کراچی:

سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے چینی شہریوں کو پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے کے خلاف دائر درخواست واپس لینے کی استدعا پر درخواست خارج کردی۔

درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ الزامات پر تحقیقات کے لیے پہلے مجاز اتھارٹی سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟، عدالت نے ریمارکس دیے کہ قومی مفاد کے معاملات میں درخواست گزاروں کو پہلے آئی جی سندھ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔  

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور درخواست گزار سندھ حکومت کے اقدام سے مطمئن ہیں، اس لیے وہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔ جس پر عدالت نے درخواست کو خارج کر دیا۔  

درخواست 6 چینی سرمایہ کاروں کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ وہ وزیر اعظم، آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ حکام کی دعوت پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے آئے، لیکن پولیس کی جانب سے انہیں مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔ 

درخواست گزاروں کے مطابق ایئرپورٹ سے لے کر رہائش گاہ تک انہیں غیر ضروری طور پر روکا جاتا ہے، بلٹ پروف گاڑیوں کے نام پر گھنٹوں انتظار کروایا جاتا ہے، اور سیکیورٹی کے نام پر انہیں رہائش گاہوں پر تالے لگاکر محصور کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ آزادانہ نقل و حرکت سے محروم ہیں اور کاروباری سرگرمیاں انجام نہیں دے سکتے۔  

درخواست میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایکسپو سینٹر میں بدتمیزی کے باعث تین چینی خواتین سرمایہ کار پاکستان چھوڑ کر واپس چلی گئیں، جبکہ سکھن تھانے کی حدود میں چینی شہریوں کی سات فیکٹریاں سیل کر دی گئی ہیں۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق چینی شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چینی شہریوں

پڑھیں:

اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ

وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔

دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی اور جیل میں ملاقاتیں کرنے والے رہنماؤں کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر
  • پاکستان آنے کیلئے جواصول دنیا کیلئے وہی افغان شہریوں کیلئے بھی ہیں: طلال چودھری
  • روس کے ڈرون طیارے بنانے کے کارخانے میں چینی شہری کام کر رہے ہیں. زیلنسکی کا الزام
  • سندھ میں اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیاں خریدنے کیخلاف جماعت اسلامی سپریم کورٹ پہنچ گئی
  • اسلام آباد: غیر قانونی رہائش پذیر افغان شہریوں کیخلاف کریک ڈاؤن
  • عمران خان سے جیل ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کی درخواست خارج
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ
  • کراچی: شاہ فیصل کالونی میں پارک پر قبضے کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • صنم جاوید کی بریت کیخلاف درخواست پر سماعت ملتوی