بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حامی اداکاروں کی گرفتاریاں شروع
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
بنگلہ دیش میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کی حامیوں میں بنگلادیش فلم انڈسٹری کی اداکارہ بھی شامل ہیں جنہیں پولیس حکام نے حراست میں لے لیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حال ہی میں بنگلادیشی اداکارہ مہر افروز شان کو ڈھاکہ کے دھان منڈی علاقے میں ان کی رہائش گاہ سے ’ریاست کے خلاف سازش‘ کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔ ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس (ڈی ایم پی) کی خفیہ برانچ (ڈی بی) کے ایڈیشنل کمشنر ریجا الکریم ملک نے اس گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
اس سے قبل، اداکارہ سوہانہ صبا کو بھی ڈی بی نے پوچھ گچھ کے لیے اپنی تحویل میں لیا تھا۔
ڈی ایم پی کے میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنز ڈویژن کے ڈپٹی کمشنر محمد طالب الرحمان نے جمعرات کی صبح اس پیش رفت کی تصدیق کی۔
ان گرفتاریوں کے پس منظر میں، بنگلہ دیش میں اگست 2024 میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کے بعد شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، اور وہ ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں۔ اس کے بعد سے ملک میں عبوری حکومت قائم ہے، اور سابق حکومت کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
ان اقدامات کے تحت، شیخ حسینہ واجد کے حامیوں اور ان سے منسلک شخصیات کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، جن میں میڈیا پر پابندیاں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شامل ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: حسینہ واجد کے خلاف
پڑھیں:
پشاور: آئس کے نشے نے نوجوان نسل کو جکڑ لیا، پولیس کی کارروائیاں بےاثر ثابت
پشاور میں آئس کے نشے نے نوجوان نسل کو جکڑ لیا. پولیس کی کارروائیاں بےاثر ثابت ہوگئیں۔ذرائع کے مطابق پشاور کی گلیوں سے لیکر تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کا آئس جیسی خطرناک نشہ آور اشیاء کا استعمال لمحہ فکریہ ہے۔ جس نے نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بحالی مراکز میں مریضوں کے لگاتار اضافے نے ڈاکٹروں کو تشویش کا شکار کردیا ہے. مراکز میں وسائل محدود ہیں.علاج بھی طویل اور مہنگا ہے۔
دوسری جانب پولیس اور انسدادِ منشیات فورس کی آئس کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ مگر اسمگلنگ اور سپلائی چین اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ ایک گینگ کے پکڑے جانے کے بعد دوسرا فوراً متحرک ہو جاتا ہے.نشوں کے بڑھتے ہوئے رجحان سے سب سے زیادہ شہری پریشان ہیں، جن کا کہنا ہے کہ پولیس اگر اپنا کام ٹھیک سے کرتی تو حالات ایسے نہ ہوتے۔حل صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی نہیں. بلکہ معاشرتی بیداری، تعلیمی اداروں میں آگاہی اور والدین کی بروقت توجہ ہی نوجوانوں کو اس تباہ کن راستے سے بچا سکتی ہے۔