یو ایس ایڈ خاتمےکےقریب، تقریباً تمام عملہ فارغ
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیرملکی امداد روکنے کے احکامات کے بعد یو ایس ایڈ خاتمےکےقریب پہنچ گی۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کے تقریباً تمام عملے کو فارغ کرنے کا ارادہ کر لیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یوایس ایڈ کے 300 ارکان کے علاوہ باقی سب کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یو ایس ایڈ عملے کو بھیجے نوٹس کے مطابق تقریباً 10 ہزار ارکان کو فارغ کر دیا جائے گا۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ نوٹس میں لکھا گیا ہے کہ یوایس ایڈ میں صرف 611 ملازمین کو رکھا جائے گا۔ یہ اقدام ٹرمپ کا افرادی قوت کو کم کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد سامنے آیا۔امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یو ایس ایڈ کو پاگل چلاتے ہیں۔ امریکا 180 ممالک کو 72 بلین ڈالر یو ایس ایڈ کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔
عالمی فنڈنگ پر کنٹرول اور یو ایس ایڈ ایجنسی کی سرگرمیوں کو سمجھنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر خارجہ مارکو روبیو کو یو ایس ایڈ کا عبوری منتظم مقرر کر دیا ہے۔مارکو روبیو نے ادارے کی ممکنہ تنظیم نو پر کام شروع کر دیا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی (USAID) طویل عرصے سے اپنے ہدف سے بھٹکی ہوئی تھی، اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ یو ایس ایڈ کا قابل ذکر حصہ امریکا کے قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ مارکو روبیو نے یو ایس ایڈ کا جائزہ لینے اور ممکنہ طور پر اسے ختم کرنے کے منصوبے کی نقاب کشائی کر دی ہے۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ نے ایجنسی پر الزام عائد کیا کہ یہ امریکی مفادات کے مطابق نہیں ہے، خیال رہے کہ یہ ایجنسی 100 سے زائد ممالک میں خوراک کی امداد، ہنگامی امداد اور صحت کے پروگراموں کی نگرانی کرتا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: یو ایس ایڈ
پڑھیں:
امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے شہریوں کی جبری بیدخلی روک دی
امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کو وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری طور پر ملک بدر کرنے سے تاحکم ثانی روک دیا ہے۔ یہ حکم وینزویلا کے متاثرہ تارکین وطن کی جانب سے دائر کی گئی مداخلتی استدعا پر جاری کیا گیا، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہیں عدالتی جائزے کے بغیر جبری بیدخلی کا سامنا ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں بنیادی عدالتی عمل کے بغیر ملک بدر کیا جا رہا ہے، جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تارکین وطن خطرناک گینگز سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کی موجودگی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف آخری کامیابی وائٹ ہاؤس کو ہی حاصل ہوگی، تاہم انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ عدالتی حکم پر عملدرآمد سے انکار کرے گی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اب بھی مزید پچاس سے زائد وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری بیدخل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دو سو سے زائد وینزویلا کے باشندوں سمیت متعدد افراد کو السلواڈور کی جیلوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، جس پر انسانی حقوق کے اداروں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف امریکہ بھر میں مظاہرے
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اور ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسیوں کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی سامنے آئے ہیں۔ واشنگٹن، شکاگو اور دیگر اہم شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، جب کہ نیویارک میں صدر ٹرمپ کے خلاف سب سے بڑی ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنماؤں نے کی۔
مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ ان کے غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت گیر پالیسیوں اور متنازع اقدامات سے نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔
ان مظاہروں کی کال معروف تحریک ’ففٹی ففٹی ون موومنٹ‘ کی جانب سے دی گئی تھی، جس کا مقصد تمام پچاس امریکی ریاستوں میں بیک وقت مظاہروں کا انعقاد کرنا ہے تاکہ ایک منظم عوامی ردعمل دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔
Post Views: 3