اسلام ٹائمز: بیرون ملک مخالف گروپوں کے دعوؤں کے باوجود، ایرانی آبادی بیرونی خطرات کا سامنا کرنے اور اپنی خود مختاری کے دفاع کیلئے مسلسل متحد رہی ہے۔ یہ اجتماعی ہم آہنگی، فخر اور لچک کے مشترکہ احساس کیساتھ ایران کیخلاف جارحیت کو روکنے اور بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو مستحکم کرتی ہے۔ انقلاب مخالف گروہ، قوم اور ریاست کے درمیان تقسیم پر زور دیتے ہیں۔ وہ حقیقت میں کشیدگی بڑھانے کیلئے اکثر جھوٹے بیانیے پر انحصار کرتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ان خرافات سے پرہیز اور ایران میں حکومت کی تبدیلی جیسی خواہش کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیئے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو بلاشبہ حقیقت پسندی، احتیاط اور پرامن حل کیلئے حقیقی عزم پر مبنی پالیسی کو اپنانا چاہیئے، وگرنہ نتیجہ اسکے مکمل برعکس سامنے آئے گا، جو ٹرمپ کو دکھایا جاتا ہے۔ تحریر: علی واحدی
امریکی کانگریس کے سرکاری ترجمان دی ہل نے لکھا ہے کہ یہ خیال سرے سے غلط ہے کہ ایران کمزور ہوگیا ہے اور حالیہ علاقائی پیش رفت کی وجہ سے اس کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ بعض دعووں کے برعکس، ایران آج بھی مضبوط دفاعی صلاحیتوں اور اہم جیو پولیٹیکل لیوریج کے ساتھ اس خطے کا ایک طاقتور کھلاڑی ہے۔ ایک علاقائی طاقت اور ایک آزاد قوم کے طور پر ایران کی پوزیشن کسی بھی تنازع کو ایک بڑے خطرے میں تبدیل کرسکتی ہے۔ بیرون ملک اپوزیشن کے دعووں کے برعکس ایرانی عوام بیرونی خطرات کے پیش نظر اپنی خود مختاری کے دفاع کے لیے پہلے بھی متحد تھے اور اب بھی ہیں۔ دی ہل میگزین نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایرانی حکومت کے خاتمے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کے بعد ایران کے بارے میں امریکی بیانیے میں تین غلط فہمیاں حاوی ہیں: پہلی غلط فہمی یہ کہ ایران مشرق وسطیٰ کی حالیہ پیشرفت اور جنگ میں کمزور ہوگیا ہے۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ وہ اس قدر بے اختیار ہوگیا ہے کہ آخری حربے کے طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو آگے بڑھا سکتا ہے اور تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ ایران کےنظام کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔۔۔۔ اکثر اسرائیلی ذرائع حقیقت کو مسخ کرتے ہیں اور نئی امریکی انتظامیہ کو خطرناک غلطیوں کی طرف لے جانے کا خطرہ بڑھا رہے ہیں۔ یہ غلط فہمیاں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پالیسی سازوں کو جنگ کے حقیقی اخراجات کو کم کرنے، ایران کے خلاف پیشگی کارروائی کے لیے فوری عجلت کا غلط احساس پیدا کرنے، ایران کی داخلی سلامتی اور سیاسی استحکام کے بارے میں غلط اندازہ لگانے اور بالآخر ایران میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے پالیسیاں بنانے کی طرف رہنمائی کرسکتی ہیں۔
یہ نامکمل اور غلط بیانیہ صرف امریکی خارجہ پالیسی بنانے والے سخت گیر لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ رچرڈ ہاس نے "ایران کے مواقع" کے عنوان سے اپنے حالیہ مضمون میں کہا ہے کہ "ایران کئی دہائیوں کے مقابلے میں کمزور بلکہ زیادہ کمزور ہوچکا ہے۔" اسی طرح ڈینس راس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل نے اکتوبر کے آخر میں اپنے حملوں سے ایران کی 90 فیصد میزائل کی پیداواری صلاحیت کو تباہ کر دیا تھا۔ یہ دونوں اس طرح کے بیانات دیکر ایران کے خلاف فوجی کارروائی کو ایک قابل عمل آپشن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ امریکہ کے نئے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سینیٹ میں اس طرح کے بیانئے کو دہرایا ہے۔ روبیو نے توانائی کے عدم توازن کو ایران کے کمزور ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے، حالانکہ ایران میں توانائی کی سبسڈی کے بارے میں اصلاحات کی بات چیت گذشتہ تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ یہ کمزوری کی بجائے طویل مدتی اقتصادی منصوبہ بندی کی عکاسی کرتی ہے۔
کمزور ہونے کے دعووں کے برعکس، ایران مضبوط دفاعی صلاحیتوں اور اہم جیو پولیٹیکل لیوریج کے ساتھ آج بھی ایک طاقتور کھلاڑی ہے۔ تقریباً 90 ملین کی آبادی، جدید فوجی ٹیکنالوجی، اہم اسٹریٹجک نکات پر کنٹرول، تزویراتی جغرافیہ اور خود انحصاری پر استوار دفاعی ڈھانچہ ایران کی ایسی صلاحیتیں ہیں، جس کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔ دوسری طرف ایران کی دفاعی صلاحیتوں کا انحصار کبھی بھی حزب اللہ جیسے غیر ریاستی عناصر کے ساتھ علاقائی اتحاد پر نہیں رہا ہے۔ ایک علاقائی طاقت کے طور پر ایران کی پوزیشن، جو ایک آزاد قوم کے لیے دستیاب وسائل کی مکمل رینج سے لیس ہے، کسی بھی تنازعے کو ایک بڑا خطرہ بناسکتی ہے۔ ایران کے خلاف کسی طرح کی جنگ علاقائی استحکام کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے اور اس کے یقیناً عالمی معاشی نتائج برآمد ہوں گے۔ ایران، 1.
