ایک ’منحوس‘ ہیرے کی کہانی جو دریافت ہندوستان میں ہوا مگر اب امریکی میوزیم میں پڑا ہے
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
انسانوں کی انگلیوں کے نشان کی طرح ایک ہیرا بھی کبھی کسی دوسرے ہیرے سے نہیں ملتا۔ اس لئے ہر قدرتی ہیرا اپنے آپ میں نادرالمثال ہوتا ہے۔ہیرے کی دریافت اگرچہ ہندوستان میں لیکن اسے قدیم یونانی اپنے دیوتاؤں کے آنسو سمجھتے تھے جبکہ قدیم روم والوں کے نزدیک یہ ہیرے ٹُوٹے ہوئے تاروں کا حصہ تھے اور وہ انہیں خوش قسمتی کی علامت اور بد رُوحوں کو بھگانے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
تاہم مختلف ہیروں سے متعلق بہت ساری کہانیاں دنیا بھر میں گردش کرتی رہی ہیں اور بعض ہیروں کو تو بدقسمتی کی علامت بھی سمجھا گیا ہے۔دنیا کا سب سے مشہور کوہِ نور ہیرا ان میں سے ایک ہے جو ہندوستان میں دریافت ہونے کے بعد فی الحال تاج برطانیہ میں ٹنکا ہوا ہے۔
ہم یہاں ایک ایسے ہیرے کی کہانی بیان کر رہے ہیں جو اپنی خوب صورتی میں بے مثال رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ بدشگونی اور نحوست شامل رہی ہے۔ اس مشہور ہیرے کو ’ہوپ‘ کا نام دیا گيا اس لیے نہیں کہ اس سے کوئی امید وابستہ ہے۔
یہ نیلے رنگ کا ہیرا اپنی بے پناہ خوب صُورتی کے ساتھ کئی ناموں سے مشہور رہا ہے۔ اسے کبھی ’لا بیجو دی روئی‘ یعنی بادشاہ کا ہیرا کہا گیا تو کبھی ’لا بلیو دی فرانس‘ یعنی فرانس کا نیلا ہیرا کہا گيا۔اس ہیرے کا تعلق بھی ہندوستان سے بتایا جاتا ہے۔ یہ انڈیا کی موجودہ وسطی ریاست آندھراپردیش کے ضلع گُنٹور میں کولر کان سے 17ویں صدی میں ملا تھا۔
اس ہیرے کی تاریخ کے مطابق اسے فرانس کے ایک تاجر ژان بیپٹسٹ ٹیورنیئر نے خام تراشیدہ صورت میں حاصل کیا تھا۔انہوں نے اس ہیرے کو اس کی تراشیدہ شکل میں فرانس کے بادشاہ لوئی چہار دہم کو فروخت کر دیا۔ایک رپورٹ کے مطابق 1642 میں اپنی دریافت کے بعد سے یہ ہیرا جس کی بھی ملکیت رہا اس کے لیے منحوس ثابت ہوا۔
شراپ کی کہانی
کہا جاتا ہے کہ یہ شروع میں 115 کیرٹ سے زیادہ کا ہیرا تھا اور کان سے دریافت ہونے کے بعد اسے ایک مجسمے کی ایک آنکھ کے طور پر نصب کر دیا گیا تھا۔ جب پجاری کو اس کی چوری کا علم ہوا تو اس نے شراپ دیا کہ یہ جس کے پاس ہو اُس کا بُرا ہو۔
یہ ہیرا انڈیا کی ریاست آندھرپردیش کے ضلع گُنٹور میں کولر کان سے 17ویں صدی میں ملا تھا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
کہا جاتا ہے کہ ژاں بیپٹسٹ اس کے بعد بیمار پڑے اور موت نے انہیں آلیا لیکن دوسرے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ وہ کافی دنوں تک زندہ رہے اور اس ہیرے کو 1668 میں بادشاہ لوئی چہار دہم کو فروخت کر دیا۔
بادشاہ نے ہیرے کو خریدنے کے بعد اسے 69 کیرٹ میں ترشوا دیا اور اسے اپنے تاج میں ٹانکا جسے ’بادشاہ کا نیلا ہیرا‘ کہا گیا، لیکن اس کے بعد انہیں گینگرین کا مرض لاحق ہوگیا جس میں اُن کی موت ہو گئی۔
اس ہیرے سے متعلق ایک کہانی یہ بھی ہے کہ یہ بادشاہ کے ایک وزیر کے پاس تھا جو اسے خاص موقعے پر پہنتا تھا لیکن پھر اس کے بعد اسے سلطنت بدر کر دیا گيا اور جنگلوں میں بھٹکتے ہوئے اس کی موت واقع ہوئی۔
تاہم اس ہیرے سے متعلق یہ بات تواتر سے آتی ہے کہ لوئی چہارم کے بعد یہ لوئی 16 کی ملکیت ٹھہرا جسے فرانس کے انقلاب کے دوران ذبح کر دیا گیا اور نو ماہ بعد رانی میری کا بھی وہی حشر ہوا۔
