Nai Baat:
2025-04-22@06:20:17 GMT

ٹیکس کا ظالمانہ نظام

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

ٹیکس کا ظالمانہ نظام

ہمارا شمار ان بدقسمت شہریوں میں ہوتا ہے جو ہر چیز پر اپنی کمائی سے ٹیکس دے رہا ہے،لیکن پریشانی یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ اب بھی سرکار سے خوش نہیں ہے، اسکی تان ہمیشہ ’’ڈو مور‘‘ پر آکرٹوٹتی ہے، ماہرین معیشت نے فائلر اور نان فائلر کی اصطلا حات کا ایسا استعمال بتا یا کہ سوشل میڈیا پر ایک مذاق بن کر رہ گیا،کہنے والے کہتے کہ اگر ٹیکس وصولی کی یہی رفتار رہی تو عین ممکن ہے کہ شادی کرنے کی اجازت صرف فائلر ہی کا مقدر ٹھرے۔
سرکار نے ٹیکس نیٹ روک کو وسعت دینے کے لیے اب زرعی ٹیکس کی بھی منظوری دی ہے، کیونکہ جاگیر دار ہی وہ طبقہ ہے جسکی عیاشیاں سب پر عیاں ہیں، انکی غالب تعداد سرکار میں رہتے ہوئے بہت ہی سہولیات سے مستفید ہوتی رہتی ہے،ایک طرف سرکار کو غم کھائے جاتا ہے کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے دوسری طرف جب بھی سالانہ میزانیہ پیش کیا جاتا ہے تو انداز تفاخر سے کہا جاتا کہ یہ ٹیکس فری بجٹ ہے۔

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ امیر ترین پانچ فیصد طبقہ ٹیکس دینے سے گریزاں ہے، صرف 12فیصد نے دس ارب سے زائد کی دولت ظاہر کی ہے، اصل مزہ تو ان کا ہے جو ٹیکس نیٹ ورک سے باہر ہیں،تاجروں نے بھی سرکار کی کمزوری بھانپ لی ہے ،جب بھی ان سے ٹیکس کی وصولی کا ارادہ کیا جاتا ہے تو یہ ’’ بڑے گھر‘‘ سے رجوع کرلیتے ہیں، سرکار نے آسان حل نکال لیا ہے، وہ ضروریات زندگی پر سیلز ٹیکس عائد کر کے اپنی آمدنی بڑھا لیتی ہے، مہنگائی کے بوجھ تلے دبے شہری کا سانس لینا محال ہو رہا ہے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے برملا اعتراف کیا ، کہ کسی سرکار کے پاس ملک بھر کی دوکانوں کا ڈیٹا ہی سرے سے موجود نہیں ہے، ہر عہد کی سرکارحتیٰ کہ باوردی صدر بھی ایسا رسک لینے سے گریزاں رہے، سب کو لاء اینڈ آڈر کا خدشہ نظر آنے لگتا ہے، یہ طبقہ نیٹ ورک سے ہی باہر ہے، اس کا ناجائز فائدہ دیگر شعبہ جات اٹھاتے ہیں جو انھیں بلیک میل کرتے ہوئے پیسے اینٹھ لیتے ہیں شنید ہے کہ بعض اہلکاروں نے اس دھندہ کے لیے ’’جعلی رسیدیں ‘‘ بنا رکھی ہیں۔

