Daily Ausaf:
2025-04-22@07:10:44 GMT

مفلوک الحال وزرا کی خوشحالی کی سمریاں

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مراعات کے دروازے ممبران اسمبلی یا وزرا ء پر ہی کیوں کھلتے ہیں جو پہلے ہی سے مراعات یافتہ لوگ ہیں ۔جن کے گھروں میں کبھی غربت نہیںناچی،جن کے برتنوں میں کبھی بھوک نہیں اونگھی ، جن کے بچوں کو فیس کی عدم ادائیگی کے جرم میں کبھی اسمبلی کے وقت سکول کے دیگر بچوں کے سامنے شرمندہ کرنے کے لئے قطاروں میں کھڑا کرکے ہتھیلیوں پر ڈنڈے نہیں مارے جاتے ،جن کے بستے سروں پر رکھ کر انہیں گھنٹوں کلاس روم کے باہر نہیں کھڑا کیاجاتا۔ جن کی عزت نفس کچل کرانہیں معاشرے کا راندہ درگاہ فرد نہیں بنایا جاتا۔ریاستی بد بختی اور حکومتی ناکامی کے چلتے پھرتے ثبوت وزراء کی تنخواہیں بڑھانے اور ان کی مراعات میں اضافے کی سمریاں تیار کی جا رہی ہیں۔ آخر انہوں نے کامیابی کے کون سے سنگ میل طے کئے ہیں کہ ان پر نوازشات کی بارش برسانے کا سوچا جا رہا ہے ۔اس کے لئے تنخواہوں کے ایکٹ 1975 میں ترمیم کی جارہی ہے تاکہ بے چارے بھوکے ننگے وزراء کی پردہ پوشی کا سامان کیا جائے کہ ہر آنے والے پل عوام کے سامنے ان کا بھرم برہنہ ہورہا ہے ۔ان کے چہروں پر چھائی یبوسیت ہر ساعت فزوں تر ہے کہ یہ بجلی کے بل ادا نہیں کرسکتے ،ان کے گھر کی گیس کے کنکشن کاٹنے کے نوٹس جاری ہوچکے ہیں ۔ان کے بچے سکول جاتے ہوئے ندامت محسوس کرتے ہیں کہ جب سے ان کے باپ وزراء بنے ہیں ان کی تنخواہیں اتنی بھی نہیں کہ اپنے بچوں کے سکولز کی فیسیں ادا کر سکیں۔
ڈریں اللہ کے عذاب سے عوام کے غضب سے جب آپ آئندہ انتخابات میں لوگوں سے ووٹ مانگنے کے لئے جائیں گے!کتنے بے حمیت ہیں آپ کہ حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لئے کشکول لئے پھرتے ہیں، کبھی سعودی عرب سے اور کبھی عرب امارات سے بھیک مانگتے ہیں اور کبھی آئی ایم ایف کے زیر بار ہوتے ہیں مگر گھر ان ہی کے بھرتے ہیں ان امدادوں سے جو دن رات تمہاری بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے پر مامور ہیں ، تمہارے عشرت کدوں کیں رونقیں بحال رکھنے اور اپنی جبلتوں کی تسکین کے اسباب تلاش کرتے رہتے ہیں ۔کیا خوب ہے کہ امارات اور حجاز کے حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے بھی اندھیرے تنے ہیںانہیں اپنے اپنے خوشحال ملکوں میں ہمارے ہمکتے ،بلکتے اور مشقتوں کے پہاڑ سر کرتے وہ محنت کش بھی نظر نہیں آتے جو اپنے بچوں کے پیٹ پالنے اور بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے سالہا سال گھروں سے دور صحرائوں اور بیابانوں میں جوانیاں کھپا دیتے ہیں ۔
آئی ایم ایف کے کارندوں کی آنکھوں کا پانی مرچکا ہے کہ قرضہ دیتے وقت یہ استفسار ہی نہیں کرتے کہ کن مدوں پر خرچ کروگے؟ہم چاروں طرف سے بدبختوں اور بدنیت لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ہمارے گرد اندھیروں کے حصار بننے والوں کی مراعات اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جارہا ہے ۔ہمارے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں پرکٹوتیاں اور حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں پر ڈاکے ڈالے جارہے ہیں ۔ مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے کو نہیں آرہا ،افلاس کا سیلاب ہے کہ آگے ہی آگے بڑھتا جارہاہے ،غریب غریب تر ہو رہا ہے ،متوسط طبقے کابھرم کھلتا جارہا ہے اور مراعات کے سارے دروازے وزیروں ،مشیروں اور حکمرانوں کے قرابت داروں پر کھلتے چلے جارہے ہیں ،کھلتے ہی چلے جارہے ہیں ۔ہم افتادگان خاک آسودہ خاک ہونے سے بھی ڈرتے ہیں کہ گورکنوں کے معاوضے بہت بڑھ گئے ہیں ۔شکر کریں آج اقبال ؒزندہ نہیں جو پکار اٹھتے اٹھو میری دھرتی کے غریبوں کو جلادو
’کاخ امرا کے درو دیوار کندن کے بنا دو
اور فیض ہوتے تو وہ بھی یہی
کہتے کہ
’’ریشم و اطلس و کمخواب سے
سب لٹیروں کے محلات سجادو‘‘
کتنا خوش بخت ہے وہ فیض احمد جو بدعنوانی کے الزام میںپکڑا گیا اور سزا یہ پائی کہ ایک اور محکمے کا بڑا منصبدار بنا دیا گیا۔یہاں تک کالم لکھا تھا کہ بابا کرم چوہدری دودھ والا آگیا اور دودھ دینے سے پہلے ہی ، میرے ہاتھ میں پکڑے اخبار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ’’کوئی خاص خبر جی‘‘! جواب دیا باباجی وزیروں کی تنخواہیں بڑھائی جارہی ہیں ۔خشمگیں نظر سے میری جانب دیکھا اورکہا ’’ہر سرکار کو پالشئوں کے پیٹ بھرے رکھنے پڑتے ہیں کہ
اس کے پائوں تلے سے زمین
چھیننے و الوں کے ساتھ نہ مل جائیں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

Rich Dad -- Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘ والد ٹھیکیدار تھا‘ جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقیاتی کام شروع ہوئے‘ سڑکیں بنیں‘ ڈیم بننے لگے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھنے لگیں‘ والد نے اس دور کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘ اس نے منگلا ڈیم سے مٹی نکالنے کا ٹھیکہ لیا‘ پھر سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں بنانے اور آخر میں بلوچستان میں ہیلتھ یونٹس کی تعمیر کا کام سنبھال لیا‘ یہ کام، کام نہیں تھے‘ یہ سونے کی کانیں تھیں‘ والد ان کانوں کا جتنا سونا سمیٹ سکتا تھا اس نے سمیٹ لیا‘ وہ سمجھ دار آدمی تھا۔

 اس نے جو کمایا پراپرٹی میں لگا دیا‘ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی خوب کیا‘ لڑکے ایچی سن میں پڑھے اور لڑکیوں نے کانونٹ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی‘ والد نے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کی‘ یہ لوگ اس وقت ذاتی گاڑیوں پر اسکول اور کالج جاتے تھے جب نوے فیصد پاکستانی تانگوں پر سفر کرتے تھے‘ دنیا میں دولت 80 فیصد لوگوں کو خراب کر دیتی ہے‘ یہ لوگ شراب‘ شباب کباب اور جوئے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر نمود ونمائش کے ذریعے اللہ کے دیے رزق کو آگ لگانے لگتے ہیں لیکن ان کا والد مختلف انسان تھا‘ دولت نے اسے خراب نہیں کیا‘ وہ آخری سانس تک سادہ اور شریف آدمی رہا‘ پانچ وقت کا نمازی‘ زندگی میں تین حج اور دس عمرے اور سگریٹ تک کو منہ سے نہیں لگایا‘ بچے بھی بہت اچھے تھے۔