بعض افراد کا خیال ہے کہ یہ نیلا ہیرا ہی اُن کی بدنصیبی کا سبب بنا تھا۔
ایک روایت کے مطابق فرانس کے انقلاب کے دوران یہ ہیرا چوری ہو گیا اور 20 سال تک اس کا کوئی سُراغ نہ ملا۔ اس کے بعد 115 کیرٹ کا ہیرا ڈچ جوہری ولہیلم فالس کی ملکیت بنا جسے انہوں نے 45 کیرٹ میں تراش دیا اور اسے آج اسی شکل میں ’بلیو ہوپ ڈائمنڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہیرے کو کاٹے جانے کے بعد تاجر کے بیٹے نے اپنے والد کا قتل کر دیا اور ہیرا حاصل کر لیا لیکن پھر اس نے اپنی جان بھی لے لی۔
’ہوپ‘ ہیرے کو فرانس کے ایک تاجر نے بادشاہ لوئی چہار دہم کو فروخت کر دیا تھا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
ایک بار پھر چند دنوں کے لیے اس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا لیکن پھر 1838 میں یہ ہیرا ایک برطانوی تاجر کے جواہرات کے ذخیرے میں درج ملا۔ یہ تاجر خاندان ہوپ تھا اور اسی مناسبت سے اسے بلیو ’ہوپ‘ ہیرا کہا گيا۔
سنہ 1912 میں ایک رئیس زادی ایولن والش میکلین نے اس ہیرے کو پیئرے کارٹیئر سے خریدا جس کے ساتھ ہی اُن کی بدقسمتی کا ایک ایسا دور شروع ہوا جو اُن کی موت پر ختم ہوا۔اسے خریدنے کے ساتھ ہی اُن کی ساس فوت ہوگئیں اور اُن کے بیٹے کی نو سال کی عمر میں موت ہو گئی۔ اس کے شوہر نے دوسری عورت کے لیے انہیں چھوڑ دیا اور پاگل ہونے کے بعد ایک ہسپتال میں اس نے دم توڑا۔
ایولن کی بیٹی کی موت منشیات کے بہت زیادہ استعمال سے ہوئی اور بالآخر ایولین کو اپنا اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ بیچنا پڑا۔انتہائی تنگ دستی اور مقروض حالت میں ایلون کی موت ہوئی۔ ان کے بچ جانے والے بچوں نے 1949 میں ایک مشہور جوہری کے ہاتھوں وہ ہیرا فروخت کر دیا۔
اب یہ ہیرا واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل میوزیم میں ہے، یہ نیشنل جیم اینڈ منرل کلیکشن کا حصہ ہے اور اس کی قیمت تقریباً 250 ملین امریکی ڈالر بتائی جاتی ہے۔ تاہم یہاں تک پہنچنے میں بھی اس کی بدقسمتی کی کہانی چلی آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس ڈاکیے نے اسے وہاں تک پہنچایا اس کی موت ایک حادثے میں ہو گئی۔
اس ہیرے کو ایک پینڈنٹ میں جڑ دیا گیا اور یہ گلے کے ہار کا حصہ ہے۔ نیشنل میوزیم میں لوگ سب سے زیادہ اسے ہی دیکھنے جاتے ہیں جو کسی کے لیے عبرت کا نشان تو کسی کے لیے قدرت کا شاندار شاہکار ہے۔
پاکستان کی معاشی سرگرمیاں مستحکم اور شرح سود میں کمی سے بہتر ہورہی ہیں: فچ رپورٹ
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فروخت کر دیا اس ہیرے کو اس کے بعد فرانس کے کی کہانی دیا اور یہ ہیرا ہیرے کی کے ساتھ کا ہیرا ا ہے کہ کے لیے اور اس کی موت
پڑھیں:
امریکی برانڈ صوفی کونسل اور اسرائیل کی حمائت
سوال یہ ہے کہ حضرت سید علی ہجویری ؒ،بابا فرید گنج شکرؒ،حضرت معین الدین چشتیؒ،حضرت سلطان باہو ؒ، حضرت بہائوالدین زکریاؒ ملتانی ،سمیت دنیا بھر میں کون سے صوفی با صفاء ہیں کہ جنہوں نے یہودیوں کو فلسطینی مسلمانوں پر کبھی ترجیح دی ہو؟ یقینا کوئی ایک بھی نہیں،تو پھر یہ جہلم کا پیر جسے اسرائیلی صدر پیار سے پیر مصدر شاہ کے نام سے یا د کرتا ہے،یہ کون اور اس کی صوفی کونسل کیا بلا ہے؟آئیے اسے اس رپورٹ کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،رپوٹ کے مطابق پیر مدثر شاہ صوفی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ جنہوں نے ایک کتاب ’’وسپر ان دی سٹون‘‘لکھی ہے۔ یہ کتاب پنڈی کے اردگرد مختلف مذاہب کے آثار اور مقامات کے بارے میں ہے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ اور یہودی آثار کے حوالے سے اس کتاب میں تصاویر ہیں۔اس کتاب کی تعارفی تقریب یروشلم سینٹر فار پبلک افیئر میں 27مارچ کو ہوئی۔ اس تقریب میں گنتی کے دوڈھائی درجن افراد شریک ہوئے۔ کتاب کے لکھاری سمیت کچھ مہمانوں نے ورچوئل شرکت کی۔اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کا ایک ریکارڈڈ پیغام اس تقریب میں سنایا گیا۔ منتظمین تقریب اس میں ہونے والی باتوں کے حوالے سے بہت ہی احتیاط کا مظاہرہ کرتے رہے۔پیرمدثر شاہ سے یروشلم سینٹر نے رابطہ کر کے کہا تھا کہ آپ اپنے نام کی ادائیگی جیسے کرتے ہیں وہ ریکارڈ کر کے بھیجیں۔ اسرائیلی صدر آپ کا نام ٹھیک طرح سے ادا کرنا چاہتے ہیں۔
صدر اسحاق ہرزوگ پھر بھی نام کو پیرمصدر شاہ ہی بولتے رہے، ڈھائی منٹ کے اس ویڈیو پیغام میں 2 بار اسرائیلی صدر نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ ٹیکنالوجی، زراعت، ماحولیات اور دوسرے شعبوں میں تعاون کر سکتے ہیں،اسرائیلی صدر کے پیغام کی ویڈیو تقریب میں چلائے جانے کے بعد فوری جاری نہیں کی گئی۔ اس کو ایڈیٹنگ کے لئے زیر غور رکھا گیا۔ یہ اس احتیاط کا مظاہرہ تھا کہ کوئی لفظ یا جملہ ایسا نہ چلا جائے جس سے کوئی حساسیت منسلک ہو اور کسی غیرضروری ردعمل کا باعث بن جائے ۔ری پبلکن امریکی صدور ڈونلڈ ٹرمپ اور بش جونیئر کے مڈل ایسٹ ایڈوائزر اس تقریب میں شریک ہوئے۔ دو ڈھائی درجن افراد کی مختصر تقریب میں ہائی پروفائل شرکا کا اندازہ اسی سے لگا لیں۔ مائیکل ڈورن نے زوم کے ذریعے شرکت کی۔ یہ صدر بش کے دور میں امریکی وزارت دفاع میں پبلک ڈپلومیسی کے لئے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری رہے ہیں۔ یہ سینٹر فار پیس اینڈ سکیورٹی مڈل ایسٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔جیسن ڈی گرین بلاٹ دی ٹرمپ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے علاوہ ٹرمپ کے چیف لیگل آفیسر رہے ہیں۔ٹرمپ کے دور صدارت میں یہ اسرائیل کے لئے صدر ٹرمپ کے مشیر تھے۔اس تقریب میں ایک اسرائیلی خاتون نے پاکستان اور پاکستانیوں کا شکریہ بھی ادا کیا جنہوں نے یہودی آثار کو اوریجنل حالت میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ انڈین سفارتخانے کے ایک نمائندے نے بھی تقریب میں شرکت کی۔انڈین ڈپلومیٹ کے لیے یقینی طور پر یہ بات اٹریکشن کا باعث تھی کہ ایک پاکستانی پیر کی کتاب کی مختصر سی تقریب رونمائی میں اتنی ہائی پروفائل شخصیات اور خود اسرائیل صدر شریک ہیں۔ سینئر صحافی کی رپورٹ کے مطابق پیر مدثر شاہ پاک یو ایس ایلومینائی کے اسلام آباد چیپٹر کے صدر ہیں۔ تعلق مچھ بلوچستان سے ہے۔ ان کی فیملی سروبا جہلم اور بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے ہم پاکستانیوں نے نام نہاد صوفی ڈپلومیسی کے اثر اور پہنچ کو ابھی دریافت ہی نہیں کیا۔ اصل صوفی ازم کے احترام سے انکار ممکن نہیں ، ہم تصوف ، اہل تصوف کے کامل احترام کے قائل ہیں ، اور اسے تسلیم کرتےہیں ، لیکن جس طرح بعض شر پسند اور دین دشمن دینا سلام کا نام بدنام کرکے دین کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں ، اسی طرح بعض مفاد پرست ، دین اسلام اور صوفیاء عزام کے دشمن بھی صوفی ازم کا نام استعمال کرکے اسلام دشمن قوتوں کے مقاصد پورے کرتے ہیں ۔