Jasarat News:
2025-04-22@18:58:17 GMT

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ نہ کوئی داغ

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ نہ کوئی داغ

نواب زادہ نصراللہ ایک دفعہ کسی تعلیمی ادارے میں طلبہ کے ساتھ ایک نشست میں سوالوں کے جوابات دے رہے تھے یہ پروگرام ٹی وی پر میں نے خود دیکھا تھا یہ یاد نہیں ہے کہ کس شہر میں اور کس تعلیمی ادارے میں یہ پروگرام ہوا تھا۔ اس نشست میں ایک سوال ان سے ایسا کیا گیا کہ وہ خود بھی تھوڑا سا ہل گئے حالانکہ وہ بڑے ذہین اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ ایک طالب علم نے سوال کیا کہ آپ کی پوری زندگی سیاسی جدوجہد میں گزری ہے ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جب ملک میں مارشل لا ہوتا ہے تو آپ بحالی جمہوریت کی جدوجہد کرتے ہیں اور جب ملک میں جمہوریت ہوتی ہے تو آپ مارشل لا کی جدوجہد کرتے ہیں ایسا کیوں؟ نواب زادہ نصراللہ نے اس کا جواب دینے کی کوشش تو کی لیکن سوال اتنا زور دار تھا کہ ان کی وضاحتین طلبہ کو مطمئن نہ کرسکیں۔ اب ہمارے ملک کے حالات اس طرح کے ہوگئے ہیں کہ اب ملک میں کبھی مارشل لا نہیں آسکتا، وہ اس لیے بھی نہیں آسکتا کہ اب نواب زادہ نصراللہ، پروفیسر غفور، مفتی محمود، شاہ احمد نورانی جیسے سیاستدان نہ رہے، جو مارشل لا کے دور میں بحالی جمہوریت کی جدوجہد کرتے تھے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں اب کبھی مارشل لا نہیں آئے گا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جسمانی طور پر تو نہیں ہوگا لیکن اس کی روح ہم پر ہمیشہ حاوی رہے گی۔

ایک دفعہ شیطان کہیں بیٹھا رو رہا تھا، بڑے شیطان کا ادھر سے گزر ہوا تو اس کو روتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ کیوں رو رہا ہے بھائی اس نے جواب دیا کہ تم نے کن لوگوں میں میری ڈیوٹی لگائی ہے انہیں میں دن میں بہکاتا ہوں تو یہ رات کو توبہ کرلیتے ہیں اللہ انہیں معاف کردیتا ہے اور جب انہیں رات میں بہکاتا ہوں تو یہ دن میں توبہ کرلیتے ہیں، اس طرح میری ساری محنت اکارت ہوجاتی ہے اسی لیے رو رہا ہوں۔ بڑے شیطان نے کہا میں تجھے ایک ترکیب بتاتا ہوں تو ان کو ایسے غلط کاموں میں لگادے جسے یہ ثواب سمجھ کر کریں جب یہ ایسا کریں گے تو پھر توبہ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بس وہ اوپر سے نیکی نظر آئے اور اندر سے بدی ہو، اوپر سے اچھا ہو اندر سے خراب ہو، پیکنگ بہت اچھی ہو لیکن اندر سے مال خراب ہو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں مسلمانوں کی اکثریت نے غیر ضروری اور اضافی کاموں کو لازمی کرلیا ہے اور دین میں جو ضروری چیزیں ہیں انہیں چھوڑ دیا۔ اصول کو ترک کردیا اور جز کو پکڑلیا ہے۔ اگر اسی مثال کو کچھ اس طرح سے لیا جائے کہ ’’مارشل لا‘‘ ایک جگہ بہت مغموم بیٹھا تھا کسی دانا کا اس کے پاس سے گزر ہوا اس نے پوچھا کیا بات ہے تم اتنے اداس کیوں ہو اس نے جواب دیا کیا کریں پاکستان کے حالات دیکھ کر دل بہت کڑھتا ہے قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے، ستر فی صد سے زائد لوگ غربت کی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں مہنگائی آسمان کو چھورہی کرپشن کے سمندر میں ملک ڈوب رہا ہے، سہانے مستقبل کی خاطر نوجوان باہر جاکر سمندر برد ہورہے ہیں سوچتا ہوں کہ میں آکر سب ٹھیک کردوں لیکن آنہیں سکتا قوم اب مجھے پسند نہیں کرتی، ہم جب بھی آتے ہیں شروع میں تالیاں بجا کر ہمار بہت خوشگوار استقبال کیا جاتا ہے لیکن تھوڑے دنوں بعد سب مخالف ہوجاتے ہیں تمام سیاستدان ایک پیج پر ہوجاتے ہیں، تمام سیاسی جماعتیں ایک ہوکر اتحاد بنالیتی ہیں اور ہمیں نکال باہر کرنے کے لیے تحریک چلاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ تو کچھ ابن الوقت مفاد پرست ہوتے ہیں جنہیں عوام پہلے ہی مسترد کرچکے ہوتے ہیں۔ بس اسی لیے اداس بیٹھا ہوں۔

