ہندوؤں کا سب سے بڑا تہوار کمبھ میلہ بھی مودی سرکار کی نااہلی کی نذر
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
نیو دہلی:
ہندو برادری کیلئے نہایت اہم اور مقدم تہوار کمبھ میلہ بھی مودی سرکار کی نااہلی کی نذر ہوگیا۔
دنیا کے سب سے بڑے مذہبی اجتماعات میں شمار ہونے والے کمبھ میلے میں 29 جنوری 2025 کو ایک افسوسناک سانحہ پیش آیا، جس میں بھگدڑ مچنے کے نتیجے میں 30 عقیدت مند جاں بحق اور 60 سے زائد زخمی ہوگئے جب کہ سینکڑوں افراد لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔
بی بی سی کے مطابق حادثہ ناقص انتظامات اور وی آئی پی موومنٹ کے باعث پیش آیا، عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ زائرین کی ایک بڑی تعداد ایک ہی مقام پر جمع ہو گئی لیکن سیکیورٹی اور ہجوم کنٹرول کے موثر اقدامات نہ ہونے کے باعث بھگدڑ مچ گئی۔
یہ افسوسناک واقعہ نریندر مودی کی حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے مودی سرکار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ وی آئی پی موومنٹ اور حکومتی عدم توجہی کے باعث یہ حادثہ پیش آیا۔ راہول گاندھی نے الزام لگایا کہ انتظامیہ عام عقیدت مندوں کے بجائے وی آئی پی مہمانوں پر توجہ مرکوز رکھتی ہے، جس کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے مطالبہ کیا کہ کمبھ میلے کا انتظام فوج کے حوالے کر دیا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے، جب کہ الہ آباد سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اجول رمن سنگھ نے اس واقعے کی سپریم کورٹ سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب کمبھ میلے میں بھگدڑ یا بدانتظامی کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہوں۔ اس سے قبل بھی کئی بار ایسے حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ 2013 میں ناسک میں کمبھ میلے کے دوران بھگدڑ میں 42 افراد ہلاک ہوئے۔ 10 فروری 2013 کو الہ آباد ریلوے اسٹیشن پر پل گرنے سے 42 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ 2003 میں ناسک، مہاراشٹر میں کمبھ کے دوران بھگدڑ سے 39 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔
حادثے کے بعد حکومتی نااہلی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی۔ زخمیوں کو فوری طبی امداد پہنچانے کے لیے ایمبولینس تاخیر سے پہنچی، جو حکومتی غفلت کا واضح ثبوت ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت جھوٹے وعدوں اور دکھاوے کی پالیسیوں سے عوام کو مسلسل دھوکہ دے رہی ہے، جس کے باعث عوامی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں اور ناقص انتظامات نے عوام میں شدید مایوسی پیدا کر دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر حکومت کب تک اپنی عوام کو تحفظ دینے میں ناکام رہنے کے باوجود اقتدار پر قابض رہے گی؟۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مودی سرکار کمبھ میلے کے باعث
پڑھیں:
مسیحیوں کے تہوار ’ایسٹر‘ کی دلچسپ تاریخ
مسیحیوں کے تہوار ’ایسٹر‘ کی دلچسپ تاریخ WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز
جب سردی کی گرفت ختم ہوتی ہے اور بہار کی نرم ہوائیں فضاؤں میں رنگ بکھیرتی ہیں، تو دنیا بھر کی مسیحی برادری ایک ایسے روحانی اور خوشی سے بھرپور تہوار کا جشن مناتی ہے جو نہ صرف ان کے مذہبی عقیدے کی بنیاد ہے بلکہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا بھی پیغام دیتا ہے، یہ تہوار ہے ’ایسٹر‘۔
ایسٹر صرف ایک تہوار نہیں، بلکہ یہ عیسائی عقیدے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ زندگی پانے کی یاد میں منایا جاتا ہے، جو مسیحی ایمان کے مطابق جمعہ کے روز صلیب پر چڑھائے گئے اور پھر اتوار کو زندہ ہو کر واپس آئے۔
بائبل کی مقدس روایات کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جمعے کے دن مصلوب کیے جانے کے بعد ان کا جسد مبارک صلیب سے اتار کر ایک چٹانی غار میں دفن کیا گیا۔ اس غار کے دہانے کو ایک بڑے پتھر سے بند کر دیا گیا تھا۔
تاہم، روایات بیان کرتی ہیں کہ جب کچھ افراد اتوار کے روز اس غار پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ پتھر ہٹا ہوا ہے اور غار خالی ہے۔ اس منظر نے لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ اسی واقعے کی یاد میں اتوار کا دن ہر سال منایا جاتا ہے۔
ایسٹر کی تاریخ کیسے طے ہوتی ہے؟
ایسٹر کی تاریخ ہر سال مختلف ہوتی ہے، کیونکہ یہ قمری کیلنڈر کے مطابق طے کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر، یہ تہوار موسمِ بہار کے پہلے مکمل چاند کے بعد آنے والے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ مارچ کے آخر یا اپریل کے وسط تک کبھی بھی آ سکتا ہے۔ اس گنتی میں مسیحی روایتی چاند کیلنڈر کی جھلک نظر آتی ہے، جو قدرتی نظم و ضبط سے جڑا ہوا ہے۔
ایسٹر کے موقع پر جو علامتیں سب سے نمایاں ہوتی ہیں وہ ہیں رنگین انڈے اور خرگوش انڈا نئی زندگی، تخلیق اور اُمید کی علامت سمجھا جاتا ہے، جو حضرت عیسیٰ کی واپسی کی یاد بھی دلاتا ہے۔ جبکہ خرگوش ایک قدیم علامت ہے، جو افزائش اور بہار کی آمد کا پیغام لیے ہوتا ہے۔
ان رنگ برنگے انڈوں کو تلاش کرنے کا کھیل، جسے ’ایسٹر ایگ ہنٹ‘ کہا جاتا ہے، خاص طور پر بچوں میں بے حد مقبول ہے۔ چاکلیٹ، رنگین پیپرز میں لپٹے تحائف، اور خرگوش کی شکل کے میٹھے لوازمات اس تہوار کو نہایت دلکش بنا دیتے ہیں۔
ایسٹر سے پہلے کا عرصہ، جسے ”لینٹ“ کہا جاتا ہے، چالیس دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس دوران مسیحی برادری روزہ، عبادت اور سادگی کی زندگی کو اپناتی ہے۔ کچھ مخصوص کھانوں سے پرہیز کیا جاتا ہے تاکہ جسمانی خواہشات سے بالاتر ہو کر روحانیت کی طرف بڑھا جا سکے۔ ایسٹر اس چالیس روزہ ریاضت کا اختتام بھی ہوتا ہے، جس کے بعد خوشی اور جشن کا آغاز ہوتا ہے۔