اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کا تنزلی کی طرف جاری سفر رک گیا:نواز شریف
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ معاشی ترقی کے تسلسل سے ہی عوام کے حالات بدل سکتے ہیں۔
نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازسے پنجاب اسمبلی کے ارکان کی ملاقات ہوئی .جس میں ملک کی مجموعی صورتحال، پنجاب میں ترقیاتی عمل اور عوام کی خدمت کے منصوبوں پر غور کیا گیا۔ملاقات کے دوران پارٹی صدر نواز شریف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیت ٹھیک ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی، مخلوق خدا کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے، عوام کی خدمت کا صلہ اور انعام اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی بہتری اور مہنگائی میں کمی ملک وقوم کی بہتری کے اشارے ہیں.
دوسری جانب ارکان اسمبلی نے پنجاب میں ترقیاتی کاموں اور عوامی منصوبوں پر وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ انہوں نے اپنی محنت اور خدمت سے پنجاب کے عوام کا دل اور اعتماد جیتا ہے۔ارکان پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ قائد آپ کے دور میں.شہباز شریف صاحب کے دور میں اور مریم نواز شریف صاحبہ جس طرح کام کر رہی ہیں. اُس کی ماضی اور حال میں مثال نہیں ملتی. ایک سال میں پنجاب کے ہر شعبے اور ہر علاقے کی ترقی کے منصوبوں نے عوام کو ایک نیا اعتماد اور حوصلہ دیا ہے۔ارکان نے ستھرا پنجاب، کسان کارڈ، اسکالرشپ پروگرام، سڑکوں کی تعمیر و بحالی، دھی رانی پروگرام، بنیادی و دیہی مراکز اور صحت کے پورے نظام کی اپ گریڈیشن کے میگا پروگراموں پر بھی وزیر اعلیٰ کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ آپ کے کاموں پر عوام کا ہر طبقہ بہت خوش ہیں اور آپ کو دعائیں دیتے ہیں۔انکا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کو آپ جیسی محنتی سی ایم چاہیے تھی اور جماعت اور ہمیں آپ پر فخر ہے. ان کی ایک سال کی محنت اور کارکردگی قائد نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی عوامی خدمت کا تسلسل ہے۔اس دوران وزیراعلیٰ مریم نواز نے ارکان پنجاب اسمبلی سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ عوامی خدمت نواز شریف، شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی پہچان ہے. یہ معیار اور روایت ہی ہمارا اصل امتحان ہے. قیادت کی رہنمائی اور آپ سب کی تائید و حمایت ہماری قوت اور کامیابی کی ضمانت ہے. پاکستان کو ترقی مسلم لیگ (ن) ہی دیتی ہے۔ اجلاس میں عوامی فلاح کے منصوبوں اور مستقبل کی سیاسی حکمت عملی پر مشاورت بھی ہوئی۔ فیصل آباد، چنیوٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان پنجاب اسمبلی ملاقات کرنے والوں میں شامل تھے۔
علاوہ ازیں پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر پرویز رشید، رانا ثناء اللہ، پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب اور راشد نصر اللہ بھی اجلاس میں موجود تھے۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پنجاب اسمبلی شہباز شریف نواز شریف مریم نواز کہا کہ
پڑھیں:
بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔
بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔
اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔
اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔
کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔
اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