Jasarat News:
2025-04-22@05:59:16 GMT

شعراء اور ادیب نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہوتے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

شعراء اور ادیب نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہوتے ہیں

رحیم طلب
دھرتی زاد شعراء اور ادیب نظریاتی سرحدوں کیمحافظ ہیں، جنھوں نے ہمیشہ حملہ آوروں، قبضہ گیروں، ظلم وجبر اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف بلا خوف و خطر علم بلند کیا. اپنی دھرتی، مقامی لوگوں اور غربت وافلاس کو اپنی شاعری اور نثرنگاری میں موضوع بنایا۔
علم وادب کا گہوارہ احمد پور شرقیہ قیام پاکستان سے قبل بھی ریاست بہاولپور کاصدر مقام ہونے کے باعث شعراء اور ادیبوں کا من پسند شہر تھا ۔ادبی تخلیقات کا سفر کراچی سے شروع کیا.

اس وقت ان کا شمار اردو اور سرائیکی کے نامور شعراء اور نثر نگاروں میں ہوتا ہے. نظم لکھنے کا ایک نیا تجربہ کیا جو شاعری میں جدت و انقلابی قدم تھا، تصویر کو دیکھ کر نظم لکھنے کے تجربے کو ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی
.شاعری اور نثرنگاری میں 9 کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ان کی تصانیف میں، الحمداللہ،(بیاض سونی پتی کی سور ہ فاتحہ کی منظوم تفسیر)،سخن فرید،سونا چاندی،زمین آسمان،آکھیا مبارک شاہ، پرسیپیشن آف گاڈ اینڈ یونیورس، فراہم دی ستلج بنک، اور ایہو سچ اے شامل ہیں جبکہ 4 تصانیف مثنوی رسول اللہ، کونجاں دے گل کھانگے، بت شیشے دا دل شیشے دا اور ایک صدی کی کی سائنسی معلومات پر مبنی کتاب کنٹری آف سائنس (اردو، انگریزی) زیر طباعت ہیں. رحیم طلب نے اپنی شاعری اور نثر نگاری میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کا احاطہ دنیا بھر میں معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف قلم اٹھانا جہاد ہے، ایک منظم ساڑش کے تحت وادی سندھ کی تہذیبوں میں تصادم کی سازش کی جارہی ہے، جو انتہائی خطرناک ہے، وادی سندھ کی ہزارہا صدیوں پرانی تہذیب وتمدن، زبانوں،ادب اور ان کے مشاہیر کی شناخت کو مٹانے کی سازشوں کے آگے بندھ باندھنا ہوگا. ؎

ہمارے زمانے میں جو اصل میڈیا تھا،جس کی اپروچ ایزی تھی، وہ تھا ریڈیو۔ ریڈیو سے جو نغمے نشر ہوتے تھے وہ دل پر اثر کرتے تھے اور دوسرا یہ ہے کہ محرم کے ایام میں، میں مر ثیے اور نوحے سنا کرتا تھا، ہمارے محلے کی ایک ٹیم تھی جو مرثیے گروپ کی صورت میں گایا کرتی تھی تو میں ان سے بڑا متاثر تھا، میرے دل میں بھی ایک امنگ ابھری کہ میں بھی شاعری کروں، گیت لکھوں، تو اس طرح میں نے گیت لکھنے کی شروعات کی. اس طرح میں نے شاعری کا اغاز کیا. اس دوران کالج پہنچا تو تعلیمی اخراجات کے لئے مقامی اخبارات میں کام کیا،پھر اردو ادب میں شاعری اور نثر نگاری میں اپنا ایک مقام بنایا. رحیم طلب کا کہنا تھا کہ شاعری پر میرے گھر والوں کا کوئی خاص رد عمل نہیں تھا کیونکہ میرے والدین ان پڑھ تھے اور میرے بھائی صرف اردو لکھنا پڑھنا جانتے تھے جنھوں میری حوصلہ افزائی کی اور میں ادبی میدان میں مزید آگے بڑھتا چلا گیا. رحیم طلب نے آخر میں کہا کہ اردو، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، پنجابی، براہوی اور دیگر مقامی زبانوں کے ادہبوں ودانشوروں کو چاہیئے کہ تہذیبوں کے ٹکراؤ کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے آگے آئیں اور اپنا کردار ادا کریں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شعراء اور شاعری اور

پڑھیں:

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی 87 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔

شاعرِ مشرق، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی 87 ویں برسی آج ملک بھر میں نہایت عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے. علامہ اقبال کو دنیا سے رخصت ہوئے 87 برس بیت گئے لیکن ان کے اشعار اور افکار آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونکی، 1930 میں آپ کا الہٰ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے، علامہ اقبالؒ کی تعلیمات اور قائد اعظمؒ کی ان تھک کوششوں سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی، مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد علامہ اقبالؒ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ماسٹرزکیا اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلینڈ چلے گئے جہاں قانون کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے اورینٹیئل کالج میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیئے تاہم وکالت کو مستقل پیشے کے طور پر اپنایا، علامہ اقبالؒ وکالت کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لیا، 1922 میں حکومت کی طرف سے آپ کو ’سر‘ کا خطاب ملا۔ مفکر پاکستان کا شمار برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ساز شخصیات میں ہوتا ہے، علامہ اقبالؒ نے ناصرف تصور پاکستان پیش کیا بلکہ اپنی شاعری سے مسلمانوں، نوجوانوں اور سماج کو آفاقی پیغام پہنچایا۔  علامہ اقبالؒ کے معروف مجموعہ کلام میں بانگ درا، ضرب کلیم، ارمغان حجاز اور بال جبریل شامل ہیں، موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ کے کلام کے ذریعے اتحاد اور یگانگت کا پیغام عام کیا جائے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری سے برصغیر کی مسلم قوم میں بیداری کی نئی روح پھونک دی، علامہ اقبال کی کاوشوں سے ہی تحریک پاکستان نے زور پکڑا اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں 14 اگست 1947 کو ایک آزاد وطن پاکستان حاصل کرلیا۔ پاکستان کی آزادی سے قبل ہی علامہ اقبال 21 اپریل 1938 کو انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی، قوم کے اس عظیم شاعر کا مزار لاہور میں بادشاہی مسجد کے احاطے میں واقع ہے۔

متعلقہ مضامین

  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب رضوی کیلیے عالمی ایوارڈ
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے: وفاقی وزیر
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  •  قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے :  عمرایوب
  • عازمین حج کو ویکسین کی  فراہمی آج سے شروع ہو گی 
  • ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی 87 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
  • زباں فہمی نمبر245؛کشمیر اور اُردو (حصہ اوّل)
  • توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • گلوکار حسین رحیم نے خاموشی سے شادی کرلی
  • صیہونی حملے کے بعد اسرائیلی نژاد امریکی قیدی کا کوئی علم نہیں، ایک محافظ شہید ہو چکا ہے، القسام بریگیڈ