 یہ پانچوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے چنانچہ خاندان کی زندگی میں ہر طرف امن ہی امن‘ سکون ہی سکون اور خوش حالی ہی خوش حالی تھی لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘ حالات نے پلٹا کھایا‘ خاندان ٹوٹا اور پانچوں بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے‘ ان پانچوں کی باقی زندگی عدالتوں‘ کچہریوں اورو کیلوں کے دفتروں میں دھکے کھاتے گزری‘ کیوں؟ ہم اس کیوں کی طرف آنے سے پہلے اس واقعے کی طرف جائیں گے جو اس خوشحال فیملی کو بکھیرنے کی وجہ بنا‘ ان کا والد 1972ء میں اچانک فوت ہو گیا۔

 والد کی تدفین کے بعد جائیداد کے کاغذات اکٹھے کیے گئے‘ پتہ چلا والد نے کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور ڈھاکہ میں کروڑوں روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑی‘ فیصل آباد کے مضافات میں زرعی زمین بھی تھی اور ملتان میں دو فیکٹریاں بھی۔ جائیداد کی تقسیم پہلا تنازع تھا جس نے ان بہن بھائیوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جنھیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی‘ یہ تنازع بڑھتے بڑھتے دشمنی بن گیا‘ پانچوں بہن بھائی جائیداد میں حصے کے لیے عدالتوں میں گئے اور پھر اس کے بعد واپس نہ آئے‘ جائیداد کی دشمنی اب تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے‘ اب کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی نہ جانے کب تک لڑتے رہیں گے۔

آپ یقینا ان پانچ بہن بھائیوں کو لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم کہیں گے لیکن میں ان کو مظلوم اور بے گناہ سمجھتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میری نظر میں یہ لوگ لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم نہیں ہیں‘ ان کا والد تھا‘ وہ ایک ایسا ظالم اور لالچی شخص تھا جو دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اولاد کے لیے فساد کی بے شمار جڑیں چھوڑ گیا‘ یہ والد کی چھوڑی ہوئی وہ زمین‘ جائیداد‘ ملیں اور رقم تھی جس نے 53 برسوں تک بچوں کو اکٹھے نہیں بیٹھنے دیا‘ جس نے انھیں ایک دوسرے کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جمع نہیں ہونے دیا اور جس نے بہن کو بہن اور بھائی کو بھائی نہیں رہنے دیا چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے‘ ظالم اور لالچی کون تھا‘ بچے یا والد؟ آپ جتنا غور کریں گے۔

 آپ بھی اتنا ہی والد کو اس سارے فساد کا ذمے دار قرار دیں گے‘ اب سوال یہ ہے‘ کیا یہ صرف ایک خاندان یا چند لوگوں کی داستان ہے؟ جی نہیں‘ آپ دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو اپنے ہر طرف ایسے ہزاروں خاندان نظر آئیں گے جن کے والدین اپنے بچوں کے لیے عمر بھر خوشحالی جمع کرتے رہے‘ جو زندگی بھر اپنی آل اولاد کے لیے دولت کے انبار لگاتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھ بند ہوئی‘ ان کی وہ اولاد ان کے جنازے میں ہی لڑ پڑی جس کی خوشحال اور مطمئن زندگی کے لیے وہ تنکا تنکا جمع کرتے رہے تھے‘ ان کی اولاد پھر کبھی اکٹھی نہ بیٹھ سکی۔