بہت سی کمپنیاں ایسی ہیں جو ملازمین کو آج بھی نقد تنخواہ دیتی ہیں، نہ ملازم ٹیکس دیتا ہے نہ ہی کمپنی ادا کرتی ہے، اس کے مقابلہ میں سرکاری ملازمین ٹیکس وصولی میں ’’گھڑے کی مچھلی‘‘ ہوتے ہیں جن کی تنخواہ سے پہلے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے،اس سرکاری ’’ خدمت ‘‘ کے بدلے کوئی غیر معمولی سہولت انھیں نہیں ملتی۔ دستاویزی معیشت کی عدم موجودگی کا سب سے زیادہ فائدہ منڈی میں کاروبار کرتا وہ آڑھتی اٹھا رہا ہے جن کے کاروبار کی تفصیل سے ایف بی آر قطعی لا علم ہے جس کے افسران ٹیکس وصولی کے لئے بڑی تعداد میں نئی او ر لگژری گاڑیاں خریدنے کے آرزو مند ہیں۔
اس سے قبل سرکار نے نان فائلرز کی بجلی منقطع اور سم بند کرنے کی دھمکی لگا کر بھی دیکھ لیا، اس کے باوجود ٹیکس کی وصولی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ سول، ملٹری بیوروکریسی اور سرکارپر مشتمل نیا قومی ادارہ سرمایہ کاری کی سہولت کے بنایا گیا تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو اور زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری ملک میں آئے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار بھی ٹیکس کے مربوط نظام پر ہے، جس میں شفافیت بنیادی عنصر ہے۔

اسلامی نظام معیشت کے آزمودہ طرز عمل زکوٰۃ اور عشر کے نفاذ سے نجانے حکومت کیوں گریزاں ہے،اگرچہ کچھ تاجر، کسان اسکی ادائیگی انفرادی طور پر تو کرتے ہیں مگر اجتماعی طور ایسا نظام وضع نہیں ہے،اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اسکی وصولی کی ذمہ داری صوبہ جات پر عائد کی گئی ہے،اس مقصد کے لئے زکوٰۃ اور عشرکونسل بھی بنا دی ہے مگر وہ پوری طرح فعال نہیں ہیں، بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی کی شفافیت پر آڈیٹر جنرل اور عدالت عظمیٰ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے،فی الوقت جو طریقہ کار رائج العمل ہے ،اس میں ایک طبقہ اس بنا پر از خود باہر ہے کہ اپنے ہاتھ زکوٰۃ اور عشر ادا کرے گا۔

اسلامی تاریخ میں زکوٰۃ اور عشر کا ایک منظم اور قابل عمل نظام ملتا ہے جس سے ریاست کے مالی معاملات چلائے جاتے ، سرکار کے اہلکار وصولی کر کے بیت المال میں جمع کراتے ، علماء کرام نے زکوٰۃ کی آٹھ مدات اور مصارف کا تذکرہ کیا ہے، سرکار زکوٰۃ اور عشر کی کونسل کو یونین سطح پر منظم اور فعال کرے، تو اسکی وساطت سے بازار کے عام دوکان دار سے بھی وصولی ممکن ہے جس کا لینا سرکار کے لئے درد سر اس لئے بنا ہے کہ دوکان داروں کا ڈیٹا نہیں ہے، امکان غالب ہے کہ دوکان دار مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے ٹیکس کی بجائے زکوٰۃ دینے کو اپنی عاقبت کے لئے لازم خیال کریں گے۔

حال ہی میں زرعی آمدن کے اعتبار سے انکم ٹیکس کے نفاذ کی منظوری ہو چکی ہے، سرکار ملک بھر میں دکانوں کی تعداد کا اگرشمار نہیں کر سکی ہے توزرعی انکم ٹیکس کا حصول ایک بڑا ہدف کیسے ممکن ہے، زیادہ بہتر ہے کہ سرکار عشر کونسل کی وساطت سے وصولی عشر کا ملک بھر نفاذ کرے ،جس کا اطلاق ایک ایکڑ پر بھی ہو گا، مذہبی فریضہ کی بابت کسانوں کو اس وصولی پر آمادہ کرنا بہت آسان ہے۔
ٹیکس کے امتیازی سلوک اور غیر شفافیت کی بدولت محصولیات کی وصولی میں جن مشکلات کا سرکار کو سامنا ہے، اس خلا کو زکوٰۃ، عشر، جذیہ اور دیگر اسلامی مدات سے پورا کیا جاسکتاہے، مختلف محکمہ جات کی زمین، معدنیات بھی لیز پر دے کر سرکار اپنی آمدن میں اضافہ کر سکتی ہے، جن سے عشر کی وصولی ہر صورت ممکن ہے۔ اشرافیہ اگر اپنی مراعات میںکمی پر راضی نہ ہو اس کی تکمیل کے لئے عوام کو ٹیکس کی ادائیگی پرمجبور کرے،تو پھر غربت کا خاتمہ ممکن ہے نہ خوشحالی میسر ہو گی۔

