UrduPoint:
2025-04-22@01:29:43 GMT

لٹریچر فیسٹیول کے سماجی اثرات کیوں نہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

لٹریچر فیسٹیول کے سماجی اثرات کیوں نہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) یہ حتمی طور پر کہنا تو ذرا مشکل ہے کہ پاکستان میں ادبی میلوں کا یہ چلن باقاعدہ کس سال شروع ہوا، لیکن یہ ضرور ہے کہ گذشتہ 15، 16 سالوں سے مختلف شہروں میں باقاعدہ ایسے پروگراموں کا انعقاد بڑھتا چلا جا رہا ہے، جسے 'ادبی میلے‘ قرار دیا جاتا ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ ایسے پروگرام بڑھتے اور وسیع ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اس میں کراچی آرٹس کونسل کی سن 2008 میں شروع ہونے والی ''عالمی اردو کانفرنس‘‘ اور سن 2010 میں اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ''کراچی لٹریچر فیسٹیول‘‘نے کافی کلیدی کردار ادا کیا اور پھر یہ کانفرنسیں اور لٹریچر فیسٹیول، لاہور، اسلام آباد، ملتان اور فیصل آباد تک باقاعدگی سے ہر سال ہونے لگے ہیں۔

(جاری ہے)

یہی نہیں گذشتہ سال کوئٹہ میں 'پاکستان لٹریچر فیسٹیول‘ بھی ہوا اور ایسے ہی اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی سابقہ روح و رواں امینہ سید نے بھی کچھ برسوں سے اپنے الگ سے ''ادب فیسٹیول‘‘ شروع کرا دیے ہیں۔

بہ ظاہر تو ادب، اردو اور کتابوں کی باتیں کتنی دل نشیں لگتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ادب دوستی بڑھ رہی ہے۔ عوام ان میلوں میں جوق در جوق امڈ آتے ہیں، ملکی اور غیر ملکی مہمانوں اور ادیبوں کی گفتگو سنتے ہیں، لیکن اس خوب صورت تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کئی برسوں سے جاری یہ بڑی بڑی ادبی سرگرمیاں کیا ہمارے معاشرے پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں؟

زیادہ نہیں بس تھوڑا ہی سا، کیا ہمارے ہاں کتابیں پڑھنے یا کچھ بھی پڑھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟ ان ادبی میلوں سے زبان و ادب کے تئیں کوئی علمی و ادبی اثرات دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا ان سالانہ ادبی محفلوں میں عام میڈیا اور سوشل میڈیا میں رکاوٹوں کا شکار بن جانے والے مختلف مقامی اور بین الاقوامی موضوعات کو جگہ مل پاتی ہے؟

سچائی سے جواب دیجیے تو ان سب سوالات کے جواب نفی میں ملتے ہیں، جیسے ہمارے سماج میں ڈگری یافتہ لوگ بڑھ رہے ہیں اور اخلاق باختہ یا بدتمیز لوگوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، بالکل ایسے ہی سالانہ ادبی میلوں اور پروگراموں کے باوجود ہمارے سماج میں برداشت اور تحمل دور سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

کتابوں کی اشاعت بدستور گھٹ رہی ہے۔ رہ گئے ہمارے معاشرے کے اصل موضوعات اور سنگین ہوتے ہوئے مسائل، تو جو اسٹیک ہولڈر ہمارے میڈیا اور عالمی میڈیا کو قابو کرتے ہیں، ان کے مندرجات اور ترجیحات طے کرتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح ان لٹریچر فیسٹیولز میں بھی وہی لوگ کارفرما ہیں، تو پھر کسی نئی چیز کی توقع کیوں کر ہو سکتی ہے!

پھر اس ادبی میلے سے 'ادب‘ خارج کر کے صرف 'میلے‘ کے عنصر پر زیادہ توجہ رہتی ہے، اسے مارکیٹنگ اور اشتہار بازی کا ایک موقع اور تفریح برائے تفریح بنا دیا گیا ہے۔

ادب کے نام پر مختلف ادبی جتھے اور گروہ ایک دوسرے کی مداح سرائی کرتے ہیں۔ ہر شہر میں وہی چہرے بار بار دکھائی دیتے ہیں، پچھلے برسوں کے موضوعات کی جگالی ہوتی ہے، ہلکی پھلکی متنازع بات کرتے عوام کی توجہ کھینچی جاتی ہے، یا پھر ان پروگراموں کے اسپانسرز سماج کے اندر کوئی تبدیلی یا کسی سماجی قدر کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں، تو ان کے لیے یہ ایک باقاعدہ پلیٹ فارم محسوس ہوتے ہیں۔

یعنی وہی کام جو ملٹی نیشنل کمپنیاں این جی اوز کے ذریعے کر رہی ہیں، وہی کام ان کانفرنسوں کے ذریعے بہت سہولت سے ٹارگٹ آڈیئنس تک پہنچ جاتا ہے۔

