Jasarat News:
2025-04-22@09:49:37 GMT

مکارم اخلاق کی بنیادیں

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت عطیہ السعدی نے کی ہے، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اہل تقویٰ کا مقام نہیں پاسکتا تا وقتیکہ وہ ان چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دے جن میں (بظاہر) کوئی حرج نہیں ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ ان چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے جن میں حرج (گناہ) ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
مراد یہ ہے کہ بعض اوقات جائز امور بھی حرام کاموں کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ایک مومن کے سامنے صرف جواز کا ہی پہلو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اس لحاظ سے بھی چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں یہ جائز کام حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔
2۔متقیانہ زندگی کا اصول: ابن ماجہ اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت سیدہ عائشہؓ نے کی ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اے عائشہؓ! حقیر گناہوں سے بچتی رہنا، اس لیے کہ ان کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی‘‘۔ (ابن ماجہ)
صغیرہ گناہ بظاہر ہلکا نظر آتا ہے لیکن اسے بار بار کیا جائے تو دل زنگ آلود ہوجاتا ہے اور کبائر سے نفرت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح صغیرہ گناہ کم خطرناک نہیں ہے۔ متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے صغیرہ گناہ سے بھی بچنا چاہیے۔
حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس خدا کی بڑائی کو سامنے رکھو جس کی نافرمانی کی جسارت کی جا رہی ہے‘‘۔ اگر خداے بزرگ و برتر اور مالک یوم الدین کی عظمت اور اس کے عذاب کی ہولناکیاں پیش نظر ہوں، یعنی چشمِ تصور میں رہیں تو پھر انسان کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر بھی دلیر نہیں ہوسکتا۔
3۔وسائل و ذرائع کی پاکیزگی: مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’کوئی شخص بھی خدا کے مقرر کردہ رزق کو حاصل کیے بغیر موت کا لقمہ نہ بنے گا۔ سنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور رزق کے حصول میں جائز ذرائع و وسائل کام میںلائو۔ رزق کے حصول میں تاخیر تمھیں ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)

اس روایت میں دو اہم دینی حقائق بیان کیے گئے ہیں:
اگر کسی بھی انسان کو رزق کے حصول میں ناکامی یا تاخیر محسوس ہو تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے رزق کی جو مقدار اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہے وہ بہرحال دیریا سویر اسے مل کر رہے گی۔
یوں تو انسان بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی بظاہر دْنیاوی خوش حالی اور آسایش پا لیتا ہے، لیکن یہ دراصل خدا کی طرف سے مہلت ہوتی ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تازیانہ برستا ہے۔ حقیقی خوش حالی اور راحت و سکون تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہوئے حاصل ہو۔
مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص حرام مال کمائے، پھر اس میں سے صدقہ دے تو وہ قبول کرلیا جائے اور پھر وہ اپنے مال میں برکت سے بھی نوازا جائے۔ اس کا متروکہ حرام مال صرف جہنم کا توشہ بن سکتا ہے (اس سے آخرت کی سعادت و کامرانی حاصل نہیں کی جاسکتی)۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے۔ (یہ ایک حقیقت ہے کہ) نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘۔ (مسند احمد)
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض مقصد کا پاک ہونا ہی کافی نہیںہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔

4۔علامت تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت حسن بن علیؓ نے کی ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کی زبان مبارک سے یہ کلمات یاد کرلیے ہیں: ’’جو چیز شک میں مبتلا کرنے والی ہو، اسے چھوڑ کر اس کام کو پسند کرلو جو شک و شبہہ سے با لاتر ہو۔ اس لیے کہ سچائی سراپا سکون و اطمینان ہے اور جھوٹ سراپا شک و تذبذب‘‘۔ (ترمذی)

5۔توکّل: ترمذی کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے، کہ ایک آدمی نے نبی کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹ کو باندھ کر توکل اختیار کروں یا اسے چھوڑ کر؟‘‘ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ لے اور پھر خدا پر توکّل کر‘‘۔ (ترمذی)
ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث جس کی روایت سیدنا عمرؓ نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے سنا:
اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو، جس طرح کہ توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ صبح سویرے خالی پیٹ (آشیانوں سے) نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر پلٹتے ہیں۔ (ابن ماجہ)