دانا نے کہا ہم تو تمہیں بہت ذہین سمجھتے تھے، ارے بھئی اب تمہیں اس طرح بہ بانگ دہل آنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بندوق سے لے کر ایٹم بم کا بٹن تک آپ کے ہاتھ میں ہے آپ اس ملک کے اہم اداروں کو اپنے قبضے میں کرلیں ان اداروں میں مقننہ، منتظمہ، عدلیہ اور میڈیا یہ چار اہم ہیں۔ انتظامیہ کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ تو جو برسراقتدار ہو اسی کے اشارے سمجھتی ہے۔ بقیہ تین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپ کو پہلے الیکشن کمیشن کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا اس لیے اپنی پسند کا الیکشن کمشنر لے آئیے وہ الیکشن کمیشن ملک میں انتخاب کرائے لیکن نتائج آپ مرتب کرکے دیں جو وہ ریڈیو ٹی وی پر سنادے (پچھلے دنوں مولانا فضل الرحمن نے بیان دیا تھا کہ ہمارے ملک میں انتخاب تو الیکشن کمیشن کراتا ہے لیکن نتائج کہیں اور مرتب ہوتے ہیں) جب ایوان میں آپ کی مرضی کے لوگ اور جماعتیں آجائیں گی تو جو چاہیں ان سے قانون منظور کرالیں انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس بل کی حمایت میں ہاتھ اٹھا رہے ہیں انہیں تو اپنی تنخواہوں اور مراعات سے دلچسپی ہے۔ مارشل لگانے کا بس آخری بار ایک موقع مل جائے سچ بات یہ ہے کہ قوم کی حالت دیکھ کر میرا دل اندر سے بہت دکھی ہے۔ دانا نے جواب دیا آپ کی گفتگو سے لگتا ہے کہ آپ واقعتا کچھ کرنا چاہتے ہیں اس لیے یہ کام تو ہوگیا کہ آپ کی پسند کی قیادت آگئی جو بے چوں و چراں اطاعت کررہی ہے اگر عوام کی پسند کی قیادت ہوتی تو آپ کو اس کی اطاعت کرنا پڑتی۔ اب بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے اگر واقعی دل سے قوم کی خدمت کا جذبہ ہے تو آگے بڑھیے اور ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی جو منصوبہ بندی کی ہے اس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں اور مستقبل میں ملک کی معیشت بہتری کی جانب گامزن نظر آرہی ہے اس لیے کہ اگر ہمارے ملک کے معاشی حالات اچھے ہوں گے تو ہمارا ایٹمی ڈیٹرنٹ محفوظ رہے گا یہ محفوظ ہوگا تو ملک بھی محفوظ رہے گا۔ بس آپ اپنے اہداف کے حصول کے لیے سرگرم عمل رہیں۔ اس وقت جو حکومت ہے وہ چاہے کسی بھی فارم والی ہو لیکن آپ کی پالیسیوں کو رو بہ عمل لانے کے لیے بڑے فارم میں نظر آرہی ہے۔ لوگوں کی تنقید کی پروا نہ کیجیے لوگ تو یہی کہیں گے۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

بس اپنے ربّ سے دعا اور عہد کیجیے۔ وہ دعا اور عہد کیا ہے اس کو بتانے سے پہلے ایک واقعہ سن لیجیے آپ ہی کے کسی بھائی ایک دفعہ یہ بیان دیا کہ ملک کے پاور سیٹ اپ میں ہمیں بھی اسپیس دیا جائے دوسرے دن وزیراعظم نے ان کو اپنے دفتر میں بلا کر اس بیان کی وضاحت مانگی وزیر اعظم مطمئن نہیں ہوئے اور ان سے استعفا طلب کرلیا کہ یہ عوام کی امانت ہے جو عوامی نمائندوں کے لیے ہے ریاست کے کسی ادارے کو اس میں اپنے لیے گنجائش کی بات نہیں کرنا چاہیے۔

