غزہ پر امریکی قبضے کااعلان‘ بحران در بحران
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حلف اٹھائے ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے کہ انہوں نے دنیا فتح کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔ انہوں نے ایک طرف کینیڈا، میکسیکو اور چین پر ٹیکس عائد کرکے جنگ چھیڑی ہے ،جب کہ دوسری طرف گرین لینڈ اور نہرپاناما کے محاذ پر بھی اپنے پیادوں کی دوڑیں لگوارکھی ہیں۔ تیسرا محاذ انہوں نے غزہ پر قبضے کا اعلان کرکے کھول دیا ہے،جس کے بعد اب وہ دنیا کو اپنا دشمن بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ بات تو اب کسی سے مخفی نہیں ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے دو ہی مقاصد ہیں۔
ایک رئیل اسٹیٹ اور دوسرا صہیونی ریاست کا تحفظ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ٹرمپ کی سرمایہ دارانہ پالیسیاں بھی درحقیقت اسرائیل کے قدم مضبو ط کرنے کے لیے ہیں۔ اپنے گزشتہ دور میں بھی انہوں نے اسی جارحانہ انداز میں فلسطینیوں کے خلاف معاندانہ اقدامات کیے تھے۔اس بار بھی جس رفتار سے وہ اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کو بے تاب ہیں، اس کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا یقین نہیں ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں صہیونیت نوازی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ ٹرمپ کے گزشتہ دور اقتدار میں مشرق وسطیٰ سے متعلق خارجہ پالیسی ان کے یہودی داماد جیرڈ کشنر کے سپرد تھی،جس کی سازشی ذہنیت نے معاہدہ ابراہیمی اور مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے جیسے گل کھلائے تھے۔ اور اب غزہ پر قبضہ کرکے امریکی کالونی بنانے کا منصوبہ بھی اسی کے پیش کردہ منصوبے کا شاخسانہ ہے۔
جیرڈ کشنر نے 15 فروری 2024 ء کو ہاورڈ یونیورسٹی میں ایک انٹرویو کے موقع پر کہا تھا کہ اگر لوگ رہائش اختیار کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو غزہ میں سمندر کے مقابل واقع املاک بہت قیمتی ہیں۔ اسرائیل کو چاہیے کہ صحرائے نقب کا ایک علاقہ منہدم کر کے وہاں فلسطینیوں کو منتقل کر دے۔ٹرمپ کے داماد نے تجویز پیش کی تھی کہ اسرائیل غزہ کی پٹی سے شہریوں کو نکال کر پٹی کی صفائی کر دے۔اگر لوگوں نے غزہ میں رہنے کی سوچ بنا لی تو وہاں سمندر کے مقابل واقع جائدادیں بہت مہنگی ہو سکتی ہیں۔کشنر کا کہنا تھا کہ صورت حال افسوس ناک ہے تاہم اسرائیل کے نقطہ نظر سے اس کو چاہیے کہ لوگوں کو نکالنے کے لیے بھرپور کوشش کرے اور پھر جگہ کو صاف کرے۔اگر وہ اسرائیل میں اقتدار میں ہوتے تو ان کی اولین ترجیح جنوبی شہر رفح سے شہریوں کو نکالنا ہوتا ۔ سفارت کاری کے ذریعے ان کو مصر میں داخل کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔انٹرویوکے دوران جیرڈ کشنر سے پوچھا گیا کہ آیا فلسطینیوں کو اپنی الگ ریاست حاصل کرنا چاہیے، تو انہوں نے اس تجویز کوانتہائی برا خیال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بنیادی طور پر دہشت گردوں کو نوازنے کے مترادف ہوگا۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میںغزہ کے کنٹرول کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ غزہ کا کنٹرول طشتری میں رکھ کر صہیونی حکومت کو تحفے میں پیش کیاجائے گا ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی آنکھوں کی چمک اور صہیونی میڈیا کے بغلیں بجائے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے رقبے میں اضافے کے لیے امریکاعلانیہ طور پر میدان میں اترچکا ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کو درپیش تاریخی مسئلے کا بڑی چالاکی سے حل نکالا ہے۔ نیتن یاہو کے امریکی دورے کے نتائج توقعات سے بھی بڑھ کر سامنے آرہے ہیں۔
