کامن ویلتھ ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی علاقائی کانفرنس کا آغاز، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا خطے میں پارلیمانی تعاون پر زور
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پہلی کامن ویلتھ ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی علاقائی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا۔
اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان کو سی پی اے کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد دی اور کانفرنس میں شریک مندوبین کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں سی پی اے کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے مستقل قیام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ سی پی اے ایشیا برادری میں نظم و ضبط، ادارہ جاتی یادداشت اور ریکارڈ کو محفوظ بنانے میں مثبت پیش رفت ثابت ہوگا۔
انہوں نے قومی اسمبلی کی جانب سے اس معزز فورم کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ سی پی اے ایشیا اور سی پی اے جنوب مشرقی ایشیا علاقائی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرنا ان کے لیے باعث مسرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اجتماع جنوب و مشرقی ایشیائی ممالک اور خطے کے لیے جامع ترقی اور پائیدار مستقبل کے عزم کا مظہر ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ 2019 میں اسلام آباد میں سی پی اے جنوب مشرقی ایشیا ممالک کا آخری علاقائی اجلاس منعقد ہوا تھا، اور قانون ساز اسمبلیوں کے مابین رابطوں کا فروغ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون ساز اداروں کے مابین رابطے پارلیمانی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں اہم پیش رفت ثابت ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت، گڈ گورننس اور پائیدار ترقی کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مالدیپ کے ایک بار پھر کامن ویلتھ میں شامل ہونے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ پاکستان اور مالدیپ کے درمیان پارلیمانی تعاون کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ مالدیپ کی شمولیت سے مشترکہ کوششوں کو مزید تقویت ملے گی۔ انہوں نے پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ امن، تجارت اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان مضبوط اقتصادی شراکت داری اور عوامی روابط قائم ہیں، اور ملائیشیا کا علاقائی ترقی میں کردار قابل ستائش ہے۔ پاکستان ملائیشیا کے ساتھ پارلیمانی اور اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دینے کا خواہشمند ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ انہیں بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کی غیر موجودگی کا افسوس ہے اور امید ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوری ادارے جلد بحال ہوں گے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی قیادت اور عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام صوبوں اور خطوں کے معزز اسپیکرز کی جنوب و مشرقی ایشیائی ممالک کے اہم اجلاس میں شرکت خوش آئند ہے۔ دسمبر 2024 میں 18ویں اسپیکرز کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ملک کے قانون ساز اداروں کے چیئرمین سینیٹ سمیت تمام قانون ساز اداروں کے اسپیکرز نے وفود کے ہمراہ شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں پارلیمانی رابطوں کو یقینی بنانے اور موثر نگرانی کے لیے اہم فیصلے کیے گئے۔ اس کانفرنس کا ایک اہم سنگ میل “پاکستان نیشنل گروپ آف دی کامن ویلتھ پارلیمانی ایسوسی ایشن (PNGCPA)” کا قیام تھا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ دنیا بھر میں جمہوریت کو سیاسی تقسیم اور اشرافیہ کے قبضے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کے تمام طبقات کی فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت ضروری ہے اور اشتراکی طرز حکمرانی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ مضبوط جمہوری ادارے غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ خطے کے ممالک کو غربت، ماحولیاتی تبدیلی اور صحت عامہ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں نے سول بیوروکریسی، سول سوسائٹی اور کمیونٹی نیٹ ورکس کو مربوط کر کے بہتر عوامی خدمات کو یقینی بنایا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کی قیادت میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپس، کسانوں کے لیے اسکیمیں، اور معذور افراد کے لیے فلاحی اقدامات متعارف کروائے گئے۔ دیگر صوبوں میں بھی عوامی شراکت داری کے تحت صحت، توانائی اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں، جو اشتراکی طرز حکمرانی کی بہترین مثالیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کئی مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے، جنہیں مل کر حل کرنا ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی، معاشی عدم مساوات اور عالمی وباؤں جیسے مسائل کے حل کے لیے علاقائی تعاون ناگزیر ہے۔ مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پارلیمانی رابطوں کا فروغ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتوں کی پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ عزم کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی قومی اور علاقائی اسمبلیوں میں ایس ڈی جیز، خواتین، بچوں اور نوجوانوں کے پارلیمانی فورمز قائم کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کاکس، پارلیمانی فورمز اور ایس ڈی جیز کا قیام اس بات کا مظہر ہیں کہ ہم سب کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اقتصادی ترقی کا ماڈل جامع اور مساوی مواقع پر مبنی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، علاقائی امن، رابطہ کاری اور جامع اقتصادی ترقی کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وسائل کے بہتر انتظام کے لیے قانون سازی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تحفظ اور سرحد پار تعاون کو یقینی بنانا عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل ترقی اور مصنوعی ذہانت کی مؤثر نگرانی کے لیے پارلیمانی اقدامات ضروری ہیں۔ صحت عامہ اور تعلیم کے شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس پائیدار ترقی اور تعاون کے لیے عملی اقدامات کی راہ ہموار کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں کو عملی طور پر نافذ کرنے کو یقینی بنانا ہوگا۔ وژن کو حقیقت میں بدلنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مشترکہ عزم کی ضرورت ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کامن ویلتھ کے افتتاحی اجلاس سے اپنے خطاب میں ان خیالات کا اظہار کیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جنوب مشرقی ایشیا انہوں نے کہا کہ کہا کہ پاکستان کی ضرورت ہے کامن ویلتھ کو یقینی سی پی اے کے لیے
پڑھیں:
سپلائی چین میں خامیاں پاکستان کے شہد کے شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ہیں. ویلتھ پاک
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 )زرعی کنسلٹنٹ عمیر پراچہ کا کہنا ہے کہ کئی چیلنجز نے پاکستان کے شہد کے شعبے کی ترقی کو دیرینہ پیداوار اور مختلف اقسام کی برآمدات کے باوجود اس کی مکمل صلاحیت تک پہنچنے سے روکا ہے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپلائی چین میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان کی شہد کی برآمد کی صلاحیت محدود ہے انہوں نے صنعت کی ترقی کو سپورٹ کرنے کے لیے سپلائی چین کے ہر مرحلے پر نمایاں بہتری کی ضرورت پر زور دیا.(جاری ہے)
انہوں نے بتایا کہ شہد کی پاکیزگی اور معیار میں عدم مطابقت پاکستان کو اعلی قدر کی بین الاقوامی منڈیوں میں داخل ہونے سے روکنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور فوڈ سیفٹی سرٹیفیکیشنز اور معیار کے معیارات کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان کی شہد کی برآمدات زیادہ تر مشرق وسطی کی منڈیوں تک محدود ہیں. انہوںنے کہاکہ شہد کے سرکردہ درآمد کنندگان جیسے یورپی یونین، امریکا اور جاپان کوڈیکس ایلیمینٹیریئس معیارات کی تعمیل کی ضرورت ہے یہ معیار ضرورت سے زیادہ حرارت یا پروسیسنگ کو منع کرتے ہیں جو شہد کی ضروری ساخت کو تبدیل کر دیتے ہیں مقامی طور پر تیار کردہ شہد میں آلودگی، اینٹی بائیوٹکس اور باقیات کی اعلی سطح اسے ان پریمیم خریداروں کے لیے ناقابل قبول بناتی ہے نئی بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لیے انہوں نے پاکستان کی شہد کی جانچ کرنے