حکومتی ڈیڈ لائن کا آخری روز، 40 ہزار وفاقی ملازمین کا قبل از وقت مستعفی ہونے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
امریکا(نیوز ڈیسک)امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وفاقی ملازمین کو جبری مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن کا آج آخری روز ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق 40 ہزارسے زائد وفاقی ملازمین نے حکومتی پیشکش قبول کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق حکومتی پیشکش قبول کرنے والے ملازمین کی تعداد امریکا کی وفاقی حکومت کے 23 لاکھ ملازمین کا 4 فیصد ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی سرکاری ملازمین کو نوکری چھوڑنے کے بدلے 8 ماہ کی تنخواہ کی پیشکش کی تھی۔امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے وفاقی سرکاری ملازمین کو موصول ہونے والے والی ای میل میں انہیں نوکری چھوڑنے کے بدلے 8 ماہ کی تنخواہ دینےکی آفر کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ای میل میں کہا گیا تھا کہ رضاکارانہ استعفےکے بدلے 8 ماہ کی تنخواہ کی پیشکش 6 فروری تک ہے، جو ملازمین اس پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ اس ای میل کے جواب میں استعفیٰ (Resign) لکھ کر بھیج دیں۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا اندازہ ہے کہ 10 فیصد وفاقی ملازمین حکومت کی آفر کو قبول کرسکتے ہیں جس سے حکومت کو تقریباً 100 ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔
آسٹریلیا کو بڑا دھچکا، ایک ہی دن میں تین بڑے کھلاڑی چیمپئنز ٹرافی سے باہر
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: وفاقی ملازمین کے مطابق
پڑھیں:
امن خراب کر کے پہاڑوں پر قابض ہونے کا جواز ڈھونڈنے کی سازش ہو رہی ہے، کاظم میثم
اپوزیشن لیڈر جی بی اسمبلی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ حکومتی صفوں سے تمام مذہبی اکابرین کی اہانت ناقابل برداشت ہے۔ حکومتی اتحادی جماعتیں خاموش تماشائی بننے کی بجائے اپنی پوزیشن واضح کریں۔ خاموش رہنے کا مطلب اتحادی جماعتیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی جانب سے ہی بیان تصور ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ معدنی وسائل پر قبضہ کے لیے گلگت بلتستان کے عوام کو تقسیم کیا جائے گا، فرقہ واریت اور تعصبات کو ہوا دی جائے گی اسکے بعد خطے کا امن خراب کر کے پہاڑوں پر قابض ہونے کا جواز ڈھونڈیں گے۔ گلگت بلتستان کے عوام اب باشعور ہو چکے ہیں اور کسی بھی مراعات یافتہ غیر سیاسی شخص کے بیانیے کو قبول نہیں کریں گے۔ حکومتی صفوں سے تمام مذہبی اکابرین کی اہانت ناقابل برداشت ہے۔ حکومتی اتحادی جماعتیں خاموش تماشائی بننے کی بجائے اپنی پوزیشن واضح کریں۔ خاموش رہنے کا مطلب اتحادی جماعتیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی جانب سے ہی بیان تصور ہو گا۔ غیر سیاسی سلیکٹیڈ مراعات یافتہ افراد کے بیان پر وزیراعلیٰ کی طرف سے وضاحت آنی چاہیے۔ ان تمام تر مس ڈیلیورنس کا ذمہ دار اس حکومت کو بنانے والے لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی کارکنوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر غیر سیاسی افراد کو نواز کر جی بی کی سیاسی تاریخ میں ایک ناجائز روایت ڈالی۔
کاظم میثم کا مزید کہنا تھا کہ ملت تشیع کے نامور عالم دین آغا راحت حسینی پر توہین آمیز گفتگو ثابت کرتا ہے کہ خطے کو نئے بحران کی طرف دھکیلنے کا سکرپٹ تیار ہو چکا ہے۔ اس کی آڑ میں فرقہ واریت اور علاقائیت کو ہوا دینے کی حکومتی کوشش کے علاوہ کیا سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر کسی مذہبی رہنما یا کسی خفیہ ادارے کو وسائل کی غیرمنصافہ تقسیم کے ثبوت چاہیے تو ہم سے لے لیں، اگر ثبوت نہ فراہم کر سکے تو ہم سیاست چھوڑیں گے۔ رہی بات ہمارے قدرتی وسائل کو لوٹنے کی کوششوں کی تو کوئی ذہن سے نکال لیں کہ خوف جبر اور سازشوں کے ذریعے یہاں کے وسائل کو لوٹ سکو گے۔ تمام مکاتب فکر کے اکابرین کی اہانت وہ بھی حکومتی صفوں اور سیاسی طبقے کی طرف سے افسوسناک ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ دیامر بھی ہمارا ہے اور گلگت و بلتستان بھی۔ اتحاد و وحدت، مذہبی و علاقائی ہم آہنگی کچھ عناصر سے ہضم نہیں ہو رہا۔حکمران اور حکومتی مشنری کوئی مقدس ہستی نہیں جس پر تنقید نہ ہو۔ ہم ریاستی اداروں کو بتلانا چاہتے ہیں کہ ریاست کے وسائل کو غیر سیاسی کو سیاسی بنانے کے لیے خرچ نہ کریں۔