خواتین کی تعلیم پر پابندی کی مذمت،طالبان وزیر نے افغانستان چھوڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
٭طالبان کے سینیئر اہلکار محمد عباس استانکزئی افغانستان کے نائب وزیر خارجہ بھی ہیں
خواتین کی تعلیم پر پابندی کی مذمت کرنے والے طالبان وزیر نے افغانستان چھوڑ دیا۔ تفصیلات کے مطابق طالبان کے سینیئر اہلکار محمد عباس استانکزئی جو افغانستان کے نائب وزیر خارجہ بھی ہیں، حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی کی کھلے عام مخالفت کرنے کے بعد افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی ذرائع نے بتایا کہ عباس استانکزئی حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی اعلی تعلیم پر پابندی کے فیصلے پر تنقید کے بعد ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ عباس استانکزئی نے جنوری میں افغانستان کے صوبہ خوست میں ایک گریجویشن تقریب کے دوران بات کی تھی۔
انہوں نے حکومت سے علم کے دروازے کھولنے” کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا کا حال اور مستقبل میں کوئی جواز نہیں ہے ۔وزیر نے وضاحت کی کہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مردوں اور عورتوں کو برابری کی بنیاد پر تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: تعلیم پر پابندی عباس استانکزئی
پڑھیں:
تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
ماہرین نے خبردار کیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کا بیانیہ انتہا پسندی کا پردہ ہے جو پاکستان کی اسلامی اور جمہوری اساس کو کمزور کرنے کی کوشش ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ گروہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کیخلاف ہے بلکہ قانونی اور اخلاقی اصولوں کو بھی پامال کر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں موجودہ نظام حکومت غیراسلامی ہے اور وہ تشدد کے ذریعے شریعت کا نفاذ کرکے معاشرے کو حقیقی اسلامی اصولوں پر استوار کریں گے۔ ماہرین کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کا آئین اور جمہوریت کو مسترد کرتے ہوئے تشدد کو ’’جہاد‘‘ قرار دینا اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح ہے، اسلامی تعلیمات بے جا بغاوت کو ’’فساد فی الارض‘‘ قرار دیتی ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے حاکم سے نافرمانی کی وہ مجھ سے جدا ہوا‘ (بخاری)۔ فقہا کے مطابق بغاوت تب تک جائز نہیں جب تک حکمران کھلم کھلا کفر نہ کرے جبکہ پاکستان کا آئین اسلامی اصولوں پر مبنی ہے، شریعت کا نفاذ جبر کے بجائے حکمت، عدل اور اجتماعی رضامندی سے ہونا چاہئے۔
قانونی طور پر پاکستان کا آئین اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیتا ہے اور شریعت کا نفاذ پارلیمنٹ کے ذریعے طے ہوتا ہے، ٹی ٹی پی کا غیر آئینی تشدد قانوناً غداری کے مترادف ہے۔ اخلاقی طور پر کالعدم ٹی ٹی پی کا تشدد، خود ساختہ تعزیرات اور عوامی امن کی تباہی شریعت کے مقاصد یعنی عدل، رحمت اور انسانی حقوق کے منافی ہے، قرآن کا فرمان ہے: ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘ (البقرہ:256) اور جبراً شریعت مسلط کرنا اسلام کے رحمت للعالمینﷺ کے تصور کو مجروح کرتا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کا بیانیہ انتہا پسندی کا پردہ ہے جو پاکستان کی اسلامی اور جمہوری اساس کو کمزور کرنے کی کوشش ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ گروہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کیخلاف ہے بلکہ قانونی اور اخلاقی اصولوں کو بھی پامال کر رہا ہے۔