 بچے عمر بھر وکیلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے اور جب بچوں کا آخری وقت آیا تو ان کی کوئی بہن‘ بھائی‘ بھتیجا اور بھانجا ان کا منہ دیکھنے کے لیے نہیں آیا چنانچہ پھر ظالم کون ہوا‘ والد یا اولاد؟ آپ ان کے مقابلے میں اب ان لوگوں کو دیکھئے‘ جو اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے‘ یہ لوگ زندگی میں جتنا کماتے رہے‘ اتنا کھاتے رہے‘ کرائے کے چھوٹے مکانوں میں زندگی گزاری‘ گھر بنایا تو وہ بھی تنگ اور چھوٹا تھا‘ ایک آدھ گاڑی خریدی اور کپڑے اور جوتے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن بچوں کی تربیت‘ تعلیم اور صحت پر بے انتہا توجہ دی‘ اپنی اولاد کو خود اسکول چھوڑ کر آئے‘ ان کے لیے کتابیں خریدیں‘ ان کے ساتھ میدانوں میں دوڑ لگائی‘ کرکٹ کھیلی‘ ہاکی اور فٹ بال سے لطف لیا‘ قہقہے لگائے‘ لطیفے سنائے اور باربی کیو کیا۔

 یہ لوگ جب یہ مشکل اور غریب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی اولاد کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے یہ آپس میں تقسیم کرتے اور اس تقسیم کے دوران کوئی تنازع پیدا ہوتا چنانچہ اولاد نہ صرف والدین کے انتقال کے بعد بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت میں اضافہ بھی ہوتا گیا‘ آپ کبھی ملک میں ’’کزن میرجز‘‘ پر بھی تحقیق کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ’’کزن میرج‘‘ کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے دادا اور نانا ترکے میں زمین جائیداد چھوڑ کر نہیں جاتے‘ والدین نے کیونکہ دولت نہیں چھوڑی ہوتی چنانچہ بچے آپس میں ملتے رہتے ہیں اورجب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو بھائی بھائی سے رشتہ مانگ لیتا ہے اور بہن اپنی بیٹی بھتیجے سے بیاہ دیتی ہے اور یوں محبت اور رشتے آگے بڑھتے جاتے ہیں جبکہ آپ ان کے مقابلے میں امیر خاندان کے بچوں کو اپنے کزنز کے گلے کاٹتے دیکھیں گے‘ یہ غریب اور امیر خاندانوں کی زندگی کا ایک پہلو ہے‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔

میں نے زندگی میں غریب والدین کے زیادہ تر بچوں کو ترقی کرتے دیکھا‘ آپ بھی سروے کریں‘ آپ بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب لوگوں کا بیک گراؤنڈ دیکھیں‘ آپ کو اسی فیصد کامیاب لوگوں کا بچپن غربت اور عسرت میں لتھڑا دکھائی دے گا‘ والد غریب تھا‘ وہ لوہا کوٹتا تھا‘ وہ موچی‘ کسان‘ سیلز مین یا فیکٹری مزدور تھا‘ وہ کلرک یا سیکشن آفیسر تھا‘ وہ مزارع تھا یا پھر وہ معمولی دکاندار تھا لیکن بیٹا سیٹھ بن گیا‘ مل مالک‘ اعلیٰ افسر‘ جرنیل‘ سائنس دان یا اداکار ہو گیا‘ آپ یہ ڈیٹا جمع کریں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔

 غربت میں دس ہزار خرابیاں اور ایک لاکھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہوتی ہے جو دنیا کی کسی دوسری چیز میں نہیں پائی جاتی‘ غربت دنیا کا سب سے بڑا طعنہ ہے‘ یہ طعنہ انسان کے اندر غربت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دیتا ہے اور انسان سینہ ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘ یہ غربت سے لڑ پڑتا ہے اور ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے‘ میں غریب والدین کے کامیاب بچوں سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے غریب والد کا شکریہ ادا کریں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ کی یہ ساری کامیابی آپ کے والد کی غربت کا رد عمل ہے‘ آپ کو آپ کے ناکام اورغریب والد نے کامیاب اور امیر بنایا‘ آپ اگر بچپن میں غربت اور ناکامی نہ دیکھتے تو آپ کے دل میں کبھی ناکامی اور غربت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہوتی اور آپ کے دل میں اگر یہ نفرت سر نہ اٹھاتی تو آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے‘ میں اسی طرح سخت ماں باپ کے کامیاب بچوں سے بھی عرض کرتا ہوں‘ آپ اپنے والدین کی سختی کا شکریہ ادا کریں۔