دوسری جانب ٹرمپ کے اعلان کے نتیجے میں دنیا بھر سے سخت ردعمل دیا جارہا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو نے پریس کانفرنس کے دوران بات کو گھمانے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا کو دلاسا دیا کہ امریکی صدر غزہ کی تعمیر نو کی بات کررہے تھے اور غزہ میں شہریوںکی موجودگی میں تعمیراتی عمل جاری نہیں رہ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے جس بات کا اعلان کیا وہ ایک پیشکش ہے اور امریکا علاقے کی تعمیر نو کے لیے ذمے دار بننے کو تیار ہے۔ تاہم دنیا ٹرمپ کے کٹھ پتلیوں کے بیانات کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ ٹرمپ نے اپنے بیان میںدعویٰ کیا ہے کہ عرب ممالک اور دیگر حکومتیں ان کی تجویز سے متفق ہیں ، بلکہ پسند کررہی ہیں، لیکن دنیا کے ردعمل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی جھوٹ بولنے کی عادت ابھی تک گئی نہیں ہے۔
عالمی ردعمل
امریکی اتحادیوں اور مخالفین دونوں نے ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر امریکا کے انتظامی کنٹرول اور فلسطینی رہایشیوں کو مستقل طور پر کسی اور ملک میں آباد کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا اور شدید مذمت کی۔ متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب، آسٹریلیا، آئر لینڈ، چین ، نیوزی لینڈاور جرمنی اسی طرح یورپی یونین اورکریملن کے ایک ترجمان سمیت سب نے دو ریاستی حل کے لیے حمایت کا اعادہ کیا۔ مصر ، اردن اور مشرق وسطیٰ میں دیگر امریکی اتحادی 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو غزہ سے کسی اور مقام پر از سرنو آباد کرنے کی تجویز کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے تبصروں کے بعد مصر کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیاجس میں فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے باہر منتقل کیے بغیر تعمیر نو کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
اقوام متحدہ ؍ ایمنسٹی انٹرنیشنل
سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتیریس نے کہا کہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی توثیق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ تنازع کے حل کی تلاش میں ہمیں مسائل بدتر نہیں کرنے چاہییں۔ نسل کشی کی کسی بھی قسم سے گریز کرکے بین الاقوامی قانون پر قائم رہنا ضروری ہے۔ ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ غزہ پر صدر ٹرمپ کے قبضے کا بیان اشتعال انگیز اور شرمناک ہے، ٹرمپ کا بیان بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مزید کہا کہ مقبوضہ علاقے سے فلسطینیوں کو جبری بے دخل کرنا جنگی جرم ہے۔
آرگنائزیشن آف اسلامک کاپریشن ( اوآئی سی )
آرگنائزیشن آف اسلامک کاپریشن ( اوآئی سی ) نے ٹرمپ کے بیان پر سخت ردعمل جاری کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی سرزمین پر جغرافیائی یا آبادیاتی تبدیلی کا کوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کی مبینہ خود مختاری کو ترجیح دینا قبول نہیں، ٹرمپ کے بیانات فلسطینیوں کی زمین پر زبردستی قبضے اور یہودی آبادکاری کے عکاس ہیں اور ایسے بیانات اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ٹرمپ کے بیانات خطے میں امن و استحکام کے امکانات ختم کرنے کے مترادف ہیں۔
یورپی یونین
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے ترجمان نے کہا کہ غزہ کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ یورپی یونین اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہے،جو اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کے لیے طویل مدتی امن کا واحد راستہ ہے۔آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البنیز نے کہاکہ آسٹریلیا کا موقف وہی ہے جو آج صبح تھا ، جوگزشتہ سال تھا اور جو 10سال قبل تھا۔ آئرلینڈ کے وزیر اعظم مائیکل مارٹن نے کہاکہ گزشتہ رات کے تبصرے بلا شبہہ بہت تشویش نا ک تھے۔ جب بھی امریکی انتظامیہ کی بات آتی ہے تو میں کوئی بھی فیصلہ اس بنیاد پر کرتا ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں، نہ کہ وہ کیا کچھ کہتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے ہزاروں فلسطینیوں کی تصاویر کا حوالہ دیا جوملبے سے گزر کر اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔ اسٹارمرنے کہاکہ کہ انہیں گھر واپسی کی اجازت دی جانی چاہیے، انہیں تعمیر نو کی اجازت دی جانی چاہیے اور ہمیں دو ریاستی حل کے راستے پر اس تعمیر نو میں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔
سعودی عرب
سعودی عرب نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے ہمارا موقف اٹل، مضبوط اور غیر متزلزل ہے۔ آزاد فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن نہیں۔ کنگ فیصل سینٹر فار اسٹڈیز کے چیئرمین شہزادہ ترکی فیصل نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں سخت گیر اسرائیلی موقف اپنایا اور مذاکرات کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سعودی موقف تاریخی طور پر ثابت قدمی پر مبنی رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین میں نسل کشی کے سامنے ڈٹ جانے کے لیے سعودی عرب کے زیر قیادت ایک عالمی اجتماع کی ضرورت ہے۔ ہم یہ نہ بھولیں کہ یہ نسلی تطہیر صرف غزہ میں نہیں بلکہ مغربی کنارے میں بھی ہو گی۔ لہٰذا اقوام متحدہ کی سطح پر رد عمل سامنے آنا چاہیے تا کہ اس حوالے سے امریکی موقف سے اختلاف کا بھرپور اظہار ہو۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے موقف کی واضح اور غیر مبہم انداز میں تصدیق کی ہے جس کی کسی بھی صورت میں کوئی اور تشریح نہیں کی جا سکتی۔
ترکیہ
ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان نے کہا کہ غزہ سے ملک بدریوں کی ٹرمپ کی تجویز کو نہ تو دنیا اور نہ ہی ہم قبول کریں گے۔ فیدان نے کہا کہ میری رائے میں اس کے بارے میں سوچنے کا مطالبہ بھی مضحکہ خیز ہے۔
فلسطینی اتھارٹی
جاپان میں فلسطینی اتھارٹی کے سفیر ولید صیام نے امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا رئیل اسٹیٹ کا بزنس نہیں ہے۔ٹرمپ کا اچانک اعلان اس امر کا اظہار ہے کہ وہ قبضے کی جیت پر یقین رکھتے ہیں اور فلسطینیوں کی سرزمین کو فلسطینیوں سے خالی کرا کے قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ دنیا میں امن لانا چاہتے ہیں، لیکن انہیں خبر ہونی چاہیے کی لوگوں کو ان کے گھروں اور سرزمین سے بے دخل کر کے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ امریکی صدر کی خواہش ہے کہ وہ گرین لینڈ پر قبضہ کر لیں، کینیڈا کو ضم کر لیں، پاناما نہر کو اپنے کنٹرول میں لے لیں اور اب انہوں نے غزہ پر بھی واضح لفظوں میں قبضے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے۔ ٹرمپ آخری آدمی تھے جن سے دنیا امن کی توقع کر رہی تھی، لیکن ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔
امریکی سیا ست دانوں کا ردعمل
امریکا میں حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے بھی ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا ۔ ڈیمو کریٹک سینیٹر کرس کونز نے ان بیانات کو جارحانہ اور خطرناک قرار دیا۔ کونزنے بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے کو ختم کرنے کے فیصلے کے حوالے سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیوں دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کے عشروں سے اچھی طرح سے چلنے والے پروگراموں کو ترک کریں گے اور اب انسانی ہمدردی کے ایک سب سے بڑے چیلنج کا آغاز کریں گے ؟ ایوان کے اسپیکر ، ایوان نمایندگان کی ری پبلکن اکثریت کے لیڈر ،مائیک جانسن نے غزہ پر قبضے کی ٹرمپ کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔سینیٹ میں ا کثریتی رہنما ر پبلکن جان تھون نے غیر جانبدارانہ خیال پیش کرتے ہوئے کہاکہ ٹرمپ ایک زیادہ پر امن اور محفوظ مشرق وسطیٰ چاہتے ہیں اور وہا ں کے لیے کچھ تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں۔