یہ نام نہاد صوفی کنکشن کتنا مضبوط ہے اس کا ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہے۔ اس پر کبھی ہم نے غور ہی نہیں کیا۔ ویسے ہی جنرل نالج واسطے عرض ہے کہ کئی ملکوں کے حکمران خاندان جن صوفیا کے عقیدت مند تھے ان کا تعلق بھی ہمارے خطے سے ہے ۔ ان کنیکشنز کو ڈھونڈنے اور استوار کرنے کی ضرورت ہے۔’’جہلم کے پیر مدثر اوراسرا ئیل کا پیر مصدر شاہ کی صوفی کونسل میں کون کون سے جعلی پیر اور ملاں شامل ہیں،ان پر اور ان کی سرگرمیوں پر بھی کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے ،نائن الیون کی یہودی کوکھ سے جنم لینے والا وحدت ادیان کا تصور ہو،یا بین المذاہب ہم آہنگی کا لولی پاپ،یہودو نصاریٰ نے ڈالر پھینک تماشا دیکھ کے اصول کے تحت بعض بدبختوں پر خوب ڈالر لٹائے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اصل صوفی ازم کے وابستگان امن و آشتی کے پرچارک ہوتے ہیں، مگر امریکن برانڈ صوفی کونسل اور صوفی ازم کے پرچارک پیر مصدر شاہ کو غزہ کے ساٹھ ہزار کے لگ بھگ انسانوں کا قاتل اسرائیل معصوم اور حماس کے مجاہد دہشت گرد نظر آتے ہیں۔
صوفی ازم کی آڑ میں صہیونیت اور دجال کے ان سہولت کاروں کا مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ذیل میں سندھ کے راشدی خاندان کے چشم وچراغ پیر سید یاسر الدین الراشدی کی ایک سندھی تحریر کا ترجمہ پیش خدمت ہے، جو انہوں نے تین دن قبل لکھی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’اسرائیل کی حامی صوفی کونسل پاکستان:صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں واقع درگاہ سروبا شریف کی گدی نشین، پیر مدثر شاہ، جو سچ انسٹیٹیوٹ اور اس کی ذیلی تنظیم ’’صوفی کونسل‘‘کے بانی ہیں، اسرائیل کے حامی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ پیر مدثر شاہ نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا ہے، جہاں ان کا خیر مقدم کیا گیا اور ان کے انٹرویوز بھی نشر ہوئے۔ ان انٹرویوز میں، پیر مدثر نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور اسرائیلی یہودیوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج ہم ان کے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائیں گے تو کل ہمارے حقوق کے لیے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائے گا۔ پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی مخالفت کی جاتی ہے، لیکن پیر مدثر شاہ اپنے پلیٹ فارم سے اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ بات حیران کن اور نہایت معنی خیز ہے کہ پاکستانی ریاستی ادارے اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ ایک طرف عالم اسلام فلسطینیوں کے قتل عام پر آواز اٹھا رہا ہے اور دوسری طرف مسلمان رہنما اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگر سندھ کے پیر اور علماء اس بنام نہادصوفی کونسل کے مقاصد سے واقف ہیں تو انہیں فورا اس سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے۔ اگر وہ لاعلمی میں اس کا حصہ بنے ہیں تو انہیں اس سے الگ ہو کر اسرائیل کے حامی پیر مدثر شاہ کو پیغام دینا چاہیے کہ وہ اسرائیل کی حمایت سے باز آئیں۔ اگر وہ واقعی سچے مسلمان ہیں تو انہیں اسرائیل کی حمایت سے گریز کرنا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ کہ اسرائیل کے یہودی بھی اس صوفی کونسل کے رکن ہیں۔‘‘