پاکستان کی معیشت کے بارے میں حالیہ دنوں میں جو تصویر پیش کی جا رہی ہے، اس کا عکس بھی عملی دنیا میں نظر نہیں آرہا ہے، افراطِ زر کی شرح میں نمایاں کمی، بنیادی شرح سود میں تخفیف، اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ جیسے عوامل کو معاشی کامیابیوں کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ کے سربراہ، نواز شریف، وزیراعظم شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ معاشی بہتری اور مہنگائی میں کمی ملک و قوم کے لیے اچھے اشارے ہیں۔ جبکہ حکومت نے مہنگائی میں کمی کا دعویٰ کیا ہے اس کے برعکس 13 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق سالانہ بنیاد پر 1.
02 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ یہاں تک کہ ڈیزل، چینی، لہسن، نمک، پٹرول، سگریٹ، کپڑا، خشک دودھ اور جلانے کی لکڑی مہنگی ہوئیں ہیں۔ عام آدمی کی حالت ِ زار کو دیکھتے ہوئے حکومتی دعوے کھوکھلے محسوس ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر مزدور ضرور نظر آتے ہیں، مگر ان کے پاس کام نہیں ہے۔ صرف افراط زر کی شرح کو بیان کر کے خوشی سے بغلیں بجانا درست نہیں ہے۔ افراط زر کا اصل فائدہ تب ہوتا ہے، جب پیداوار اور لوگوں کی آمدن بڑھ رہی ہو اور ان کی قوت خرید اتنی ہو کہ وہ کم افراط زر میں اپنی ضروریات کی چیزیں خرید سکیں۔
پاکستان میں ہونے والے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور بھاری ٹیکسوں کے بعد لوگوں کی حقیقی آمدن بہت کم ہو چکی ہے۔ حکومت نے درآمدات کم کر دیں، عوام پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ لاد دیا، ملک میں غربت بڑھ گئی، اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے، اور آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ بھی مسائل کا شکار ہے۔ ٹیکس وصولی میں کمی اور ٹیکس چوری کے بڑھنے سے قرضوں کی ادائیگی میں دشواری ہو رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے اپنی کامیابیوں کا ڈھول پیٹنا سمجھ سے باہر ہے۔ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’’فچ‘‘ کی رپورٹ پاکستان کی مالیاتی استحکام کی چند کامیابیوں کو تسلیم کرتی ہے، مگر ساتھ ہی بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور آئی ایم ایف کے پروگرام میں تاخیر کے خطرات کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان نے سخت مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے مہنگائی کو قابو میں رکھا اور جاری کھاتوں کے خسارے کو سرپلس میں تبدیل کیا۔ لیکن کیا یہ تبدیلیاں پاکستان کے مزدور طبقے کے حالاتِ زندگی میں کوئی واضح بہتری لا سکی ہیں؟ مہنگائی کی شرح میں کمی کا مطلب یہ نہیں کہ قیمتیں کم ہو گئی ہیں بلکہ یہ صرف قیمتوں کے بڑھنے کی رفتار میں سست روی کی عکاسی کرتا ہے۔ عام شہری کے لیے جو روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی کا سامنا کرتا ہے، یہ شرح کمی محض ایک ظاہری عددی خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاکستان کی معیشت کی اصل کمزوری اس کی پیداواری صلاحیت میں کمی ہے جس پر ابھی تک کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی میں اجرتوں کی سب سے زیادہ اوسط سالانہ شرحِ نمو محض 12 فی صد رہی ہے۔ یہ توقع کرنا کہ اجرتیں تقریباً دوگنا رفتار سے بڑھیں گی، اقتصادی منطق کے خلاف ہے۔ پاکستان کو مستقل طور پر ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا رہتا ہے، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، جدید ٹیکنالوجی کا فروغ، اور افرادی قوت کی پیشہ ورانہ تربیت وہ عوامل ہیں جو معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کر سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پالیسیاں بناتے وقت زمینی حقائق کو مدنظر رکھے اور ایسے اقدامات کرے جو عام آدمی کی قوت خرید میں حقیقی اضافہ کریں۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حل کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کو صرف اعداد وشمار کی روشنی میں نہ دیکھا جائے بلکہ ان اعداد کے پیچھے چھپے ہوئے حقیقی مسائل کو سمجھا جائے۔ جب تک عام آدمی کی زندگی میں مثبت تبدیلی نہیں آتی، تب تک معیشت کی ترقی کے تمام دعوے محض کاغذی حیثیت رکھتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
لاہور: پاکستان میں پیچیدہ ٹیکس نظام اور ہر سطح پر رشوت خوری غیر دستاویزی معیشت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں.
جب کوئی بھی کاروباری شخص اپنے کاروبار کو رجسٹر کرانا چاہتا ہے تو اس کو بار بار دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور پھر ہر سطح پر رشوت دینی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے تاجر اپنے کاروبار کو رجسٹر کرانے میں دلچسپی نہیں لیتے.
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں غیر رسمی معیشت کا حجم رسمی معیشت سے ڈبل ہے، جو کہ تقریبا 400 سے 500 ارب ڈالر بنتا ہے، ریئل اسٹیٹ میں اس کا حجم تقریبا 70 فیصد تک ہے.
مزید پڑھیں: ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلیے ایف بی آر نے ہفتے کی چھٹی ختم کردی
چھوٹے کاروبار اور ریٹیل دکانوں کا نمبر دوسرا ہے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (SDPI) کے ایک حالیہ مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کا 40% ریٹیل سیکٹر غیر رسمی طور پر کام کرتا ہے، جس سے حکومت کو سالانہ 1.5 ٹریلین روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے.
چھوٹے کارخانے بھی اس میں پیچھے نہیں ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے قوانین کو آسان بنانا، چھوٹے کاروباروں کے لیے شرحوں کو کم کرنا، اور عوامی خدمات کو بہتر بنانا لوگوں کو رسمی معیشت میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتا ہے.
مزید پڑھیں: وزیراعظم کی ایف بی آر اور وزرا کو 34 ارب 50 کروڑ روپے کی ریکوری پر شاباش
ماہرین کے مطابق جب تک کہ رسمی نظام زیادہ قابل رسائی اور قابل اعتماد نہیں ہو جاتا، غیر رسمی معیشت ترقی کرتی رہے گی، جس سے پاکستان کم آمدنی اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے چکر میں پھنسا رہے گا۔