امریکہ کے ساتھ مذاکرات، حماقت یا خیانت!
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: پچھلے ہفتے فارن افیئرز میں ریچارد نفیو کی تحریر تھی، جو ایران کے خلاف پابندیوں کے معمار ہیں، جنہوں نے پابندیوں اور ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں مقاصد کے حصول کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ مذاکرات ہی ایران کا مقابلہ کرنے اور اسے قابو میں رکھنے اور الجھائے رکھنے کا واحد راستہ ہیں۔ کیا یہ سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ امریکہ مذاکرات کو ایران کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک بہانہ بناتا ہے۔ لیکن امریکہ کیساتھ مذاکرات کے حامی مشکلات حل کرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حل امریکہ کیساتھ مذاکرات کے ذریعے نکل آئے گا۔ تحریر: حسین شریعتمداری
اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات کے حوالے سے روزنامہ کیھان کے مدیر کی رائے پر مبنی چند نکات حسب ذیل ہیں:
1۔ جن لوگوں نے ان دنوں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا شیطانی آلہ تیار کیا ہے اور اس کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں اور اپنے گلے پھاڑ رہے ہیں، وہ یا تو "احمق" ہیں یا "غدار" اور دونوں صورتوں میں وہ نظام کی اہم ذمہ داریاں سنبھالنے کے لائق نہیں۔ امریکہ اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹنے کو ایک اسٹریٹجک ہدف کے طور پر آگے بڑھاتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس ملک میں (ریپبلکن اور ڈیموکریٹک) حکومتوں کی تبدیلی سے یہ اسٹریٹجک ہدف تبدیل نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت اسلامی ایران کے بارے میں امریکہ کے چالیس سال سے زائد سالوں کے موقف اور اقدامات کا مختصراً جائزہ لینے سے ہی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس حد تک کہ امریکہ، امام خمینی کے الفاظ اور رہبر معظم انقلاب کے اسی طرح کے نقطہ نظر میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کسی بھی معاندانہ اقدام سے باز نہیں آیا، اور اگر اس نے کسی بھی مرحلے پر دشمنانہ اقدام سے گریز کیا ہے، تو وہ صرف اس لیے ہوا ہے کہ اس کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ وہ سمجھوتہ کرنے کی پوزیشن میں تھا۔
2۔ فوج کی فضائیہ اور فضائی دفاع کے کمانڈروں کے ایک گروپ کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم انقلاب کے کل کے بیانات عقل اور تجربے کا مرکب تھے، اسباب جو کسی شک و شبہ سے بالاتر تھے، اور امریکہ کی طرف سے وعدوں کی مسلسل خلاف ورزی کے بعد اعتماد کرنی کی بہت کم گنجائش بچتی ہے۔ تجربہ کہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سمجھداری، عقلمندی اور شرافت پر مبنی عمل نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی اس سے پہلے بھی بار بار اس نکتے پر زور دے چکے ہیں اور اس کی وجہ بھی بیان کر چکے ہیں، جن میں سے ایک مثال ۵ دی ماہ ۱۴۰۱ کو بسیجیوں کے اجتماع میں دی گئی، جہاں انہوں نے پہلے ان لوگوں سے شکایت کی جو ان کے بقول "سیاسی سمجھ بوجھ کا دعویٰ کرتے ہیں" اور "سیاست کرنے اور دنیا کے حالات سے آگاہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں" لیکن مسائل کا حل امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں تلاش کرتے ہیں! پھر ایک حکیمانہ اور مستدل بیان میں فرما چکے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ کے ساتھ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے، ہم جھگڑا نہیں چاہتے، سوال یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ کیا بیٹھ کر مذاکرات کرنے اور امریکہ سے عہد لینے سے مسئلہ حل ہوجائیگا؟ ہم بیٹھ کر امریکہ سے مذاکرات کریں، عہد لیں کہ آپ کو یہ کام کرنا ہے، یہ کام نہیں کرنا، کیا مسئلہ حل ہوگا؟ الجزائر کے بیانئے کے معاملے میں، ۶۰ میں یرغمالیوں کی آزادی کے معاملے میں، امریکہ کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ میں اس وقت مجلس کا نمائندہ تھا، البتہ میں مجلس میں نہیں تھا، میں اہواز میں محاذ جنگ پر تھا، اس وقت تہران میں الجزائر کے توسط سے بات چیت ہوئی۔ البتہ مجلس کی منظوری سے ہوا یہ غیر قانونی کام نہیں تھا، انہوں نے معاہدہ کیا، متعدد عہد لیے کہ ہماری دولت واپس کرینگے، پابندیاں اٹھائیں، ہمارے داخلی امور میں مداخلت نہیں کریں گے، اور ہم بھی یرغمالیوں کو آزاد کریں گے۔ ہم نے یرغمالیوں کو آزاد کیا، کیا امریکہ نے اپنے عہد پر عمل کیا؟ کیا امریکہ نے پابندیاں اٹھائیں؟ کیا امریکہ نے ہماری ضبط شدہ دولت ہمیں واپس کی؟ نہیں، امریکہ عہد پر عمل نہیں کرتا، یہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور بیٹھنے کا نتیجہ ہے۔ یا ایٹمی معاہدہ کے بارے میں امریکیوں نے کہا کہ جوہری سرگرمیوں کو کم کریں، انہیں یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہیں کہ یہ سرگرمیاں مکمل طور پر بند کریں، کہا کہ اس کی مقدار میں کمی کریں، تو بدلے میں ہم یہ کام کریں گے، پابندیاں اٹھائیں گے، یہ کام کریں گے، وہ کام کریں گے، کیا انہوں نے یہ کام کیے؟ نہیں کیے۔ امریکہ کیساتھ مذاکرات مسائل کا حل نہیں ہیں۔
3۔ پچھلے ہفتے فارن افیئرز میں ریچارد نفیو کی تحریر تھی، جو ایران کے خلاف پابندیوں کے معمار ہیں، جنہوں نے پابندیوں اور ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں مقاصد کے حصول کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ مذاکرات ہی ایران کا مقابلہ کرنے اور اسے قابو میں رکھنے اور الجھائے رکھنے کا واحد راستہ ہیں۔ کیا یہ سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ امریکہ مذاکرات کو ایران کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک بہانہ بناتا ہے۔ لیکن امریکہ کیساتھ مذاکرات کے حامی مشکلات حل کرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حل امریکہ کیساتھ مذاکرات کے ذریعے نکل آئے گا۔
4۔ اب ان لوگوں سے جو امریکہ سے مذاکرات کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں، یہ سوال ہے کہ کیا وہ اس قدر واضح اور بدیہی حقیقت اور امریکہ کیساتھ مذاکرات سے پہنچنے والے نقصان کو نہیں سمجھتے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو یہ کم فہمی اور شعور کی کمی کی وجہ سے ہے، اور میری نگاہ میں انہیں نظام کی ذمہ داریوں میں نہیں ہونا چاہیے، اور اگر جواب اثبات میں ہے اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی تباہ کن نوعیت سے آگاہ ہونے کے باوجود وہ اس پر اصرار کیوں کرتے ہیں، تو کیا ان کا اصرار خیانت کے علاوہ کسی اور نام سے جانا جا سکتا ہے؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قابو میں رکھنے ایران کے خلاف کے بارے میں کہ مذاکرات اور امریکہ امریکہ کی کرنے اور کریں گے ہیں اور اور اس یہ کام ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 ) اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ تہران امریکا کو واضح کرچکا ہے کہ یورینیم کی افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے لیے مضبوط ضمانتوں کی ضرورت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے دوبارہ دستبردار نہیں ہوں گے.(جاری ہے)
عرب نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان روم میں ہونے والے مذکرات کے دوسرے دور کو دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے صدر ٹرمپ نے فروری سے تہران پر”زیادہ سے زیادہ دباﺅ“ کی مہم دوبارہ نافذ کی ہے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں.
ٹرمپ کی دو شرائط کے درمیان کے سالوں میں تہران نے 2015 کے معاہدے کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد پابندیوں سے مسلسل تجاوز کیا ان پابندیوں کا مقصد ایٹمی بم تیار کرنا مزید مشکل بنانا تھا سابق امریکی صدر جو بائیڈن، جن کی انتظامیہ نے 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تاہم وہ تہران کی جانب سے اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگی. تہران احتیاط کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچ رہا ہے وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں شکوک اور ٹرمپ کے موقف پر شکوک و شبہات کا شکار ہے ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے تیز رفتار پروگرام کو روکا نہیں تو ایران پر بمباری کی جائے گی ایران کا مسلسل کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے. تہران اور واشنگٹن کہہ چکے ہیں کہ وہ سفارت کاری کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تنازع پر ان کے موقف ایک دوسرے سے الگ ہیں ایرانی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تہران کی ریڈ لائنز جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے لگائی گئی ہیں کو مذاکرات میں عبور نہیں کیا جا سکتا. ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی ریڈ لائنز کا مطلب ہے کہ وہ اپنے یورینیم کی افزودگی سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح تک کم کرنے پر راضی نہیں ہوگا جو 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کو عمان میں بالواسطہ بات چیت میں معلوم ہوا کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ وہ اپنی تمام ایٹمی سرگرمیوں کو روکے یہ ایران اور امریکہ کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کی بنیاد ہو سکتی ہے یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران نے گزشتہ روز کہا کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہے اگر وہ سنجیدہ ارادوں کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے. امریکہ کے مذاکرات کار سٹیو وِٹکوف نے کو”ایکس“پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی ایٹمی افزودگی روکنا اور قریب ترین ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کے ذخیرے کو ختم کرنا ہوگا . ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ایران اس ادارے کو اس عمل میں واحد قابل قبول ادارہ سمجھتا ہے انہوں نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکیوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کو اس تعاون کے بدلے ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹانی ہوں گی.