UrduPoint:
2025-04-22@11:10:18 GMT

روس اور امریکہ کے مابین یوکرین کے معاملے پر رسہ کشی

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

روس اور امریکہ کے مابین یوکرین کے معاملے پر رسہ کشی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2025ء) روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کو تقریبا تین سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے۔ روسی فوج یوکرین میں کئی محاذوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔ یوکرین کو جنگی ہتھیاروں اور افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے اور امریکہ کی جانب سے کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر یوکرین کی جنگی امداد روکی جاسکتی ہے۔

روس اور مغربی ماہرین کا ماننا ہے کہ روسی صدر اپنا ہدف کے حصول کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

اس سے قطع نظر کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد کر دیں۔

ٹرمپ نے اپنی ایک انتخابی مہم کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ روس یوکرین تنازعہ 24 گھنٹوں کے اندر حل کر سکتے ہیں۔ بعد تاہم انہوں نے ان چوبیس گھنٹوں کو چھ ماہ میں تبدیل بھی کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم کریملن کے ساتھ اس معاملے پر 'انتہائی سنجیدہ‘ گفتگو کر رہی ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ وہ اور روسی صدر جلد ہی اس جنگ کے خاتمے کے لیے 'اہم قدم‘ اٹھائیں گے۔ اس جنگ میں روس کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روس کو فوجی اموات کے علاوہ مغربی پابندیوں اور معیشت میں گراوٹ جیسے معاملات کا سامنا ہے

لیکن بہرحال روسی معیشت مکمل زبوں حالی کا شکار نہیں ہوئی۔ پوٹن نے اس دوران تمام مخالف آوازوں کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کیا اور اسی لیے انہیں جنگ کے خاتمے کے حوالے سے ملکی سطح پر کسی بھرپور دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔

یوکرین سے متعلق بات چیت، یوکرین کے بغیر؟

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ پوٹن کییف کو معاملات سے باہر رکھ کر ٹرمپ کے ساتھ بہ راہ راست بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

زیلنسکی نے کہا، ”ہم کسی کو یوکرین کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرنے دے سکتے ہیں،" انہوں نے کہا کہ

روس یوکرین کی آزادی اور خودمختاری تباہ کرنا چاہتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی کوئی بھی امن ڈیل دیگر آمرانہ سوچ رکھنے والے رہنماؤں کے لیے بھی ایک خطرناک مثال قائم کرے گی۔

سفارتی حلقے کیا سوچتے ہیں؟

2016 سے 2019 تک امریکہ میں تعینات برطانوی سفیر سر کم ڈروچ کے مطابق، ”ٹرمپ اپنے امن معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے خواہاں ہیں تاہم پوٹن یوکرین کو اپنی 'آبائی زمین‘ قرار دیتے ہیں اور وہ اتنی آسانی سے یہ علاقے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔

نیٹو کے سابق ترجمان اوانا لنجکو نے کہا کہ ماسکو کے حق میں ہونے والا معاہدہ امریکہ کی کمزور پالیسی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ فن لینڈ کے سابق صدر سولی نینسٹو نے کہا، ٹرمپ اور پوٹن میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ پوٹن ایک منظم مفکر ہیں جو سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں اور ٹرمپ ایک کاروباری سوچ کے حامل انسان ہیں جن کے فیصلے فوری اور جلدبازی کے ہوتے ہیں۔

شخصیتوں میں اختلاف اس معاملے پر بھی تصادم کا سبب بن سکتا ہے۔ ٹرمپ اس جنگ کا فوری حل چاہتے ہیں جبکہ روسی صدر اس پر ابھی راضی دکھائی نہیں دیتے۔ یوکرینی صدر کے مطابق پوٹن ابھی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ اس حوالے سے ہر پیش قدمی کو سبوتاژ کر دیں گے۔

جنیوا میں سابق روسی سفارتکار، بورس بونڈاریف نے کہا، ”ٹرمپ بلآخر اس معاملے سے اکتا جائیں گے اور ان کی توجہ کسی اور مسئلے پر مرکوز ہو جائے گی اور اس بات کا اندازہ پوٹن کو بخوبی ہے۔

"

لندن کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ایک روسی فوجی اور معاشی ماہر رچرڈ کونولی نے کہا کہ ٹرمپ نے روس کو مزید ٹیکس، پابندیوں اور تیل کی قیمتوں میں کٹوتی کی دھمکی دی ہے، لیکن معاشی طور پر کمزور کرنا کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوں۔ کیونکہ کے روس کو پہلے ہی کئی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

ٹرمپ کے پاس کون سے آپشنز ہیں؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ اس بات کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے کہ یوکرین کبھی بھی نیٹو میں شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ تمام مغربی پابندیاں ختم کر سکتے ہیں۔

وہ نہ تو یورپ کو روسی توانائی کی درآمد کو دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی فوجداری عدالت کو پوٹن کے لیے اپنے جنگی جرائم کی گرفتاری کے وارنٹ کو منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اوپیک الائنس اور سعودی عرب پوٹن پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کرے۔

دوسری جانب کریملن اس بات کی پروا نہیں کرتا، کیونکہ ماسکو حکومت کے مطابق یہ جنگ روسی سلامتی کے بارے میں ہے، تیل کی قیمتوں کے بارے میں نہیں۔ روس کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اس سے امریکی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کے اتحادی اکثر ان کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ اگر پوٹن پر یہ خوف طاری نہیں ہوا تو؟

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ کا سامنا سکتے ہیں ہیں اور اس بات روس کو کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • روسی صدر نے یوکرین کے ساتھ براہ راست بات چیت کا اشارہ دے دیا
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • روسی صدر پیوٹن کا ایسٹر کے موقع پر یکطرفہ یوکرین جنگ بندی کا اعلان
  • روسی صدر کا یوکرین میں عارضی جنگ بندی کا اعلان
  • ایسٹر کے موقع پر روس یوکرین میں جنگی کارروائیاں نہیں کرے گا، روسی صدر کا فیصلہ