والی لیبارٹریوں کو عالمی معیارات پر پورا اترنے کی ضرورت پر زور دیا. انہوں نے کہا کہ ملک میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ جانچ کی سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے برآمد کنندگان کے لیے کوڈیکس ایلیمینٹیریئس اور دیگر ریگولیٹری معیارات کی تعمیل کو محفوظ بنانا مشکل ہو جاتا ہے انہوں نے پیداوار اور معیار کو بڑھانے کے لیے شہد کی مکھیاں پالنے اور شہد نکالنے کے لیے جدید آلات اور آلات کو اپنانے کی سفارش کی انہوں نے کہا کہ سٹینلیس سٹیل کے ایکسٹریکٹرز، فوڈ گریڈ اسٹوریج ٹینک، فلٹرنگ مشینیں، شہد نکالنے کی کٹس، اور ریفریکٹو میٹر کا استعمال نمایاں طور پر نکالنے کے عمل کو بہتر بنا سکتا ہے چونکہ زیادہ تر شہد کی مکھیاں پالنے والے آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں اور ان کے پاس رسمی تربیت کی کمی ہوتی ہے. انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تربیتی پروگراموں کو بڑھائے اور تحقیقی اداروں کو شہد کی مکھیوں کے پالنے والوں کو شہد کی مکھیوں کے انتظام اور شہد کی کٹائی کے لیے جدید تکنیکوں سے آگاہ کرنے کے لیے صلاحیت بڑھانے کے اقدامات کرنے چاہییں انہوںنے مشاہدہ کیا کہ بیداری اور تربیت کی کمی کی وجہ سے شہد کی ضمنی مصنوعات اکثر ضائع ہوجاتی ہیں یا کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں. انہوں نے مشورہ دیا کہ قومی زرعی تحقیقی مرکز کے شہد کی مکھیوں کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو شہد کی مکھیوں کے پالنے والوں اور پروسیسرز کے ساتھ مل کر بین الاقوامی بہترین طریقوں کے مطابق ضمنی مصنوعات کو نکالنے اور ان کی مارکیٹنگ پر توجہ دینی چاہیے انہوں نے کہا کہ کھانے کے کاروبار، پروسیسرز، تقسیم کاروں اور برآمد کنندگان کی محدود شمولیت نے بھی صنعت کی ترقی کو روک دیا ہے عمیر پراچہ نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر کی شرکت سے مارکیٹ کے رابطوں کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے جس سے پروسیسنگ کی سہولیات کو اعلی معیار کے شہد کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے. انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چین اور ترکی جیسے ممالک سے متاثر ہونا چاہیے جہاں شہد کی صنعت اچھی طرح سے منظم ہے اور بڑے پیمانے پر کام کرتی ہے انہوں نے تجارتی شوز اور سفارت خانوں اور تجارتی مشیروں کی حمایت سمیت حکومت کی زیر قیادت اقدامات کے ذریعے برانڈنگ، پیکیجنگ اور پروموشنل کوششوں کو بہتر بنانے کی تجویز بھی دی. انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اعلی معیار کے سدر شہد کے ساتھ مشرق وسطی کی مارکیٹ میں مزید رسائی حاصل کرے جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر میں اپنی ساخت، رنگت اور کرسٹلائزیشن کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے مقبول ہے اس وقت پاکستان کی شہد کی برآمدات کا تقریبا 80 فیصد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو جاتا ہے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے لیے مشرق وسطی میں اپنے مارکیٹ شیئر کو بڑھانے کے لیے کافی صلاحیت موجود ہے. انہوں نے کہا کہ پاکستانی سدر شہد کوالٹی کے اعتبار سے جرمنی کے لینگنیز شہد سے موازنہ کیا جا سکتا ہے لیکن غیر متوازن معیار اور ناکافی مارکیٹنگ کی وجہ سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے انہوں نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی بے ترتیب بارشوں کی وجہ سے سدر شہد کی پیداوار میں کمی بھی ایک چیلنج ہے. زرعی مشیر نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پاکستانی شہد کی زیادہ تر برآمدات بلک پیکنگ میں فروخت کی جاتی ہیں جنہیں بعد میں غیر ملکی کمپنیاں دوبارہ پیک کرکے برانڈڈ کرتی ہیں انہوں نے کہا کہ یہ عمل منافع کے مارجن کو کم کرتا ہے اور پاکستانی برآمد کنندگان کو بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی برانڈ شناخت قائم کرنے سے روکتا ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومتی کوششوں کے باوجود، برآمدات کو بڑھانے کے لیے پاکستان کی شہد کی صنعت کی مکمل صلاحیت کو کھولنے کے لیے مزید تعاون کی ضرورت ہے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کو نئی بین الاقوامی منڈیوں اور شہد کی اقسام کو بھی تلاش کرنا چاہیے.