تہران نے اس اہم آبی گزرگاہ کو محفوظ بنانے کے لیے بحری، میزائل اور فضائی دفاعی نظام کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک تیار کر رکھا ہے۔ بیرون ملک مخالف گروپوں کے دعوؤں کے باوجود، ایرانی آبادی بیرونی خطرات کا سامنا کرنے اور اپنی خود مختاری کے دفاع کے لیے مسلسل متحد رہی ہے۔ یہ اجتماعی ہم آہنگی، فخر اور لچک کے مشترکہ احساس کے ساتھ ایران کے خلاف جارحیت کو روکنے اور بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو مستحکم کرتی ہے۔ انقلاب مخالف گروہ، قوم اور ریاست کے درمیان تقسیم پر زور دیتے ہیں۔ وہ حقیقت میں کشیدگی بڑھانے کے لیے اکثر جھوٹے بیانیے پر انحصار کرتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ان خرافات سے پرہیزاور ایران میں حکومت کی تبدیلی جیسی خواہش کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیئے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو بلاشبہ حقیقت پسندی، احتیاط اور پرامن حل کے لیے حقیقی عزم پر مبنی پالیسی کو اپنانا چاہیئے، وگرنہ نتیجہ اس کے مکمل برعکس سامنے آئے گا، جو ٹرمپ کو دکھایا جاتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ کو ایران کے خلاف ایران میں کے طور پر کہ ایران ایران کی کے ساتھ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ چین سے تجارتی تعلقات محدود کرنے کے لیے مختلف ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے.بیجنگ کا الزام
بیجنگ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 )چین نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ دوسرے ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارت محدود کر دیں اور بدلے میں انہیں امریکی کسٹم ٹیرف میں چھوٹ مل جائے گی بیجنگ حکومت نے اس پالیسی کو مسترد کر دیا ہے. چین کی وزارتِ تجارت نے پیر کے روز واضح کیا کہ وہ ان تمام فریقوں کا احترام کرتی ہے جو امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی و تجارتی تنازعات کو برابری کی بنیاد پر بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسی کسی بھی ڈیل کی سخت مخالفت کرے گی جو چین کے مفادات پر ضرب لگائے.(جاری ہے)
وزارت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر کوئی ملک ایسی ڈیل کرتا ہے جس کا مقصد چین کے ساتھ تجارتی روابط محدود کرنا ہو، تو چین اس کے خلاف موثر اور متبادل اقدامات کرے گا . ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر کسٹم ٹیرف کے نام پر یک طرفہ طور پر دباﺅ ڈالا ہے اور انہیں جبراایسے مذاکرات میں گھسیٹا ہے جنہیں وہ باہمی ٹیرف مذاکرات کا نام دے رہے ہیں چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ چین اپنے قانونی حقوق اور مفادات کے دفاع کے لیے پرعزم اور مکمل طور پر اہل ہے اور وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کے لیے بھی تیار ہے. چین کایہ سخت موقف”بلومبرگ“کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے ممالک پر مالی پابندیاں عائد کرنے کا سوچ رہی ہے جو امریکہ سے کسٹم ٹیرف میں رعایت کے بدلے چین کے ساتھ تجارتی روابط کم نہیں کریں گے . یاد رہے کہ امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے رواں ماہ کے آغاز میں بتایا تھا کہ تقریباً 50 ممالک نے امریکہ سے رابطہ کر کے اضافی کسٹم ٹیرف پر بات چیت کی خواہش ظاہر کی ہے واضح رہے کہ ٹرمپ نے 2 اپریل کو دنیا بھر کے دسیوں ممالک پر عائد تاریخی کسٹم ٹیرف کا نفاذ روک دیا تھا البتہ چین پر عائد ٹیرف برقرار رکھا تھا جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے.