UrduPoint:
2025-04-22@18:58:43 GMT

پاکستان: کیا ساری آبادی کو سبسڈی کسان دیں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

پاکستان: کیا ساری آبادی کو سبسڈی کسان دیں گے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ پورے ملک کو اپنی جیب سے سبسڈی فراہم نہیں کر سکتے اور حکومت کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ زرعی پیداوار میں استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرے۔ اس کے برعکس حکومت ایسے وقت میں ان کے بجلی کے میٹر کاٹنے پر تلی ہے جب انہیں پانی کی اشد ضرورت ہے۔

حال ہی میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے رینجرز کی جانب سے مبینہ طور پر کسانوں کو ہراساں کرنے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے کسانوں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور دیہات میں زبردستی بجلی کے بل وصول کرنے کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اوور بلنگ کے واقعات کو تسلیم کیا ہے، لیکن کسانوں سے ادائیگیاں وصول کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے استعمال کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

(جاری ہے)

ڈرون ٹیکنالوجی سے پاکستانی کسانوں کی مدد کرنے والی خواتین کی سٹارٹ اپ

گورنر نے کہا، ''یہ کسی صورت قابل قبول نہیں کہ شہروں میں خوراک کی قیمتیں کم کرنے کے لیے کسانوں کی روزی روٹی کے معاملات کو اجیرن بنا دیا جائے۔‘‘

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت ملک میں گندم کی فصل کو پانی کی اشد ضرورت ہے اور ایسے وقت میں بجلی کے میٹر کاٹنا کسانوں کے لیے اور گندم کی فصل کے لیے بہت نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔

ماہرزراعت اور کلائمیٹ ایکٹیوسٹ عامر حیات بھنڈارا کہتے ہیں ، ''ایسے وقت میں میٹر کاٹنا کسی صورت بھی درست نہیں کہا جا سکتا اور یہ حکومتی پالیسی کے بھی خلاف ہے۔ ایک طرف حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے کہ کسان اپنی فصل کو ہر صورت پانی سپلائی کریں اور دوسری طرف بجلی کی بندش سے اس عمل میں بڑی رکاوٹ ہو گی۔‘‘

عامر حیات کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کے بجلی کے بل عام لوگوں کے بجلی کے بلوں کی طرح نہیں ہیں۔

انہیں وقت دینا چاہیے۔ عموماً کسان فصل اٹھانے کے بعد بل ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس وقت تو کسانوں کو ایک ایک پیسے کی ضرورت ہے لہذا حکومت کو نرمی اختیار کرنی چاہیے۔

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی پارتھینئم کی جڑی بوٹی زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟

کسانوں کے حقوق پر کام کرنے والے اور شعبہ زراعت کے ماہر سمجھتے ہیں کہ ملک میں فوڈ سکیورٹی اس طرح یقینی نہیں بنائی جا سکتی اور نہ ہی افراط زر کو اس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے کہ کسانوں کو ان کی اجناس کی جائز قیمت فراہم نہ کی جائے۔

کسانوں کے ایک ترجمان خالد کھوکھر کہتے ہیں، ’’حکومت نے کسانوں کو پورے شہری معاشرے، بشمول اشرافیہ، کی سبسڈی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ زراعت کے بنیادی ستون کو سہارا دینے کی بجائے کسانوں کو مہنگی پیداوار اور کم قیمت پر فروخت کی پالیسی کے ذریعے تباہ کیا جا رہا ہے۔‘‘

خالد کھوکھر نے حکومت کی زرعی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسانوں پر ناقابل برداشت مالی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔

کئی افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور بیشتر کسانوں کے بجلی کے میٹر منقطع کیے جا رہے ہیں، جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت زرعی لاگت کم نہیں کر سکتی تو فصل کی قیمت کیوں طے کرتی ہے؟

کسانوں کی نمائندگی کرنے والے زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت زرعی مداخل کی لاگت کو قابو میں رکھنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی اورآئی ایم ایف سے اپنے معاہدوں کے باعث کسانوں کوسبسڈی فراہم نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی ضروری سہولیات فراہم کرتی ہے، لیکن جب بات زرعی پیداوار کی قیمت کی آتی ہے تو حکومت فوری مداخلت کرکے خود قیمت طے کرتی ہے۔

عامر حیات کا کہنا ہے کہ اگر زرعی لاگت کم کرنے کے لیے حکومت کوئی کردار ادا نہیں کرتی اور کی قیمتوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے تو پھر کسانوں کو بھی اپنی پیداوار کی قیمت خود طے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور پورا عمل آزاد منڈی کے اصولوں کے تحت چلنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا،’’خوراک کی دستیابی یقینی بنائی جانی چاہیے، لیکن اس کی قیمت صرف کسانوں کو ادا نہیں کرنی چاہیے۔

زرعی شعبے میں پوری ویلیو چین کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ انڈسٹری کے بڑے لوگوں کو ریسرچ پر بھی پیسہ خرچ کرنا چاہیے تا کہ فی ایکڑ پروڈکشن بڑھ سکے اور کم قیمت پر بھی کسان کو نقصان نہ ہو۔‘‘

زرعی ماہرین اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت پیداوار کی لاگت جانتے ہوئے بھی قیمت اس سے کم مقرر کر دیتی ہے۔ خالد کھوکھر کا کہنا ہے، ''گزشتہ سال محکمہ زراعت نے گندم کی پیداواری کی لاگت تین ہزار چار سو دس روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کی، لیکن بعد میں محکمہ خوراک نے حکم دیا کہ اس فصل کو زیادہ سے زیادہ دو ہزار چھ سو پچاس روپے میں فروخت کیا جائے۔

‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کسانوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے اور وہ برادری، جو محنت کرکے پورے ملک کو خوراک فراہم کرتی ہے، اُس کو اتنا نظرانداز کیوں کیا جا رہا ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے بجلی کے کسانوں کے کسانوں کو انہوں نے کہ حکومت نہیں کر کرنے کے کہ کسان کی قیمت کرتی ہے ہیں کہ کے لیے کیا جا

پڑھیں:

معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعہ کا روز خاصا مصروفیت میں گزارا۔ جمعہ کو ان کی زیرصدارت امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا اور پھر اسی روز انھوں نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کا بھی دورہ کیا۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم دہشت گردوں کو ایسی عبرتناک شکست دیں گے کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے، ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں اور صوبوں کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ وفاقی حکومت اس ضمن میں تمام صوبوں کی استعداد بڑھانے کے لیے بھرپور تعاون کرے گی۔

دہشت گردی پاکستان کی ترقی کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹ ہے، اس حوالے سے فیصلہ ساز ہی ہیں بلکہ عام پاکستانی تک حقائق سے آگاہ ہے۔ پاکستان کو اگر دہشت گردی کی لعنت کا سامنا نہ ہوتا تو آج پاکستان ایشیا میں ایک اہم معاشی قوت ہوتا۔

بہرحال بدترین دہشت گردی کے باوجود پاکستان نے معاشی اور سائنسی میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان اور افسر دن رات اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

پاکستان کے اردگرد کے حالات ایسے ہیں، اس قسم کے حالات کا سامنا اگر دنیا کے کسی اور ملک کو ہوتا تو شاید اس کی حالت صومالیہ یا کانگو جیسی ہوتی۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ حقائق کو سامنے رکھا جائے تو برملا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دنیا کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔

پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ غیرقانونی تجارت اور ڈرگز کی اسمگلنگ ہے۔ اسمگلنگ نے پاکستان کی مالیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر ریونیو کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ نقصان ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں ہو رہا ہے اور پاکستان کے اندر بلیک منی ہولڈرز سسٹم کو کرپٹ کر کے پاکستان کے خزانے کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔

وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ اسمگلنگ کے خلاف تمام اداروں کو اپنی کوششیں مزید تیز کرنے، اہم شہروں میں سیف سٹی منصوبوں کو جلدازجلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وفاقی اور وفاقی اداروں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ صوبائی اور ضلعی اداروں کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ جب تک صوبائی حکومت اپنے حصے کی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کرتیں، اس وقت تک شہروں، قصبوں اور دیہات میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔

سیف سٹی کیمرے جرائم پر قابو پانے کے لیے اہم ہتھیار ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی اور سرکاری عملے کی جوابدہی کے لیے بھی تمام سرکاری دفاتر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے چاہئیں اور ان کیمروں کا کنٹرول مرکزی کنٹرول سسٹم میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ کورٹ سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک کی ساری کارروائی سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہونی چاہیے۔ اس سے سرکاری مشینری کی کارکردگی میں خاطرخوا اضافہ ہو گا اور عوامی مسائل میں کمی ہو گی جب کہ جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی میں مدد ملے گی۔

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کے دورہ کے دوران ٹیکس نظام میں بہتری، شفافیت، اور افسران کی کارکردگی کی جانچ کے لیے مکمل خودکار نظام کے اجرا کی منظوری دی، جس کے تحت افسران کو ترقی اور مالی مراعات کارکردگی کی بنیاد پر دی جائیں گی۔

نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے ایف بی آر افسران کو یقین دہانی کرائی کہ نئے نظام کے تحت شاندار کارکردگی دکھانے والے افسران کو30 لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہیں دی جائیں گی، ساتھ ہی ناقص کارکردگی اور کرپشن میں ملوث افسران کو نہ صرف ایف بی آر بلکہ کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازمت نہیں کرنے دی جائے گی۔

وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہم بات ٹیکس لاز میں تبدیلیاں بھی لانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس قوانین واضح اور ابہام سے پاک ہونے چاہئیں۔ اسی طرح افسران کے اختیارات کے ساتھ ساتھ ان کے احتساب کے حوالے سے بھی قوانین واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

افسران اور دیگر عملے کو یکطرفہ اختیارات دینے سے ممکن ہے ریونیو کے اہداف تو حاصل کیے جا سکیں لیکن ان اختیارات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی حق تلفی بھی ہو سکتی ہے اور ان سے ناانصافی ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری افسروں کو حاصل قواعد وضوابط کے اختیارات کو بھی واضح طور پر ان کے آفس کے باہر آویزاں کرنا چاہیے تاکہ سب کو پتہ چل سکے کہ افسر کے پاس کس قسم کے اختیارات موجود ہیں اور اگر وہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف کن کن قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ افسروں کے کمروں کے اندر اور باہر بھی سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہئیں تاکہ پتہ چل سکے کہ وہاں کون کون آیا اور کتنا کام ہوا۔ اس طریقے سے سرکاری کام میں شفافیت پیدا ہو گی۔

وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ قرضوں اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانا ہے تو محصولات کو بڑھانا ہوگا، قرضوں کی زندگی پاکستان کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے، عدالتوں میں زیرالتوا کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں، ایک طرف ہمارے کھربوں روپے کے کیسز زیر التوا ہیں اور دوسری طرف ہم دن رات قرض لے رہے ہوتے ہیں یا ان کو رول اوور کرارہے ہوتے ہیں۔

دوسری طرف انٹرنل ریونیو سروس، کسٹم، سیلزٹیکس، جعلی رسید وں کی دردناک کہانیاں بھی ہم سن چکے ہیں، ہم نے ان کمزوریوں کو دور کرناہے،محصولات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27فیصد اضافہ لائق تحسین ہے، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے سفر کا آغاز ہوگیا ہے،افسران محنت کریں اور قوم کی تقدیر بدلیں۔

عدالتوں سے23ارب روپے کا اسٹے آرڈر خارج ہوا توشام کو وہ پیسہ خزانے میں آگیا،البتہ ابھی گڈزکی مس ڈکلیئریشن سے متعلق کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں ہوا۔چند سال قبل ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم بنایا گیا جس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، اس میں کمپنی کی خطاہے یا اس نظام کا موثر استعمال نہیں کیا گیا؟ وزیرِ اعظم نے مالی سال2025 کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2.828 ارب ڈالر تک پہنچنے اور گزشتہ سال کے مقابلے 23فیصد اضافے کا خیر مقدم کیا۔

انھوں نے کہا حکومت کی جانب سے آئی ٹی شعبے کو بروقت سہولیات کی فراہمی سے یہ اضافہ ممکن ہوا ہے۔انھوں نے کہا سرمایہ کار ہمارے سر کا تاج ہیں ، انھیں ہر ممکن سہولیات دیں گے۔وزیراعظم نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے اچھا رویہ رکھیں، سرمایہ کار ہمارے سرکا تاج ہیں، انھیں عزت اور ہر ممکنہ سہولت دینی ہے۔

پاکستان کی معیشت میں خاصی بہتری آئی ہے لیکن اگر ٹیکس دہندگان کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے تو ٹیکس کولیکشن میں اربوں روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جن شعبوں کو مختلف قسم کے ٹیکسز میں استثنیٰ دیا گیا ہے، اس کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے نام پر جو مراعات یا ٹیکسز میں چھوٹ دی جاتی ہے، اس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے حوالے سے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ لوگوں سے یا عام عوام سے چندہ وصول کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جو سرمایہ دار یا خوشحال شخص کوئی فلاحی کام کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی ذاتی آمدنی سے کرے۔ سرکار سے مراعات لینا یا عام آدمی سے چندہ لینا بند ہونا چاہیے۔ کسی ٹرسٹ، وقف یا فلاحی ادارے کو زکوٰۃ اکٹھی کرنے، فطرانہ یا صدقات کے نام پر چندہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

اگر کسی کو کوئی مدد دینی بھی ہے تو وہ بذریعہ حکومت ہونی چاہیے تاکہ پورا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی قوانین کو دو ٹوک اور واضح بنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے سے بااثر لوگوں کو مزید نوازنا ملک کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ قبائلی وڈیروں، گدی نشینوں اور بڑے بڑے جاگیرداروں سے ان کی طرززندگی کی مناسبت سے ٹیکس وصولی کا راستہ نکالنے کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گندم کی قیمت مقرر کرنے کا معاملہ: پنجاب کابینہ گندم کی ڈی ریگولرائزیشن پر فیصلہ کرے گی، محکمہ پرائس کنٹرول
  • مراد علی شاہ کو گنڈاپور سے مختلف ہونا چاہیے،سندھ حکومت 16 سالہ کارکردگی دکھائے، عظمیٰ بخاری
  • پنجاب کے کسان کی بات کرنے والوں کو سندھ نظر نہیں آتا: عظمٰی بخاری
  • بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، عظمی بخاری
  • کسان اتحاد کی آئندہ سال گندم کی کاشت نہ کرنے کی دھمکی
  • اپنی سبسڈی اور خیرات واپس لے لو،کسانوں کو گندم کا ریٹ نہیں مل رہا؛ سربراہ کسان اتحاد
  • 15 ارب کا پیکیج مسترد،کسان اتحاد کا آئندہ سال گندم کاشت نہ کرنے کا اعلان
  • 15 ارب روپے کا اعلان کر کے کسانوں کا مذاق اڑایا گیا:خالد کھوکھر
  • گندم کی فی من قیمت 4 ہزار روپے مقرر کرنے کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