وطن عزیز میں یومِ یکجہتی کشمیر ویسے تو ہر سال 5 فروری کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد کشمیری عوام کے حق ِ خودارادیت کے لیے حمایت کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ درحقیقت اس دن کو قومی سطح پر منانے کے پیچھے بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی طویل جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے اور عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنے کا محرک کارفرما ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ کشمیر کا مسئلہ 1947 میں تقسیم برصغیر کے موقع پر اس وقت پیدا ہوا جب بھارت نے کشمیری عوام کی خواہشات کے برخلاف مسلمانوں کی اکثریت کے حامل اس اہم اور تاریخی علاقے پر زبردستی قبضہ کیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر 1947، 1965 اور 1999 میں جنگیں بھی ہو چکی ہیں مگر آج بھی دونوں ممالک کے درمیان یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ اقوامِ متحدہ کی 5 جنوری 1949 کی قرارداد میں کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا لیکن بھارت نے آج تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا جس کے خلاف کشمیری عوام میں پچھلی سات دہائیوں کے دوران نفرت اور انتقام میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے نہتے اور بے گناہ کشمیری بہن بھائیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ سے زائد فوج تعینات کر رکھی ہے جو بیدردی سے کشمیریوں کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے۔
بھارت کی طرف سے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، خواتین کی بے حرمتی، نوجوانوں کو قید و بند میں رکھنا، اظہارِ رائے پر پابندی، ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کی بندش نیز کشمیری مسلمانوں کو جمعتہ المبارک اور عیدین حتیٰ کہ نماز جنازہ تک پڑھنے کی اجازت نہیں ہے جس سے کشمیری عوم میں بالعموم اور نوجوانوں میں بالخصوص بھارت کے خلاف نفرت اور اشتعال میں اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی ظالمانہ رٹ کا اندازہ اس کی جانب سے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35-A کے خاتمے سے لگایا جاسکتا ہے جس کے بعد وہاں مزید جبر اور درندگی کا آغاز ہوا ہے۔
یہ بات قابل قدر ہے کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور ہر فورم پر ان کی حمایت جاری رکھی ہے اسی طرح پاکستان میں ہر سال 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر قومی جوش وجذبے سے منایا جاتا ہے جب کہ اس دن ملک بھر کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانی دنیا کے کونے کونے میںکشمیری بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مختلف شہروں میں ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ان سے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس دن ملک بھر میں عوامی ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جن میں کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں، پریس کلبوں اور مختلف تنظیموں کی جانب سے کشمیر کی تاریخ، ثقافت اور جدوجہد پر مبنی سیمینار اور تقریری مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس روز مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے کے لیے اخبارات، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر خصوصی پروگرام اور دستاویزی فلمیں نشر کی جاتی ہیں۔ کشمیر اسی طرح کا ایک انسانی المیہ ہے جس کا سامنا اہل فلسطین اور غزہ کے مسلمان کررہے ہیں جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا جائز حق دے۔ یورپی یونین، امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف عملی اقدامات کریں اور بھارت کو ظلم و جبر سے باز رکھنے میں اپنا عالمی کردار ادا کریں۔
اس ضمن میں امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کا اسلام آباد میں قومی کشمیر کانفرنس سے اپنے خطاب میں یہ کہنا کہ محض سیاسی و اخلاقی حمایت کی یقین دہانیوں کرا کے کشمیریوں سے جان نہ چھڑائی جائے، کشمیر تحریک پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے، اسے ہر صورت تکمیل تک پہنچانا ہوگا، بھارت سے آلو، پیاز، ٹماٹر کی تجارت سے کشمیر آزاد ہوگا اور نہ ہی صرف کشمیر کمیٹی سے مسئلہ حل ہونے والا ہے، کشمیریوں کو اپنی آزادی کے لیے لڑنے کا حق اقوام متحدہ کا چارٹر دیتا ہے، فلسطین کی مثال سے ثابت ہوچکا ہے کہ طاقت کے بغیر مذاکرات نہیں ہوتے، مقبوضہ کشمیر بھی بزور شمشیر ہی آزاد ہوگا۔ حافظ صاحب کے اس واضح موقف کو اگر غزہ میں حماس کی تحریک مزاحمت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی بات میں کافی وزن نظر آتا ہے کہ اگر ہمارے حکمران اور مقتدر قوتیں کشمیر کی آزادی میں واقعئی مخلص اور سنجیدہ ہیں تو انہیں پھر بھارت کے ساتھ تجارت اور دوستی کی بھیک مانگنے کے بجائے دوٹوک انداز میں نہ صرف قوم کو تحریک آزادی کشمیر کی پشت پر کھڑا کرنا ہوگا بلکہ اس سلسلے میں جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تئیں بھی مظلوم ومقہور کشمیری عوام کا دست وبازو بننا ہوگا ورنہ قوم یہی سمجھے گی کہ ہمارے حکمران محض اپنی سیاست کی دکان چمکانے اور پاکستانی قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کشمیر کارڈ استعمال کرتے ہیں۔
دراصل یومِ یکجہتی کشمیر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کشمیر کی آزادی صرف کشمیریوں کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری امت ِ مسلمہ اور عالمی برادری کا بھی مسئلہ ہے۔ یہ دن صرف تقریروں اور نعروں کا نہیں، بلکہ عملی طور پر کشمیریوں کی ہر ممکن حمایت کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سفارتی، اخلاقی، اور سیاسی سطح پر کشمیریوں کی حمایت کرتا رہے گا اور ان کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ پوری قوم کا خواب اور ایمان ہے، جو ایک دن ان شاء اللہ ضرور حقیقت بنے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عالمی برادری کشمیری عوام کی ا زادی کشمیر کی کے خلاف کے لیے اور ان
پڑھیں:
کل جماعتی حریت کانفرنس کا حریت قیادت سمیت تمام کشمیری نظربندوں کی رہائی کا مطالبہ
حریت ترجمان نے لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے مختلف جیلوں میں نظربند حریت قیادت سمیت ہزاروں کشمیریوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور طاقت کا وحشیانہ استعمال کر کے اظہار رائے کو دبانے سے تنازعہ کشمیر کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ حریت رہنمائوں اور نوجوانوں سمیت ہزاروں کشمیری ایک طویل عرصے سے غیر قانونی طور پرنظربند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام گزشتہ 78سال سے اپنے پیدائشی حق خودارادیت کے حصول کے لیے پرامن جدوجہد میں مصروف ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم رکھا گیا ہے اور بھارت کو جلد یا بدیر انہیں یہ حق دینا ہو گا۔
حریت ترجمان نے لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ان ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرست عناصر دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد اب ایک مذموم منصوبے کے تحت وادی کشمیر کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت وادی کشمیر اور جموں خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے مذموم ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور گزشتہ چھ سالوں کے دوراں قابض افواج سمیت لاکھوں بھارتیوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے ہیں۔ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت تمام بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کے تمام بنیادی انسانی، معاشی اور سیاسی حقوق سے محروم کر رہی ہے۔
بی جے پی حکومت نے اسرائیلی طرز پر مقبوضہ علاقے میں پنڈتوں کے لئے کئی علیحدہ بستیاں اور کالونیاں تعمیر کی ہیں اور اگست 2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد اس عمل میں تیزی آئی ہے۔ حریت ترجمان نے کہا کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو جہنم بنا دیا ہے جہاں لاکھوں کشمیریوں کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بی جے پی حکومت جائیدادوں کی غیر قانونی ضبطگی، جبری بے دخلی، ملازمین کی برطرفی اور املاک کی تباہی جیسے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے تاکہ علاقے میں جلد از جلد آبادی کے تناسب میں تبدیلی کو ممکن بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہاکہ کشمیری عوام کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کے ترقی اور خوشحالی کے جھوٹے دعوئوں اور وعدوں سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ان کے لئے سب سے اہم چیز ان کا حق خودارادیت ہے جس پر بی جے پی حکومت بات کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ ترجمان نے کہا وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری مداخلت کر کے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ کشمیری عوام کو بھارت کی ہندوتوا حکومت کے حملوں سے بچایا جا سکے۔