سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنا ایک اعلامیہ جاری کردیا ہے جس میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے پہلے 100 ایام کی کارکردگی کی بابت بتایا گیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی نظام کو سہل بنانے کے لیے جو سب سے اہم کام کیا گیا وہ الیکٹرانک بیان حلفی یا ای۔ایفیڈیوٹ کا اجراء اور فوری مصدقہ نقل کا حصول ہے۔ اس سے سائلین اور وکلاء کو بہتر سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ وقت کی بچت بھی ہوئی۔

اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ عدلیہ کے احتساب کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے لیے علیحدہ سیکرٹیریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں اعلٰی عدلیہ کے ججزکے خلاف اب تک 46 شکایات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 40 شکایات نمٹا دی گئیں جبکہ 5 شکایات پر ججز سے ابتدائی جواب جمع کرانے کو کہا گیا ہے۔

چیف جسٹس یحیی آفریدی کے پہلے 100 دن سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات میں 3000 مقدمات کی نمایاں کمی واقع ہوئی۔ سپریم کورٹ نے 8174 مقدمات کا فیصلہ کیا جبکہ 4963  نئے مقدمات کا اندراج ہوا۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن میں ریٹائرڈ جج صاحبان کی بجائے بار ایسوسی ایشن نمائندوں کو جگہ دی گئی۔ کراچی سے مخدوم علی خان، پنجاب سے خواجہ حارث، بلوچستان سے کامران مرتضٰی، اسلام آباد سے منیر پراچہ اور خیبر پختونخواہ سے فضل الحق ایڈووکیٹس کو شامل کیا گیا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئینی استحقاق کے استعمال سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چاروں صوبوں کی متناسب نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اسی طرح سے ہائیکورٹس سے سپریم کورٹ میں ترقی دینے کے لیے تمام ہائیکورٹس سے 5،5 ججز کا میرٹ کی بنیاد پر جائزہ لیا گیا۔

اس کے علاوہ جیل ریفارمز اور ماتحت عدلیہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اقدامات اُٹھائے گئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ آف پاکستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چیف جسٹس یحیی آفریدی سپریم کورٹ ا ف پاکستان چیف جسٹس یحیی سپریم کورٹ گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں آئینی بینچ کے روبرو رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جواب جمع کروادیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق جواب میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت صدر مملکت جج کا تبادلہ کرسکتا ہے۔رجسٹرار سپریم کورٹ کے جواب میں آئینی بینچ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وزارت قانون کی جانب سے ٹرانسفر سے پہلے یکم فروری کو چیف جسٹس سے رائے طلب کی گئی تھی، چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے لئے ججز ٹرانسفر پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ وزارت قانون نے یکم فروری کو چیف جسٹس کی رضامندی طلب کی تھی، چیف جسٹس نے اسی روز ججز ٹرانسفر پر رضامندی کا جواب بھیجا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے اور سنیارٹی کیس میں جوڈیشل کمیشن نے بھی اپنا جواب سپریم میں جمع کروا دیا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا مینڈیٹ آئین کے آرٹیکل 175 اے میں دیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن کی بنیادی ذمہ داری سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور فیڈرل شریعت عدالتوں میں ججز کی تقرری ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس ججز کے تبادلے سے متعلق ہے، ججز کے تبادلوں میں آئین کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا کوئی کردار نہیں۔
سیکرٹری جوڈیشل کمیشن نیاز محمد کی جانب سے جواب جمع کروایا گیا ہے۔

گندم کی فصل میں حصہ کم ملنے پر بیوی نے تشدد کر کے شوہر کو قتل کردیا

مزید :

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید اور شیخ رشید کی بریت پر حکومت کو عدالت کا دو ٹوک پیغام
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھا لیا
  • جسٹس یحییٰ آفریدی پرسوں چین  کے دورے پر روانہ، جسٹس منصور  قائم مقام چیف جسٹس ہونگے
  • چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
  • چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی ایس سی او جوڈیشل کانفرنس میں وفد کی قیادت کریں گے