نبی مہربانؐ کی ریاست مدینہ کا ماڈل ہی ہمارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے،طاقت کے زور پر ٹیکس وصولی کے نتائج کبھی مثبت برآمد نہیں ہوں گے،غربت کے خاتمہ کے لئے اسلامی نظام معیشت کو ہی اپنانا ہو گا،اب تو مغربی دنیا بھی سود میں خاطر خواہ کمی لا رہی ہے،کیا یہ بد قسمتی نہیں کہ ایف بی آر زکوٰۃ اور عشر کے نظام کے نفاذ کی بجائے ٹیکس کا ایسا ظالمانہ پروگرام لانے کا خواہاں ہے جس کا فائدہ عوام کے بجائے عالمی مالیاتی فنڈ کو پہنچے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: زکو ۃ اور عشر ٹیکس وصولی کی وصولی ٹیکس کا ممکن ہے ٹیکس کی نہیں ہے جاتا ہے کے لئے

پڑھیں:

نظام کی بہتری کے لیے 26 ویں ترمیم کی گئی، ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے، وزیر قانون

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ  نے کہا ہے کہ 26 ویں ترمیم اسٹرکچرل ریفارم ہے جو نظام کی بہتری کے لیے کی گئی،علم غیب کسی کے پاس نہیں ہے، ضرورت کے تحت کل کو اگر کوئی چیز کرنا پڑی تو تمام اتحادی جماعتیں و پارلیمنٹ بیٹھ کر سوچیں گی۔

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب بار کونسل میں دو روزہ بین الاقوامی مصالحت و ثالثی ٹریننگ کا آغاز ہوگیا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ندرہ سال پہلے محمد احمد نعیم صاحب سے گذارش کی تھی کہ سیکھنے کے عمل میں ہمارا ساتھ دیں۔

 اسلامی یونیورسٹی کی طالبہ کو ہاسٹل میں اس کی تین رومیٹس کی موجودگی میں گولی مار قتل کر دیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ لاہور کا شکریہ کہ جو رسپانس ہے وہ خوش آئیند ہے، اے ڈے آر کی مصالحت کی بات ہو، کہا جائے کہ یہ جوڈیشل سسٹم کا حصہ نہیں یہ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایڈووکیسی کی ایک نئی شکل ہے، حکومت پاکستان نے وقت کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے آئی میک کا سنگ بنیاد رکھا، میرے پاس بہت وائبرینٹ ٹیم ہے، بنیادی پلیٹ فارم فراہم کرنا ہمارا کام ہے باقی آپکا کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے آپ کو عالمی کمیونیٹی میں رہنے کے لیے اور اپنا رول پلے کرنے کے لیے بل تیار کر لیا ہے، صوبائی اسمبلیوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اس قراردادیں پیش کیں، تین لاکھ مقدمات ہائیکورٹس میں پینڈنگ ہیں، سپریم کورٹ میں بھی ایسے کیس ہزار ہا ہیں۔

کوئٹہ: ٹرین ڈیوٹی سے غیر حاضری پر 15 لیویز اہلکار معطل

وزیر قانون نے کہا کہ جو مقدمات سپریم کورٹ میں نہیں آنے چاہیئیں ان کے لیئے الگ سے بینچ اور ٹائم مختص کر دیا گیا ہے، جو نئے قانون میں شقیں ہیں اس میں آپکو زیادہ روم ملے گا، وکلا کا  رول کم ہونے کے بجائے بڑھا ہے، مستقبل کی وکالت کا آپکو حصہ ہونا ہے۔