بس وہ دعا اور عہد یہی ہے کہ اپنے ربّ سے ملک کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے جو فیصلے کیے ہیں اس میں برکت کی دعا کیجیے اور اخلاص کے ساتھ اپنی کامیابی کے لیے دعائیں مانگیں اور یہ بھی دعا کیجیے کہ اب تک جو غلطیاں ہم سب سے ہوئی ہیں اللہ انہیں معاف فرمائے اور یہ عہد کیجیے کہ جیسے ہی ملکی معیشت کی گاڑی پٹڑی پر آگئی، معاشی ترقی کی جانب سفر جاری ہوگیا ہے اس میں چاہے ایک سال لگ جائے یا دو سال آپ ملک میں صاف ستھرے آزادانہ ماحول میں انتخاب کرانے کا اعلان کردیں اس سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور پھر یہ اعلان بھی کیا جائے کہ ملک کے تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر آزادی سے کام کریں گے اور کوئی کسی دوسرے ادارے کی حدود میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔ ہر ادارے میں اس ادارے کے لوگ مل جل کر اپنے ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ عدلیہ بغیر کسی دبائو کے تیزی سے فیصلے کرے گی اور عوام کو جلد انصاف دینے کا کام کرے گی۔ بیوروکریسی ریاست اور عوام کی بھلائی کے لیے کام کرے گی کسی سیاسی جماعت کی چاکری نہیں کرے گی۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت قائم کریں گے جو پارٹی اقتدار میں ہو یا جو اپوزیشن میں دونوں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے یا کسی قسم کی انتقامی کارروائی کے بجائے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ ایف بی آر کا ادارہ اپنے اندر کی کرپشن ختم کرے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کا کام کرے جو اس کا اصل کام ہے۔ کرپشن کے خلاف سب کو مل کر جہاد کرنا ہوگا۔ دانا نے کہا کہ یقین جانیے اگر آپ یہ سارے کام کرکے واپس اپنے ادارے کو مزید اچھا اور بہتر بنانے میں لگ گئے تو یہ قوم ساری زندگی آپ کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھائے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مارشل لا کو اپنے رہے ہیں ہیں اور ملک میں کریں گے ہیں اس اس لیے کے لیے کرے گی ملک کے نہیں ا لیکن ا اپنے ا

پڑھیں:

اڈیالہ جیل سے دور روک لیا تاکہ بہانہ بنا سکیں کہ ملاقات کے لیے کوئی آیا ہی نہیں، علیمہ خان کا شکوہ

اڈیالہ جیل کے باہر پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کو قیدِ تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور فیملی سے ملاقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ پولیس نے جیل سے ڈیڑھ کلومیٹر دور ہی ہمیں ناکہ لگا کر روک لیا تاکہ حکام یہ بہانہ بنا سکیں کہ ملاقات کے لیے کوئی آیا ہی نہیں۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی، عورتوں سے کیا خوف ہے؟ ہم تو صرف اپنے بھائی سے ملنے آئے ہیں، اب ایک مہینہ ہوگیا ملاقات نہیں ہونے دی گئی۔ اگر وکلا اور فیملی کو بھی روکا جائے گا تو عمران خان کیس کس سے ڈسکس کریں گے؟

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر صرف بیرسٹر سلمان صفدر کو 35 منٹ کی ملاقات کی اجازت دی گئی، لیکن چیف جسٹس نے تو ایک گھنٹے کی اجازت دی تھی، جیل انتظامیہ نے وکیل کو وقت سے پہلے ہی اٹھا دیا۔

مزید پڑھیں: قید تنہائی میں رکھنے سے عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے، علیمہ خان

علیمہ خان نے واضح کیا کہ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے وکلا کو ملاقات دی جائے، تاکہ کیس پر بات ہوسکے، اس کے بعد چاہے 100 لوگ عمران خان سے ملاقات کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمیں نہ سہی تو میری 2 بہنوں کو ہی ملنے دیں، بانی نے کوئی پیغام دینا ہوگا تو وہ ان کے ذریعے بھی آ جائے گا، ہماری بہنیں مجھ سے زیادہ ذہین ہیں۔

ادھر سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے بھی عدالتی حکم کے باوجود عمران خان سے ملاقات نہ ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی ہے، جبکہ علیمہ خان، شبلی فراز اور عمر ایوب کی دائر کردہ درخواستیں بھی تاحال سماعت کی منتظر ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اڈیالہ جیل پی ٹی آئی علیمہ خان عمران خان

متعلقہ مضامین

  • ایتھوپیا میں فاقہ کشی بدترین مرحلے میں داخل، عالمی ادارے بے بس
  • ایتھوپیا: امدادی کٹوتیوں کے باعث لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کا سامنا
  • غزہ میں ایک ماہ سے کوئی امدادی ٹرک داخل نہیں ہوا، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، اقوام متحدہ
  • کے پی ٹی میں ہو رہی لوٹ مار کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا، خواجہ آصف
  • امریکی وفد کی عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، سلمان اکرم راجہ
  • اڈیالہ جیل سے دور روک لیا تاکہ بہانہ بنا سکیں ملاقات کیلئے کوئی آیا ہی نہیں، علیمہ خان
  • اڈیالہ جیل سے دور روک لیا تاکہ بہانہ بنا سکیں کہ ملاقات کے لیے کوئی آیا ہی نہیں، علیمہ خان کا شکوہ
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • ایم کیو ایم سندھ کے پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی: فاروق ستار