پی ٹی آئی کی مینارپاکستان جلسے کی درخواست پرڈپٹی کمشنر کو آج ہی فیصلہ کرنے کاحکم
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)لاہور ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر کو تحریک انصاف کی 8 فروری کو مینار پاکستان پر جلسے کی درخواست پر آج ہی فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے پی ٹی آئی رہنما عالیہ حمزہ کی درخواست پر سماعت کی، چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان اور ڈپٹی کمشنر لاہور سید موسیٰ رضا عدالتی حکم پر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔دوران سماعت عدالت نے چیف سیکرٹری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب کیا آپ نے رپورٹ دیکھی ہے ؟ آئین کا آرٹیکل 10 اے بھی دیکھنا ہے ، اگر میٹنگ کل ہوتی ہے اور انکی جلسے کی اجازت مسترد ہوجاتی ہے تو کہاں جائیں گے ؟
جسٹس فاروق حیدر نے کہا کہ اگر آپ جلسے کی اجازت دیتے ہیں تو ایک دن میں تیاری ممکن کیسے ہوگی ؟اگر آپ ان کی درخواست پر آج فیصلہ کردیں گے تو کیا حرج ہے۔چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان نے جواب دیا کہ عدالت جو حکم دے گی اس پر عمل کرینگے جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو آپ سے اسی جواب کی توقع تھی۔بعدازاں عدالت نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو پی ٹی آئی کے جلسے کی اجازت کی درخواست پر آج ہی فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔
رمضان شوگر ملز کیس: عدالت نے حمزہ اور شہباز شریف کو بری دیا
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی درخواست پر چیف سیکرٹری عدالت نے جلسے کی
پڑھیں:
دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس رضا کاظمی نے بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں کو ہی بچے کی کسٹڈی کا حق دار قرار دے دیا۔
جسٹس احسن رضا کاظمی نے نازیہ بی بی کی درخواست پر 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے دوسری شادی کی بنیاد دس سالہ بچے کو ماں سے لیکر باپ کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے میں کہا کہ بچوں کے حوالگی کے کیسز میں سب سے اہم نقطہ بچوں کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے، عام طور پر ماں کو ہی بچوں کی کسٹڈی کا حق ہے، اگر ماں دوسری شادی کر لے تو یہ حق ضبط کر لیا جاتا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے کہ ماں دوسری شادی کرنے پر بچوں سے محروم ہو جائے گی، غیر معمولی حالات میں عدالت ماں کی دوسری شادی کے باوجود بچے کی بہتری کی بہتری کےلیے اسے ماں کے حوالے کرسکتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں یہ حقیقت ہے کہ بچہ شروع دن سے ماں کے پاس ہے، صرف دوسری شادی کرنے پر ماں سے بچے کی کسٹڈی واپس لینا درست فیصلہ نہیں، ایسے سخت فیصلے سے بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
جج نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں میاں بیوی کی علیحدگی 2016 میں ہوئی، والد نے 2022 میں بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ دائر کیا، والد اپنے دعوے میں یہ بتانے سے قاصر رہا کہ اس نے چھ سال تک کیوں دعوا نہیں دائر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ والد نے بچے کی خرچے کے دعوے ممکنہ شکست کے باعث حوالگی کا دعوا دائر کیا، ٹرائل کورٹ نے کیس میں اٹھائے گئے اہم نقاط کو دیکھے بغیر فیصلہ کیا، عدالت ٹرائل کورٹ کی جانب سے بچے کی حوالگی والد کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی ہے۔