دنیا کی جانب سے دیا جانے والا ردعمل خلاف توقع نہیں ہے بلکہ زبانی طور پر دنیا کا ردعمل اس وقت زیادہ شدید تھا جب اسرائیل غزہ میں 40ہزار افراد کا قتل عام کررہا تھا ، لیکن دنیا پھر بھی اس کے آگے بے بسی کی تصویربنی ہوئی تھی۔اس موقع پر سعودی عرب کی جانب سے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار بہت تشویش ناک ہے ،جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میںاسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ ٹرمپ نے اپنے منصوبے میںذرا ترمیم کرکے اگر چندایکڑ زمین پرفلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا تو کیاریاض حکومت ارض مقدس میں یہود کو داخل ہونے کی اجازت دے دے گی؟
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کے کرتے ہوئے کہا فلسطینیوں کی فلسطینیوں کو بین الاقوامی ٹرمپ نے اپنے دو ریاستی حل اور فلسطینی اقوام متحدہ میں فلسطینی کی تجویز کو کے حوالے سے اسرائیل کے امریکی صدر چاہتے ہیں نے کہا کہ انہوں نے نہیں ہے کرنے کی کہ ٹرمپ ٹرمپ کے قبضے کا ٹرمپ کی کہ غزہ کے لیے
پڑھیں:
امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے شہریوں کی جبری بیدخلی روک دی
امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کو وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری طور پر ملک بدر کرنے سے تاحکم ثانی روک دیا ہے۔ یہ حکم وینزویلا کے متاثرہ تارکین وطن کی جانب سے دائر کی گئی مداخلتی استدعا پر جاری کیا گیا، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہیں عدالتی جائزے کے بغیر جبری بیدخلی کا سامنا ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں بنیادی عدالتی عمل کے بغیر ملک بدر کیا جا رہا ہے، جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تارکین وطن خطرناک گینگز سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کی موجودگی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف آخری کامیابی وائٹ ہاؤس کو ہی حاصل ہوگی، تاہم انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ عدالتی حکم پر عملدرآمد سے انکار کرے گی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اب بھی مزید پچاس سے زائد وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری بیدخل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دو سو سے زائد وینزویلا کے باشندوں سمیت متعدد افراد کو السلواڈور کی جیلوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، جس پر انسانی حقوق کے اداروں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف امریکہ بھر میں مظاہرے
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اور ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسیوں کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی سامنے آئے ہیں۔ واشنگٹن، شکاگو اور دیگر اہم شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، جب کہ نیویارک میں صدر ٹرمپ کے خلاف سب سے بڑی ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنماؤں نے کی۔
مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ ان کے غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت گیر پالیسیوں اور متنازع اقدامات سے نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔
ان مظاہروں کی کال معروف تحریک ’ففٹی ففٹی ون موومنٹ‘ کی جانب سے دی گئی تھی، جس کا مقصد تمام پچاس امریکی ریاستوں میں بیک وقت مظاہروں کا انعقاد کرنا ہے تاکہ ایک منظم عوامی ردعمل دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔
Post Views: 3