پرندوں کے ساتھ تشبیہہ د ے کر رسول اللہؐ نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پیر توڑکر گھر میں بیٹھا رہے، بلکہ توکل یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے اسباب و وسائل کو کام میں لا کر نتائج خدا کے حوالے کردے۔
6۔شکر: مسند احمد کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابو ہریرہؓ نے کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’شکر گزار بے روزہ انسان صبر کرنے والے روزے دار کی طرح ہے‘‘۔ (مسنداحمد)
یعنی جو صبر کے ساتھ نفلی روزے رکھتا ہے اور جو شکر کے ساتھ خدا کی دی ہوئی حلال روزی کھا کر دن گزارتا ہے، دونوں خدا کے ہاں درجہ میں برابر ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینے کے بعد بھی شکر اداکرتے تھے۔

ایک حدیث جس کی روایت حضرت ابوہریرہؓ نے کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو تم میں سے (مال، جسم اور وجاہت کے اعتبار سے) بالا تر ہیں، ان کو نہ دیکھو، اور جو تم سے (اس لحاظ سے) فروتر ہیں، ان کو دیکھو۔ اس طرح یہ صلاحیت پیدا ہوسکے گی کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے‘‘۔ (صحیح ابن حبان) ایک اورروایت ہے: ’’جب تم میں سے کسی کی نگاہ ایسے شخص کی طرف اٹھے جو مال اور جسمانی طاقت میں اس پر فضیلت دیا گیا ہے تو چاہیے کہ اسے دیکھے جو (اس لحاظ سے) فروتر ہے‘‘۔ (مسلم)
شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور دل و دماغ کی صلاحیتوں کو اللہ کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کیا جائے۔
7۔صبر: مسلم کی ایک حدیث جس کی روایت حضرت صہیبؓ نے کی ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا کام خیر ہی خیر ہے۔ یہ (سعادت) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اسے دْکھ پہنچتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اْسے خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ سراپا شکر بن جاتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ گویا وہ ہر حال میں خیر ہی سمیٹتا ہے‘‘۔ (مسلم)

بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں جس کی روایت حضرت انسؓ نے کی ہے کہ رسول اللہؐ کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رورہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور صبر سے کام لے‘‘۔ اس عورت نے نبی کریمؐ کو نہ پہچانتے ہوئے کہا: اپنی راہ لو، میری جیسی مصیبت تم پر تو نہیں پڑی ہے۔ کسی نے اس سے کہا کہ یہ تو رسول اللہؐ تھے جو تمھیں صبر کی تلقین فرمارہے تھے، تو وہ دوڑی ہوئی آئی اور حضورؐ سے عرض کیا: حضور میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اس پر نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بس صبر وہی ہے جو سینے پر پہلی چوٹ لگتے وقت کیاجائے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے کہ: ’’اگر کوئی اللہ سے صبر کی توفیق مانگے تو اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے‘‘۔ (بخاری)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مشکو ۃ کی ایک حدیث میں اور مشکو ۃ کی ایک نے کی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا اختیار کر یہ ہے کہ ایک اور کے ساتھ نہیں ہے کے لیے خدا کے ہے اور اس لیے

پڑھیں:

کار مسلسل

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی( ایف آئی اے) پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف انکوائری کررہا ہے۔ انھیں عید الفطر کی تعطیلات سے قبل طلب کیا گیا تھا اور 11اپریل کو دفتری اوقات کے بعد ایک سوالنامہ ارسال کیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ کسی نامعلوم شخص کی درخواست پر اس انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔

یہ سوالنامہ 12نکات پر مشتمل ہے،انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ 17اپریل تک سوالنامہ کے جوابات جمع کرائیں۔ اس سوالنامے میں ان کے سینیٹر کی حیثیت سے اور بعد میں ہونے والی آمدنی کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے طریقہ کار سے واقف صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اب ایک چارج شیٹ تیار کریں گے، پھر مزید کارروائی کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔

 فرحت اللہ بابر بنیادی طور پر انجنیئر ہیں۔ وہ 70ء کی دہائی میں سابقہ صوبہ سرحد حکومت کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیراعظم صوبہ سرحد کے دورے پر پشاور آئے تو بھٹو صاحب نے صوبائی کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔

احتیاط یہ کی گئی تھی کہ یہ خبر قبل از وقت افشا نہیں ہونی چاہیے اور شام کو پی ٹی وی کی خبروں میں یہ خبر شامل ہونی چاہیے۔ محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ افسروں نے جونیئر افسر فرحت اللہ بابر کو گورنر ہاؤس بھیجا اور ہدایت کی کہ جلد سے جلد خبر کا ہینڈ آؤٹ تیار کر لیں۔ بابر صاحب نے یہ ہینڈ آؤٹ تیار کیا، یوں بھٹو صاحب ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے۔

 جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ سرکاری نوکری کو خدا حافظ کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں کئی سال گزارے۔ وہ جونیجو دور میں واپس پاکستان آگئے اور پشاور سے شائع ہونے والے معروف انگریزی کے مینیجنگ ایڈیٹر بن گئے۔

اس اخبار کے ایڈیٹر معروف صحافی عزیز صدیقی تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے آخری ایام تھے ۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر عزیز صدیقی اور فرحت اﷲ بابر کو اس اخبار سے رخصت ہونا پڑا۔ فرحت اﷲ بابر پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں میں شامل ہوگئے، وہ بے نظیر بھٹو حکومت کی پالیسی اور پلاننگ کمیٹی کے رکن رہے۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے، تو انھوں نے انھیں اپنا پریس سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کئی دفعہ خیبر پختون خوا سے سینیٹ کے رکن رہے۔ انھوں نے خواتین، ٹرانس جینڈر اور مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

انھوں نے اطلاعات کے حصول کے قانون کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ وہ ایچ آر سی پیP کے بانی ارکان میں شامل ہیں اور کمیشن کے بنیادی ادارے کے منتخب رکن بھی ہیں۔ وہ اس ادارے کو فعال کرنے میں ہمیشہ متحرک رہے اور انھوں نے اپنے اس مقصد کے لیے کبھی کسی بڑی رکاوٹ کو اہمیت نہیں دی۔

فرحت اللہ بابر لاپتہ افراد کے حوالے سے آئین کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے چارٹر اور سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشنز جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں کے تحت اس مسئلے کے لیے کبھی سینیٹ میں آواز اٹھاتے ہیں تو کبھی عدالتوں کی سیڑھیوں پر اور کبھی نیشنل پریس کلب کے سامنے بینر اٹھائے نظر آتے ہیں۔

گزشتہ دفعہ پیپلز پارٹی نے فرحت اللہ بابر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا تو بابر صاحب کے پاس انتخابی فارم کے ساتھ زرِ ضمانت جمع کرانے کے لیے رقم موجود نہیں تھی۔ ان کے چند دوستوں نے چندہ جمع کر کے زرِ ضمانت کی رقم جمع کرائی تھی۔

فرحت اللہ بابر نے ہمیشہ پیپلز پارٹی میں رہ کر مظلوم طبقات کے لیے آواز اٹھائی مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کی خاموشی سے بہت سے پوشیدہ حقائق آشکار ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ۔ فرحت اللہ بابر پاکستان کی سول سوسائٹی کا استعارہ ہیں۔ رئیس فروغ کا یہ شعر بابر صاحب کی شخصیت پر پورا اترتا ہے:

عشق وہ کارِ مسلسل کہ ہم اپنے لیے

کوئی لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے

متعلقہ مضامین

  • ’طعنہ دینے ہمارے ووٹوں سے ہی صد بنے‘بلاول بھٹو کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا اللہ کا ردعمل
  • ن لیگ اور پی پی کا پانی کے مسئلے پر مشاورتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق
  • وزیر اعظم کل ترکیہ دورے پر روانہ ہوں گے
  • حیا
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • یہودیوں کا انجام
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • کار مسلسل
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے: رانا ثنا اللہ
  • ‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا؛ رانا ثناء اللہ