کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
15 اپریل 1985 کو سرسید کالج ناظم آباد کی 20 سالہ طالبہ بشریٰ زیدی کی ٹریفک حادثے میں ہونے والی المناک موت نے کراچی اور پورے صوبہ سندھ میں فساد ہنگامہ آرائی کی ایسی لہر پیدا کی کہ کراچی کا مستقبل تاریک ہوگیا۔ بشریٰ زیدی کے خون کی سرخی نے کراچی کی سیاست کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور دہشت گردی، ہنگامہ آرائی، لوٹ مار کی ایسی لہر چلی کہ اس کو روکتے روکتے تیس سال گزر گئے۔ اب دوبارہ ایک بار پھر کراچی میں وہی فضا قائم کی جارہی ہے۔ کراچی میں ٹریفک حادثات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ چالیس ہزار کے قریب ٹریفک پولیس میں نئی بھرتیاں کی گئی اور تمام کے تمام اہلکار غیر مقامی ہیں جو رشوت ستانی اور لوٹ مار کے سوا کوئی دوسرا کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈمپرز کے ڈرائیور ان کے لیے سونے کی کان سے کم نہیں جو روزانہ ان کی مٹھی گرم کرتے ہیں اور یہ آزادانہ طور پر پورے شہر میں دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے شہر کراچی میں ٹریفک حادثات روز کا معمول بن گئے ہیں۔ گزشتہ سال 725 ٹریفک حادثات رونما ہوئے۔ کراچی میں رات گیارہ بجے سے صبح چھے بجے تک ہیوی ٹریفک کے چلنے کے اوقات کار ہیں لیکن یہ پابندی یہ مافیا قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک چلائی جاتی ہے اور کراچی کی سڑکوں پر موت کا رقص جاری رہتا ہے۔ گزشتہ دو دنوں میں شہر کراچی میں ہونے والے ان خونیں حادثات میں 17 افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ گلستان جوہر میں ڈمپر کے بریک فیل ہو جانے کے نتیجے میں چار افراد کی ہلاکتوں نے تو پورے شہر میں ایک سوگ برپا کیا ہوا ہے۔ ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا اور چند دنوں بعد یہ گرفتاری پیش کر کے ضمانت پر رہا ہو جائے گا اور دوبارہ اسی طرح روڈوں پر موت کا رقص جاری رہے گا۔
کراچی کے شہری عذاب اور مصائب کا شکار ہیں اور حکومت نام کی اس شہر میں کوئی چیز نہیں ہے۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی یا پھر شہری حکومت سب اس شہر سے ٹیکس کے نام پر نوٹ بٹورنا تو جانتے ہیں لیکن عوام کے مسائل حل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کراچی اربوں کے حساب سے روزانہ کی بنیاد پر ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن یہاں کے شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ نہ اس شہر میں پانی ہے، نہ بجلی، نہ گیس، نہ ہی سیوریج کا کوئی بہتر نظام، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ بدامنی لوٹ مار ڈکیتی چوری، رہزنی روز کا معمول بنے ہوئے ہیں اور اس شہر کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر موت کا رقص جاری ہے لوگ اپنے گھروں سے ملازمت کے لیے نکلتے ہیں انہیں خبر نہیں ہوتی کہ رات کو زندہ بھی واپس آئیں گے یا نہیں۔ ٹریفک پولیس اور اعلیٰ حکام کی غفلت سے یہ خونیں حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر بے لگام ٹریفک شہریوں کی جان کا دشمن بن گیا ہے۔ ٹینکرز، ٹرالرز اور ڈمپر ٹرکس بے قابو ہوچکے ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ کراچی کی سڑکیں خطرناک حد تک غیر محفوظ ہیں۔ ماہ جنوری میں 89 قیمتی جانیں ٹریفک حادثات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ رشوت خور ٹریفک پولیس جو کہ ہر چوراہے پر ٹولیوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے لیکن وہ کراچی کے نوجوانوں اور مڈل کلاس طبقہ کے موٹر سائیکل سواروں پر تمام قوانین کا نفاذ چاہتی ہیں۔ شہر میں ہیوی ٹریفک جن میں کوچز بھی شامل ہیں یہ سب بغیر فٹنس کے چل رہی ہیں۔ ڈرائیورں کے پاس نہ گاڑی کے کاغذات ہوتے ہیں نہ ڈرائیونگ لائسنس سب کچھ ٹریفک پولیس کی مٹھی گرم کر کے ہی چلایا جاتا ہے۔ ہر ایس او کو کروڑوں روپے بھتے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے اور یہ سب اپنا ٹارگٹ پورا کرنے میں ہی لگے ہوتے ہیں۔ ٹریفک کو رواں رکھنا اور حادثات کی روک تھام کی منصوبہ بندی کرنا ان ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ ٹریفک قوانین صرف غریب موٹر سائیکل سواروں کے لیے ہی لاگو ہوتے ہیں۔ کراچی میں قانون اور انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کب تک کراچی کے شہری اسی طرح سڑکوں پر مرتے رہیں گے اور خونیں درندے عوام کو اپنی گاڑیوں سے روندتے رہے گے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جناب شفیع صدیقی سے التجا اور درخواست ہے کہ وہ کراچی کے شہریوں کی اس نسل کشی کا نوٹس لیں اور ہیوی ٹریفک کو پابند کیا جائے کہ وہ مقررہ اوقات ہی میں شہر میں داخل ہوں اور بھاری گاڑیوں کی رفتار 20 سے 40 کلو میٹر مقرر کی جائے۔ بغیر فٹنس، پرمٹ، کاغذات اور لائسنس کے بغیر چلنے والے ڈمپرز، ٹرک، کوچز ٹینکرز کو ضبط کیا جائے اور کراچی میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ بھاری گاڑیوں کے غیر قانونی داخلے پر سخت پابندی عائد کی جائے۔ ورنہ اس طرح کے بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات شہر میں ایک بار پھر امن وامان کو تباہ وبرباد کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے حادثات متعلقہ حکام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ عوام کو مختلف مہمات پر پریشان کرنا انہیں مشتعل کرنے کے مترادف ہے۔ شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے اور ہیوی ٹریفک کو مقررہ اوقات کار کے مطابق سڑکوں لایا جائے۔ خلاف ورزی پر ہیوی ڈرائیوروں کے ساتھ مقررہ ٹریفک ایس اوکو بھی سزا دی جائے تو ٹریفک کا تباہ حال نظام ہفتوں درست ہو جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ٹریفک حادثات ٹریفک پولیس بڑھتے ہوئے کراچی میں کراچی کے سڑکوں پر کراچی کی نہیں ہے کے شہری ہیں اور کے لیے
پڑھیں:
شہریوں کیلیے بڑی سہولت؛ ملکی تاریخ میں پہلی بار انڈر پاس صرف 35 روز میں تعمیر ہوگا
اسلام آباد:پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صرف 35 روز میں انڈر پاس مکمل ہونے جا رہا ہے، جس سے شہریوں کے لیے ٹریفک کی روانی میں نمایاں بہتری آئے گی۔
جناح اسکوائر مری روڈ پر انڈر پاس کی کھدائی کا کام تیزی سے جاری ہے اور اسے ریکارڈ مدت میں مکمل کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ اسلام آباد ایئرپورٹ سے مری تک سگنل فری کوریڈور کا حصہ ہے، جو آمدورفت میں آسانی فراہم کرے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے منصوبے کا دورہ کیا اور جاری تعمیراتی کام کا جائزہ لیا۔ انہوں نے انڈر پاس منصوبے کو صرف 35 دن میں مکمل کرنے کی ہدایت جاری کی اور کہا کہ رفتار کے ساتھ ساتھ تعمیراتی معیار پر بھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ نے شہریوں کی آمدورفت کو متاثر نہ ہونے دینے کے لیے متبادل راستوں پر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کی بھی ہدایت دی۔ انہوں نے کہا کہ سگنل فری کوریڈور سے سیاحوں کو مری پہنچنے میں سہولت ملے گی اور ٹریفک جام کا برسوں پرانا مسئلہ حل ہوگا۔ یہ منصوبہ کشمیر چوک کے قریب ٹریفک کے دباؤ کو بھی کم کرے گا۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے اسلام آباد کے مجموعی ٹریفک نظام میں بہتری آئے گی اور ایندھن کی بچت بھی ممکن ہوگی۔
اس موقع پر چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا نے وزیر داخلہ کو منصوبے کی پیش رفت پر بریفنگ دی اور بتایا کہ منصوبے میں 479 میٹر طویل انڈر پاس شامل ہے، جو تین ٹریفک لینز کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت ملحقہ پل کو بھی چوڑا کیا جا رہا ہے، دونوں اطراف میں دو دو لینز کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ 4 ملحقہ سلپ روڈز کو بھی کشادہ کیا جائے گا تاکہ ٹریفک کی روانی بہتر ہو۔ حکام کا کہنا ہے کہ انشاءاللہ منصوبے کو مقررہ وقت میں مکمل کر لیا جائے گا۔