ان فیسٹیولز کا 'ہاﺅس فل‘ ہو جائے تو بس پھر سمجھیے منتظمین کی اصل کامیابی یہی سمجھی جاتی ہے۔ اب یہاں حقیقت میں ادب کے سنجیدہ لوگ کتنے آئے؟ کتنی جامع اور سیر حاصل گفتگو ہو سکی؟ ان سب سے قطع نظر صرف مجمع اکھٹا ہونا ہی ہدف ٹھیرا ہے۔

اس کے لیے مختلف نجی جامعات سے نوجوان لڑکے لڑکیاں بلا لی جاتی ہیں، جن میں سے بہت کم کی ہی کچھ ادبی تربیت ہوئی ہوتی ہے، وہ صرف کیمپس کی مجبوری میں یہاں آتے ہیں اور سیلفیاں لیتے اور چائے، کافی کے اسٹال پر ہلہ گلہ زیادہ کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسے میں تو ہم یہ توقع بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی ان اردو کانفرنسوں اورادبی میلوں پر تعمیری تنقید کا اظہار کر سکے گا، اس کی وجہ وہی 'تعلقات‘ اور 'لابیاں‘ ہیں، جو ہر جگہ موجود ہیں۔

ساتھ ہی تنقید کی جسارت کرنے والوں کا بھی تو سوشل بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے، اس لیے یہ ذمہ بھی اب کوئی اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتا، سچ پوچھیے تو ضروری ہے کہ تین، تین دن کے فیسٹیول اور کانفرنس کے بجائے اسے ایک دن کر لیا جائے، لیکن پروقار طریقے سے اور زبان و ادب اور سماج کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ساتھ ہی عام میڈیا اور موضوعات کے بجائے تخلیقی انداز میں سماج کے مسائل پر اظہار خیال کیا جائے، تاکہ ایسے پروگراموں کے اثرات ہمارے معاشرے کے اندر تک پہنچیں اور ہمیں مثبت تبدیلی کی کوئی رمق دکھائی دے سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ادبی میلوں رہا ہے

پڑھیں:

کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے

اس بلاگ کی تحریک سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک تحریر اور ویڈیو بنی ہے۔ پہلے ہم تحریر پر بات کرلیتے ہیں۔ تحریر کچھ یوں تھی کہ ایک پاکستانی صاحب رمضان المبارک کے مہینے میں کسی غیر مسلم ملک کے دورے پر گئے۔ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو ان کے میزبان نے کہا کہ چلیے لنچ پر چلتے ہیں۔ ان پاکستانی صاحب نے کہا کہ وہ لنچ نہیں کرسکتے۔ میزبان کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ وہ روزے سے ہیں۔

میزبان نے پوچھا کہ یہ روزہ کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے روزے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ہم اللہ کے حکم سے سورج طلوع ہونے سے پہلے کھانا بند کر دیتے ہیں اور پھر سورج غروب ہونے پر اللہ کے نام سے افطار یا کھانا کھاتے ہیں۔

میزبان نے کہا کہ میں کھانا یہاں منگوا لیتا ہوں یہاں تمہیں کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا۔ اس پر بھی ان صاحب نے کہا کہ یہاں مجھے کھاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھے گا مگر اللہ تو ہر جگہ ہے اور چونکہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اس لیے میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ اس پر میزبان نے پوچھا کہ کیا تمھارے ملک کے تمام لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں؟ اس پر ان صاحب نے سینہ پھلا کر فخریہ انداز میں بتایا کہ ان کے ملک کا کیا بچہ کیا بڑا سب ہی ایسا سوچتے ہیں۔ 
میزبان نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا کہ پھر تو تمھارے ملک میں کوئی جرم نہیں ہوتا ہوگا کیونکہ اللہ تو ہر جگہ ہے اور وہ یقیناً دیکھتا ہوگا؟ وہ صاحب دورہ مکمل کرکے پاکستان واپس آگئے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنے میزبان کی اس بات کا جواب نہیں دے پائے۔

دوسری تحریک جو ایک ویڈیو بنی وہ کچھ یوں تھی کہ ایک صاحب خریداری کےلیے دکان پر جاتے ہیں لیکن دکان پر دکاندار نہیں ہوتا۔ وہ کچھ چیزیں چرا کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کہ یکایک ان کی نظر اوپر کیمرے پر پڑتی ہے جو دکاندار نے نصب کروایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ فوراً تمام چیزیں واپس اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ اتنے میں دکاندار واپس آجاتا ہے اور وہ اس کی سمجھداری کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے دکان سے چیزوں کی چوری سے بچاؤ کےلیے کیمرہ نصب کروا لیا ہے۔

دکاندار انھیں بتاتا ہے کہ کیمرہ تو لگوا لیا ہے پر ابھی وہ کارآمد نہیں کیونکہ ابھی تک اسے وقت نہیں ملا کہ وہ اس کا کنکشن کروا سکے۔ اس کے بعد اس گاہک کے ذہن پر کیا گزری ہوگی یہ میں آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔

ہم اللہ سے زیادہ ڈرتے ہیں یا کیمرے کی آنکھ سے؟ اس کا جواب کسی کے تخیل پر نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ ہمارا جواب دراصل ہمارے عقائد کا حصہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ من حیث القوم ہم چوری کرنے سے نہیں ڈرتے بلکہ چوری کرکے پکڑے جانے سے ڈرتے ہیں۔

یہ بات بھی کچھ لوگوں کےلیے ہی کہی جاسکتی ہیں۔ ہماری اشرافیہ تو چوری کرکے دو انگلیوں سے فتح کا نشان بھی بناتے ہیں اور ضرورت پڑے تو بیماری کی اداکاری کرکے اسپتال میں داخل بھی ہوجاتے ہیں۔ ملک میں کرپشن کے مقدمات اس کا عملی ثبوت ہے۔

ہم چاہیں زبانی طور پر چوری کی جتنی بھی مذمت کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے قول اور ہمارے افعال ایک نہیں اور بقول سہیل وڑائچ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

ہمارے بچپن میں یہ کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی گناہ یا جرم کرنا ہے تو وہاں جاکر کروں کہ جہاں اللہ نہ دیکھ رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی تو کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا اس طریقے سے لوگوں کو گناہ اور جرم سے روکنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ آج کل ویسے بھی یہ سب باتیں کتابی لگتی ہیں۔ لوگوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ہر جگہ جرم و گناہ کرو ماسوائے اس جگہ کے جہاں کیمرے لگے ہوں۔

ان دنوں جرائم کو بھی دو وسیع معنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نیلے کالر والے جرائم اور سفید کالر والے جرائم۔ نیلے کالر والے جرائم جیسے فون چھیننا، موٹر سائیکل یا گاڑی چوری کرنا وغیرہ۔ سفید کالر جرائم تو باقاعدہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکے ہیں کہ جس میں بہت قابل اور تعلیم یافتہ لوگ آپ کےلیے کام کرتے ہیں۔ اس کام میں ایسا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی جمع پونجی خود ان کے حوالے کردیں یا لوگوں کی جیب سے اس طرح پیسے نکلوائے جائیں کہ لوگوں کا اس کا پتہ بھی نہ چلے اور اگر پتہ چل بھی جائے تو انگلی ان تک نہ پہنچ پائے۔ اسٹاک ایکسچینج اور جائیداد کی خرید و فروخت کے سودے اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ اس سے زیادہ مثالیں آپ کےلیے نہ سہی مگر میرے لیے یقیناً مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں، اس لیے اس بات کو یہی روک دیتے ہیں۔

ہم لوگوں کو اس سے ڈر کیوں نہیں لگتا کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے؟ اس کی وجہ وہ بے شمار وظائف، روایات اور رسومات ہیں کہ جن پر عملدرآمد کرکے ہم اپنے تئیں گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ جس طرح موٹر وے پر رفتار زیادہ ہونے کی ریکارڈنگ دکھا کر جرمانہ کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے تمام افعال بھی ریکارڈ ہورہے ہیں اور یوم الدین پر ہمارے اپنے اعضاء ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے اور اس وقت لوگوں کے حق کو کھانے والے کی سزا کی تلافی کسی عبادت کے وسیلے سے ممکن نہ ہوگی۔ لیکن ہاں عبادت کے بدلے شاید ممکن ہوں لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ اگر اس شخص کی رضا یا منشا ہو جس کا حق غصب کیا گیا تھا۔ اگر یہ سب کچھ کرکے آخر میں تہی دامن ہی ہونا ہے تو پھر آخرت میں کیوں اور دنیا میں کیوں نہیں کہ جہاں شاید اس کا ازالہ بھی ممکن ہے۔ 

اگر وقت ملے تو ضرور سوچیے گا ورنہ اللہ تو دیکھ رہا ہے کہ جس کی من حیث القوم نہ ہم نے پہلے کبھی پروا کی تھی اور نہ آئندہ کی کوئی امید ہے کیونکہ اگر ہم نے پروا کی ہوتی تو آج اقوام عالم میں ہماری یہ عزت افزائی نہ ہورہی ہوتی اور آخرت میں کس کے ساتھ کیا ہوگا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • فائیوجی اسپیکٹرم کی نیلامی کیوں نہیں ہورہی، پی ٹی اے نے اندر کی بات بتادی
  • معاشی استحکام کے مثبت اثرات پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر کیسے مرتب ہورہے ہیں؟
  • زباں فہمی نمبر245؛کشمیر اور اُردو (حصہ اوّل)
  • بجلی
  • آغا راحت کے بیان کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے، ساجد علی بیگ
  • توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • چین میں پندرہویں بیجنگ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کا آغاز
  • کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے