ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، وعدے اور حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
ٹرمپ نے مصراوراردن سے مزیدفلسطینیوں کوپناہ دینےکامطالبہ کرتےہوئے بادی النظرمیں فلسطین کواسرائیل کےنقشے میں ضم کرنےکی خواہش ظاہر کی ہے۔یہ مؤقف نہ صرف فلسطینی عوام کےحقوق کےلئےخطرہ ہےبلکہ مشرق وسطیٰ میں مزید تنازعات کا باعث بھی بن سکتاہے۔عرب ممالک اوردیگرمسلم ممالک کے ساتھ امریکاکے تعلقات مزیدخراب ہونے کاخدشہ ہے۔مزید مسلم ممالک کے شہریوں پرسفری پابندیاں عائدکرنےکے اقدامات سے امریکا کے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کوشدیدنقصان پہنچا ہے۔ان پالیسیوں نے امریکامیں موجود مسلم کمیونٹی کوالگ تھلگ کردیاہے اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوشدیدتشویش میں مبتلا کیا ہے۔
ٹرمپ نےورلڈاکنامک فورم میں اپنی تقریرکےدوران سعودی عرب سے کم ازکم ایک ہزار بلین ڈالرکی امریکا میں سرمایہ کاری اور450 بلین ڈالرکی امریکی مصنوعات خریدنے کا مطالبہ کیا ۔ اس اقدام نے امریکااورسعودی عرب کے تعلقات کواقتصادی بنیادوں پر مزیدمضبوط کرنے کی بجائے یہ ظاہرکیاکہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے اتحادیوں پرمالی دباؤ ڈالنے سے گریزنہیں کرتی۔ اس قسم کی پالیسیاں وقتی طورپرامریکی معیشت کے لئے فائدہ مندہوسکتی ہیں،لیکن طویل المدتی میں یہ امریکاکے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچاسکتی ہیں ۔ ٹرمپ نے روس کویوکرین میں جنگ بندی کے لئےمعاہدہ کرنے پردبائو ڈالنے کے لئے روسی مصنوعات پرٹیرف بڑھانےکی دھمکی دی۔یہ اقدام ایک طرف روس پردباؤ بڑھانے کےلئے تھا لیکن دوسری طرف یہ امریکاکے تجارتی تعلقات کومزید پیچیدہ بناسکتاہے ۔ روسی حکومت نے اس دھمکی کومستردکرتے ہوئے امریکاپرالزام عائدکیا کہ وہ یکطرفہ فیصلوں کےذریعے عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہاہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نےجنوبی ایشیااورچین کے اثرورسوخ کومحدودکرنےکےلئے ’’کواڈ‘‘اتحادکو فعال کرنے کی حکمت عملی کاعندیہ بھی دیاہے۔اس حکمت عملی میں انڈیاکوایک اہم کردار دیا گیاتاکہ چین کی اقتصادی اورعسکری طاقت کامقابلہ کیاجا سکے۔ان اقدامات نے انڈیا کےساتھ امریکا کےتعلقات کومضبوط کیا،لیکن چین کےساتھ تجارتی جنگ اورخطے میں تنازعات کو مزیدگہرا کیا ہے۔ ’’کواڈ‘‘اتحاد کی حکمت عملی نے جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن کوبھی متاثرکیاہے۔مودی سرکار خطے میں اپنی برتری کے لئے امریکااور اسرائیل کے کندھوں کو استعمال کرنے کےلئےامریکی خواہشات پرسربسجود ہوچکی ہے جس کی بناپروہ پاک چین کی سرمایہ کاری سےبننے والے’’سی پیک‘‘ کےخلاف پاکستان میں دہشتگردی کے لئے اپنی پراکسیز کو استعمال کررہاہے۔
گزشتہ برسوں میں اس نےچین کےسرحدی علاقوں لداخ میں چینی افواج کے ساتھ جھڑپوں میں اس کی خاصی قیمت اداکی ہے اورخودبھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھامیں یہ بیان دیاکہ چین نے بھارتی لداخ کے36ہزارمربع میل پرقبضہ کرلیاہے اوراب واپسی کی بجائے اس نےوہاں اپنےفوجیوں کےلئےمستقل کنکریٹ کے بینکرزتعمیرکرلئے ہیں جس سےمراد یہ ہے کہ اس نے یہ علاقہ مستقل طورپرچین میں شامل کرلیا ہے۔اسی سلسلے میں بھارت کوایک اوردھچکا دیتے ہوئےچین نےہوتان پریفیکچرمیں لداخ کےکچھ حصے شامل کر کے2 نئی کاؤنٹیوں کے قیام کااعلان بھی کردیا۔ دراصل بھارت کی وزارت خارجہ کی جانب سے واویلا خطے میں اس کی بالادستی کے خواب کولگے دھچکے کاردعمل ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیرپرغیرقانونی قبضہ جمارکھا ہے اوراب چین کے ہاتھوں اس کے ساتھ بھی وہی ہوا ہے۔ امریکاکوبھی بری طرح احساس ہوگیاہے کہ خطے میں پہلے ہی وارمیں اس کاگھوڑالنگڑاہوگیاہے جس میں اب آگے چلنے کی نہ توہمت ہے اورنہ ہی اس میں سکت ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے چین پرٹیرف بڑھا کر اسے معاشی دباؤ میں لانے کی کوشش کی ہے لیکن سوال یہ ہےکہ کیاچین اس دباؤکےسامنے جھک جائے گایااس کاجواب دے گا؟چین کی معیشت متنوع اورمضبوط ہے۔بیلٹ اینڈروڈانیشیٹوکے ذریعےچین نےدنیا کےکئی خطوں میں اپنااثرور سوخ قائم کیاہے۔چین کے پاس عالمی منڈی میں امریکاکے ٹیرف کاجواب دینےکےلئے مختلف آپشنز موجود ہیں،جیسے کہ امریکی مصنوعات پر پابندیاں عائدکرنایادیگرممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدےکرنااورچین امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف لگاکرامریکی کسانوں اورصنعتوں کو نشانہ بناسکتاہے،جیسا کہ ماضی میں ہواہے۔اس سےامریکی معیشت پردباؤبڑھ سکتاہے اورٹرمپ کے ووٹربیس پرمنفی اثرپڑسکتاہے۔
چین نےحالیہ برسوں میں اپنی کرنسی’’یوان‘‘ کو مضبوط بنانےکی کوشش کی ہے۔وہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں ڈالرکی جگہ یوان کے استعمال کوفروغ دے کرامریکی مالیاتی نظام کوچیلنج کررہا ہے۔وہ اپنی ضرورت کا40فیصدتیل ایران سےخریدرہاہے اور اس کی ادائیگی یوآن میں کر رہاہے اوراسی طرح سعودی عرب میں درجن سے زائدبڑے پراجیکٹ چین تعمیرکررہاہے۔سعودی چینی بزنس کونسل کے چیئرمین محمد العجلان نے ’’الاخباریہ‘‘ کو انٹرویو میں کہا ’’دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی لین دین120ارب ڈالرتک پہنچ گیاہے اور چینی سرمایہ کاری کے حجم میں نمایاں اضافہ ہونے جارہاہے‘‘۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ چین شمالی کوریا کے ذریعے امریکاپردباؤڈال سکتاہے۔اگرشمالی کوریانے اپنے جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کیے تویہ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے ایک بڑی سفارتی شکست ہوسکتی ہے۔
ٹرمپ کے دورمیں میڈیاکے ساتھ تعلقات ایک اہم موضوع رہاہے۔سی این این اوردیگرلبرل میڈیا چینلزکےساتھ ان کےتنازعات نے میڈیاکی آزادی پربحث کوجنم دیا۔ٹرمپ کی ترجیح فاکس نیوزکو دینااوراس چینل کے ذریعے اپنی پالیسیوں کوعوام تک پہنچاناان کی میڈیاحکمت عملی کاحصہ رہا۔اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنی مرضی کابیانیہ تشکیل دینےمیں کتنے سنجیدہ ہیں اورہم سب جانتے ہیں کہ فاکس نیوزچینل کوچلانے والےکون ہیں؟
ٹرمپ کےدورحکومت میں امیگریشن پالیسیوں میں سخت تبدیلیاں دیکھنےکو ملیں ۔ میکسیکو کی سرحد پردیوارکی تعمیر،مسلم اکثریتی ممالک کےشہریوں پر سفری پابندیاں اور غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات نے عالمی سطح پرانسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کی تنقید کو جنم دیا۔یہ پالیسیاں ان کے’’سب سے پہلے امریکا‘‘کے نعرے کی عکاسی کرتی ہیں لیکن ان کے نفاذنے امریکاکوایک کثیرالثقافتی ملک کے طورپر کمزور کیا ہے، لیکن یہاں یہ جاننادلچسپی سےخالی نہ ہوگاکہ سخت گیرامیگریشن پالیسیوں کے ماسٹر مائنڈ کون ہیں اوراس کےپیچھے خفیہ مقاصد کیاہیں جس کےتحت بالخصوص مسلمان ممالک کےشہریوں کونشانہ بنایاگیاہے۔سٹیفن ملر، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں سینئر مشیر رہےہیں، امریکاکی سخت گیرامیگریشن پالیسیوں کےماسٹر مائنڈ سمجھےجاتے ہیں ۔ ان کی پالیسیاں امریکی سیاسی منظرنامےمیں گہرے اثرات مرتب کرچکی ہیں،خاص طورپر غیرقانونی امیگریشن کے خلاف سخت اقدامات اورامریکا کے ’’پیدائش پرشہریت‘‘کے قانون کے خاتمے کے حوالے سے ملرنے امریکی شناخت اور تحفظ کے نام پرایک متنازعہ بیانیہ پیش کیا، جوامیگریشن پالیسیوں کے سخت ہونے کاباعث بنا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو چین کے چین نے کے لئے
پڑھیں:
پاکستان اور روانڈا تعلقات میں پیشرفت؛ سرمایہ کاری سمیت دیگر مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
اسلام آباد:پاکستان اور روانڈا کے تعلقات میں نئی پیش رفت کے تحت دونوں ملکوں کے مابین سرمایہ کاری سمیت دیگر مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔
روانڈا کے امورِ خارجہ اور بین الاقوامی تعاون کے وزیراولیور جین پیٹرک ندوہنگیرے آج وزارت خارجہ اسلام آباد پہنچے، جہاں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
بعد ازاں دونوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں روانڈا کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان ڈپلومیٹک ٹریننگ کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مستقبل میں دیگر ایم او یوز پر دستخط کرنے کی بھی خواہش ظاہر کی۔
روانڈا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستانی کاروباری شخصیات روانڈا میں بزنس کریں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات باہمی احترام پر مبنی ہیں اور ہم ان تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کے دورے جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ روانڈاپاکستان کو سالانہ 26 ملین ڈالر کی برآمدات کرتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کو اعلیٰ کوالٹی کی چائے بھی بھیجی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور روانڈا عالمی امن کے فروغ کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک اقوام متحدہ کے امن مشن کے لیے فوجی فراہم کرنے والے سرفہرست ممالک میں شامل ہیں۔
پریس کانفرنس میں روانڈا کے وزیر خارجہ نے کھیلوں کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک میں کرکٹ کے شائقین موجود ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ہمیں کرکٹ میں مہارت سکھائے۔