر عظیم الشان شاعری تخلیق کی۔ محمد علی جناح جب تک کانگریس میں تھے وہ ایک قومی نظریے کے علمبردار تھے مگر دو قومی نظریے کے علمبردار بنتے ہی وہ انگریزوں اور ہندو اکثریت کی مزاحمت کرنے لگے۔ یعنی اقبال اور قائداعظم کی مزاحمت کی پشت پر بھی صرف مذہب کی قوت تھی۔ اکبر الٰہ آبادی کی مزاحمتی شاعری غیر معمولی ہے اور اس کی جڑیں بھی مذہبی شعور میں پیوسط ہیں۔ مثلاً اکبر نے کہا ہے۔
منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خرد بیں اور دوربیں تک ان کی بس اوقات ہے
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ انساں سے کیا مطلب
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
بیسویں صدی میں اقبال کے بعد مغرب کی مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ مولانا مودودی ہیں اور انہوں نے پوری مغربی تہذیب کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک تحریر میں مغربی تہذیب کو ’’باطل‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے مغربی تہذیب کو ’’جہالیتِ خالصہ‘‘ کا نام دیا ہے اور اپنی ایک کتاب میں مولانا نے مغربی تہذیب کو ’’تخمِ خبیث‘‘ اور ’’شجرِ خبیث‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی مزاحمت، بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی سے نہیں اسلام کے شعور سے پیدا ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مغربی تہذیب کو کی مزاحمت کی مسلمانوں کے بی اے کرنا کا مقابلہ انہوں نے کالم میں ایک ہزار بی اے کر یہ ہے کہ باطل کی کے خلاف ہیں اور ایم اے کیا ہے دیا ہے کے لیے کے پاس ہے اور کہا کہ ہیں کہ اور ان
پڑھیں:
پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
جب دنیا کی سپر پاورز خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے غزہ کی مٹی پر بکھرے معصوم بچوں کے جسموں سے نظریں چرا رہی ہوں، جب عالمِ اسلام کے حکمران بے حسی کی چپ میں اپنی کرسیوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہوں ، ایسے میں ایک بوڑھا پادری جس کے جسم پر بیماریوں کے نشان ہیں، جسے بار بار اسپتال لے جایا جاتا ہے، وہ اپنی تھرتھراتی آواز میں انسانیت کا مقدمہ لڑتا ہے، وہ پوپ فرانسس ہے۔ ویٹیکن کے عالی شان محل میں رہنے والا لیکن دل سے فقیروں کا ساتھی، زبان سے مظلوموں کی آواز اور عمل سے ایک نئی روایت کا آغازکرنے والا۔
اس نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ الفاظ کسی جلے ہوئے کیمپ میں پناہ گزین کسی فلسطینی کے نہیں تھے، نہ ہی یہ کسی انقلابی شاعر کے قلم سے نکلے مصرعے تھے۔ یہ ایک ایسے مذہبی ادارے کے سربراہ کے الفاظ تھے جو صدیوں سے طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ ویٹیکن کے اندر سے آنے والی وہ صدا تھی جو صدیوں کے جمود کو توڑ رہی تھی۔
پوپ فرانسس کا اصل نام خورخے ماریو بیرگولیو ہے۔ وہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوا۔ کیتھولک چرچ کے روایتی مزاج سے ہٹ کر وہ پوپ بننے کے بعد پہلی بار چرچ کی فضاؤں میں ایک ایسی روشنی لے کر آیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندھیروں میں لرزش پیدا کر دی۔ اُس نے ویٹیکن کی دولت جاہ و جلال اور طاقت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر عام انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا۔ اس نے چرچ کے نچلے طبقوں، پسے ہوئے لوگوں اور باہر دھکیلے گئے انسانوں کی آواز بننے کو اپنا منصب سمجھا۔
وہ ایک ایسی دنیا کا داعی ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اس نے ہم جنس پرست افراد کے لیے نرم الفاظ استعمال کیے، اس نے موسمیاتی بحران کو ایک مذہبی اور اخلاقی مسئلہ قرار دیا، وہ مہاجرین کے ساتھ بیٹھا، ان کے پاؤں دھوئے ان کے بچوں کو گود میں لیا اور کہا کہ مذہب صرف عبادت نہیں یہ عمل ہے، یہ انصاف ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ گرجا ہو یا مسجد جب تک وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، وہ خاموشی کے مجرم ہیں۔
جب وہ پوپ منتخب ہوا تو اس نے اپنا لقب’’ فرانسس‘‘ رکھا جو سینٹ فرانسس آف اسّیسی کی یاد میں تھا، وہ درویش پادری جو فقیری میں جیتا تھا، پرندوں سے بات کرتا تھا اور جنگ کے خلاف کھل کر بولتا تھا۔ پوپ فرانسس نے اسی روایت کو اپنایا۔ اس نے ویٹیکن کے محلات میں رہنے سے انکار کیا، ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام کیا، عام گاڑی استعمال کی اور قیمتی جوتوں، گھڑیوں اور زیورات سے گریزکیا۔ اس نے نہ صرف کہا بلکہ عمل سے دکھایا کہ مذہب کی اصل طاقت اخلاقی سچائی میں ہے نہ کہ شان و شوکت میں۔
پھر جب فلسطین کی زمین پر بمباری ہوئی، جب اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دب گئے تو پوپ فرانسس نے اپنے سادہ سے دفتر سے وہ بات کہی جو بڑے بڑے صدر نہ کہہ سکے۔ اس نے کہا ’’ یہ جنگ نہیں، یہ قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے۔‘‘
جب مغربی میڈیا اسرائیل کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا تھا جب یورپی حکومتیں دفاعِ اسرائیل کو اپنا حق سمجھ رہی تھیں،جب عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے، تب اس نے انسانیت کی طرفداری کا علم اٹھایا۔وہ چاہتا تو خاموش رہ سکتا تھا۔
وہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تنازع ہے کہ ہم فریق نہیں بن سکتے کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، لیکن اس نے غیرجانبداری کو منافقت قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ظلم کے وقت خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہر مذہب دیتا ہے لیکن کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔
ہم مسلم دنیا میں اکثر خود کو مظلوموں کا وکیل سمجھتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو ہماری زبانیں سوکھ جاتی ہیں۔ ہم اپنے تجارتی معاہدے اپنے خارجہ تعلقات اور اپنی کرسیوں کو مظلوموں کے خون پر ترجیح دیتے ہیں۔ پوپ فرانسس ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ مذہب کا اصل جوہر کیا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان محض رسم ہے روح نہیں۔
پوپ فرانسس کی اپنی صحت بھی ان دنوں کمزور ہے۔ اسے کئی بار سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا ،اسپتال میں داخل کیا گیا، آپریشن ہوئے لیکن جیسے ہی وہ اسپتال سے باہر نکلا ،اس نے دنیا کے زخموں کو اپنی صحت پر ترجیح دی۔ وہ پھر سے کیمروں کے سامنے آیا اور کہا کہ ہمیں غزہ کے بچوں کے لیے دنیا کے مظلوموں کے لیے اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔
انھیں زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ان جیسے مذہبی رہنما کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی آواز ہے۔ ایسی آوازیں اب کم رہ گئی ہیں۔ ایسی آوازیں جو نہ رنگ دیکھتی ہیں نہ قوم نہ مذہب نہ سرحد۔ جو صرف انسان دیکھتی ہیں اور جو ہر انسان کے لیے انصاف مانگتی ہیں۔
اس دنیا میں جہاں ہر دوسرا مذہبی پیشوا سیاست دانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے، جہاں روحانیت طاقت کی غلامی بن چکی ہے، وہاں پوپ فرانسس ایک مختلف روایت کا پرچم بردار ہے۔ وہ جس سوچ کا حامی ہے، اس میں وہ تنہا نہیں ہے مگر وہ سوچ بہت سوں کی نہیں ہے۔
وہ جو ویٹیکن کی دیواروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں جاتا ہے، وہ جو عبادت گاہوں سے نکل کر میدانِ سچ میں آتا ہے، وہ جو خاموشی کو توڑتا ہے۔اس کی زندگی اس کی زبان اس کا طرزِ قیادت ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے اگر ہم اسے سننا چاہیں اگر ہم اسے اپنانا چاہیں۔ہم سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے مذہبی رہنماؤں کے لیے پوپ فرانسس کی زندگی ایک سبق ہے۔ وہ سبق جو ہمیں مذہب کی اصل روح سے جوڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر دل زندہ ہو تو ضمیر بولتا ہے اور جب ضمیر بولتا ہے تو دنیا کی خاموشی ٹوٹتی ہے۔