اعظم نذیر نے کہا کہ نئی چیزوں کو نئے آئیڈیا کو لے کر چلیں گے تو بلندیوں تک جائیں گے،علم کا قانون کا یہ ایک اور آسمان ہے جس پر ہمیں پرواز کرنا ہے، امید کرتا ہوں کہ اگلے دو روز پوری دلچسپی کے ساتھ ہماری ٹیم کے ساتھ کام کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کاوشیں پاکستان کی عوام کے لیئے ہیں، ہمیں سب سے زیادہ لٹیگنٹ کی آسانی کرنی ہے۔

شوہر نے بیٹیوں کے سامنے بیوی کا سر تن سے جدا کیا اور پھر اسے لے کر تھانے پہنچ گیا

بعد ازاں اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہے کہ کراچی کی طرح لاہور میں بھی ایک ہی جگہ عدالتیں ہوں، اس کا سب سے زیادہ فائدہ بار اور پھر سائلین کو ہے، جوڈیشل افسران کے لیئے بھی اس میں سہولت ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے یہ پلان حکومت پنجاب کو بھیجا ہے، وزیر اعلی پنجاب مریم نواز اس کے لیئے بالکل تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چھبسویں ترمیم ایک اسٹرکچرل ریفارم ہے جو کہ نظام کی بہتری کے لیئے کی گئی ہے، میرا نہیں خیال کہ چھبسویں ترمیم کے بعد کسی ترمیم کی ضرورت ہے۔

آئی پی ایل میں نئی تاریخ رقم ، ویرات کوہلی نے ڈیوڈ وارنر کا ریکارڈ توڑ دیا

وزیر قانون نے کہا کہ علم غیب کسی کے پاس نہیں، ضرورت کے تحت کل کو اگر کوئی چیز کرنا پڑی تو تمام اتحادی جماعتیں و پارلیمنٹ بیٹھ کر سوچیں گی۔

اعظم نذیر کا کہنا تھا کہ بار کونسلز کے انتخابات کو صاف شفاف رکھنے کے لیئے ووٹرز کی ڈیجیٹلائزیشن کریں گے، سٹیمرز، بینرز، کھانوں اور زائد خرچہ پر پہلے بھی پابندی ہے لیکن اب یہ قانون کا حصہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ  آپ اگر فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوں گے، آپ اگر سرکاری پراپرٹی اور پولیس وینز جلائیں گے تو آپ کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائے جائیں گے۔

جنید جمشید کے آخری سفر پر جانے سے قبل کیا جذبات تھے؟ اہلیہ نے بتا دیا

ان کا کہنا تھا کہ  وفاقی حکومت جو پیسے ہائیکورٹ بارز کو دیتی ہے وہ پیسے ہم نے پچھلے اور اس سے پچھلے سال لاہور ہائیکورٹ بار کو دیے تھے، اگر خیبر پختون خواہ حکومت اپنے صوبے پر خرچ کرے اور وہاں کے عدالتی نظام کو بہتر کرے تو زیادہ خوشی ہو گی۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • تنخواہ دار اب ٹیکس سے نہیں بچ سکے گا، پنجاب حکومت نے شکنجہ تیار کرلیا
  • وقف ترمیمی بل پر بھارت بھر میں غم و غصہ
  • وقف ترمیمی بل پر بھارت بھر میں غم و غصہ، حیدرآباد میں بتی گُل احتجاج کا اعلان
  • نظام کی بہتری کے لیے 26 ویں ترمیم کی گئی، ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے، وزیر قانون
  • شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • غیرملکی فوڈ چین ٹیکس چوری نہیں کرتیں، طلال چوہدری