 وہ اگر آپ پر سختی نہ کرتے تو آپ شاید گھر سے نہ بھاگتے‘ آپ شاید کتابوں‘ اسپورٹس اور کاروبار میں پناہ نہ لیتے اور شاید آپ میں حالات کے خلاف لڑنے کا اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوتا‘ یہ حوصلہ‘ سختی کا مقابلہ کرنے کی یہ ہمت آپ کی کامیابی کا اصل گُر ہے اور آپ نے یہ گُر اپنے والدین کی سختی‘ ظلم اور منفی رویوں سے کشید کیا‘ وہ اگر نرم نہ ہوتے تو آپ اس وقت کامیابی کی آخری سیڑھی کی بجائے میاں چنوں میں بوریاں جھاڑ رہے ہوتے یا پھر آپ نے لاڑکانہ میں آلو چھولے کی ریڑھی لگائی ہوتی‘ یہ آپ کے والدین کی سختی تھی جس نے آپ کو زندگی کے نئے میدان تلاش کرنے پر مجبور کیا‘ یہ سختی تتلی کے انڈے کا وہ باریک سوراخ ثابت ہوئی جس سے نکلنے کی کوشش میں قدرت تتلی کے جسم پر خوبصورت پر اگا دیتی ہے‘ انڈے کا سوراخ جتنا چھوٹا ہوتا ہے‘ تتلی کے پر اتنے ہی خوبصورت اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ سوراخ جتنا بڑا ہوتا ہے۔

 تتلی کے مرنے کے چانس بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں‘ زندگی میں اگر سختی‘ غربت اور مسائل نہ ہوں تو شاید دنیا میں کوئی ایڈیسن‘ آئن سٹائن‘ نیوٹن‘ شیکسپیئر‘ مائیکل اینجلو‘ مارک زکر برگ اور بل گیٹس پیدا نہ ہو‘ دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ سختی اور غربت کی پیداوار ہوتے ہیں‘ یہ مشکلات کے کوکون سے نکلتے ہیں چنانچہ آپ اگر امیر ہیں تو آپ جان لیں آپ کی جائیداد آپ کے بعد آپ کے بچوں کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دے گی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ ہرگز ہرگز شرمندہ نہ ہوں‘ آپ کی یہ غربت آپ کے بچوں کی کامیابی کا ذریعہ بنے گی اور یہ ان کو ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھے گی‘ غریب باپ امیر باپ کے مقابلے میں ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • Rich Dad -- Poor Dad
  • کبھی نہیں کہا میرے خلاف مہم کے پیچھے علیمہ خان ہیں، شیر افضل مروت
  • نئی ترمیم لانے کی فی الحال کوئی تجویز نہیں: وزیرِ قانون اعظم نذر تارڑ
  • کومل میر کی کاسمیٹک سرجری اور وزن میں اضافے پر لب کشائی
  • ریاست بھر کی یکساں ترقی و خوشحالی اور تمام علاقوں کیلئے سہولیات کی فراہمی میرا منشور ہے، چوہدری انوارالحق
  •  دو ریاستی حل ہم کبھی بھی اسرائیل کو قبول ہی نہیں کرتے، فخر عباس نقوی 
  • خیبرپختوںخوا حکومت کے تمام ادارے، وزرا کرپشن میں ملوث ہیں، گورنر پختونخوا
  • مہنگائی 38 فیصد سے ایک اشاریہ 5 فیصد تک آگئی، پاکستان خوشحالی کی طرف گامزن ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • اور ماں چلی گئی
  • عمران خان سرخرو ہوں گے، کبھی ڈیل نہیں کریں گے: زرتاج گل