UrduPoint:
2025-04-22@18:57:45 GMT

افغانستان کے لیے امریکی امداد کی معطلی کا کیا مطلب ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

افغانستان کے لیے امریکی امداد کی معطلی کا کیا مطلب ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یو ایس ایڈ کے آپریشنز کو کم کرتے ہوئے امریکی غیر ملکی ترقیاتی امداد کو معطل کرنے کے اقدام سے افغانستان پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ملک ضروری خدمات کے لیے بیرونی امداد پر منحصر ہے۔

ٹرمپ کی جیت افغانستان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

اگست 2021 میں افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے باوجود امریکہ ملک کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے۔

انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (ایس آئی جی اے آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان کے ملک پر مکمل کنٹرول کے بعد سے واشنگٹن نے افغانستان اور افغان مہاجرین کے لیے 21 بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد مختص کی ہے یا دوسری صورت میں فراہم کی ہے۔

(جاری ہے)

ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ

امریکہ کا موقف ہے کہ امدادی رقوم کا رخ افغان عوام کی طرف ہوتا ہے، اور طالبان کو ان تک رسائی سے روکنے کے لیے ضروری انتظامات کیے گئے ہیں۔

طالبان کو 'افراتفری' کا سامنا

تاہم، افغانستان میں امریکی ڈالر کی ترسیل سے طالبان کو بالواسطہ فائدہ ہوا ہے۔ اس سے افغان کرنسی کو مستحکم کرنے اور تیزی سے افراط زر کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ امریکی امداد کی معطلی سے اس نازک توازن کے بگڑنے کا خطرہ ہے۔

ایک سابق افغان سفارت کار غوث جان باز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "امریکی غیر ملکی امداد، بشمول یو ایس ایڈ کی فنڈنگ روکنا، طالبان میں افراتفری کا باعث بنا ہے۔

"

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کو غیر ملکی امداد، بشمول امریکہ کی طرف سے سالانہ فراہم کی جانے والی کروڑوں ڈالر کی امداد نے نادانستہ طور پر طالبان کو ملک پر کنٹرول برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ فنڈز کے بہاؤ میں کمی کے ساتھ، طالبان یا تو بین الاقوامی مطالبات کے سامنے جھک سکتے ہیں یا انہیں افغانستان کے اندر سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جاں باز نے مزید کہا، "گزشتہ تین سالوں میں، طالبان ایک خود کفیل معیشت قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اس طرح کی امداد پر بہت زیادہ منحصر ہیں۔"

'افغان عوام کو قیمت ادا کرنا پڑے گی'

افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے، طالبان نے منظم طریقے سے خواتین کے بنیادی حقوق بشمول تعلیم اور گھر سے باہر کام کرنے پر روک لگادی ہے۔

طالبان کے دور حکومت میں افغان خواتین کو نقاب کے بغیر گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہے۔ خواتین کے حقوق کا مسئلہ، کسی بھی ملک کے طالبان کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔

اس کے نتیجے میں، دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر باضابطہ طور پر اب تک تسلیم نہیں کیا۔

طالبان ایک شمولیتی حکومت کے قیام یا افغان شہریوں کے لیے عوامی زندگی میں حصہ لینے کا عمل متعارف کرانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔

اگرچہ طالبان پر دباؤ بڑھانے کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے، تاہم کچھ لوگ اس لیے احتیاط برت رہے ہیں کہ اہم امداد میں کٹوتی افغان عوام کے لیے مزید مصائب کا باعث بنے گی۔

ملک سے باہر مقیم افغان خواتین کے حقوق کی ایک کارکن عظمی فروغ نے کہا،"اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، افغانستان میں 26 ملین لوگ اپنی بقا کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔

" فروغ افغانستان میں اب بھی کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر انسانی ہمدردی کی تنظیمیں فنڈز تک رسائی کھو دیتی ہیں، تو وہ سب سے بنیادی امداد بھی فراہم کرنے سے قاصر ہوں گی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے پاس افغان عوام کی حمایت یا ترقی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔

صرف اقوام متحدہ، بین الاقوامی ایجنسیوں اور افغان امدادی تنظیموں سے مدد ملتی ہے،" انہوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کے امداد میں کٹوتی کے فیصلے سے عام افغانوں کے حالات کافی خراب ہوں گے۔" افغانستان کے لیے ٹرمپ کا کوئی منصوبہ نہیں؟

افغانستان کے لیے امداد میں کمی صدر ٹرمپ کے بڑے انتظامی احکامات کا نتیجہ ہے، جن کا ہدف خاص طور پر افغانستان پر نہیں تھا، بلکہ مجموعی طور پر ترقیاتی امداد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ افغانستان اس وقت ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے اس ایجنڈے کے حاشیے پر ہے، جس میں مشرق وسطیٰ اور یوکرین کے تنازعات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔

چار فروری کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ایک افغان صحافی نے ٹرمپ سے افغانستان کے بارے میں ان کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا۔ جس پر ٹرمپ نے کہا، "آپ کے خوبصورت لہجے" کو میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔

اس سے یہ واضح نہیں کہ آیا ٹرمپ واقعی اس سوال کو سمجھنے میں ناکام رہے یا اس سے مکمل طور پر گریز کر رہے تھے۔

فروغ نے ​​کہا، "مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس افغانستان کے لیے ابھی کوئی منصوبہ ہے۔"

تاہم، ٹرمپ طالبان سے اپنے مطالبات کے بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں - یعنی امریکہ کے پیچھے چھوڑے گئے فوجی سازوسامان کی واپسی اور بگرام ایئربیس پر کنٹرول، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اب چین کے زیر اثر ہے، اس دعوے کی طالبان نے تردید کی ہے۔

جاں باز کے مطابق، یہ ریمارکس افغانستان کے حوالے سے امریکی ٹھوس حکمت عملی کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ ٹرمپ کی مہم کے بیانات کا حصہ ہیں۔

جاں باز کا خیال ہے، "آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ٹرمپ افغانستان کو کس طرح سنبھالتے ہیں، لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ان کا نقطہ نظر پچھلی انتظامیہ کی طرح نہیں ہو گا۔"

ج ا ⁄ ص ز (مسعود سیف اللہ)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان کے لیے کے بارے میں افغان عوام طالبان کے طالبان کو غیر ملکی کی امداد ٹرمپ کی کہ ٹرمپ رہے ہیں کے ساتھ

پڑھیں:

افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان کے بعد پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کے دوران ان کی سہولت اور شکایات کے ازالے کے لیے اسلام آباد میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے۔

تاہم حکام کے مطابق تمام تر انتظامات کے باوجود بھی گزشتہ کچھ دنوں سے رضاکارانہ افغانستان واپس جانے والوں کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

واپسی کا عمل سست روی کا شکار

پاکستان حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی رضاکارانہ واپسی کا دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع ہوچکا ہے جس کے تحت افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں کی واپسی ہو رہی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے احکامات کے بعد محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے پاک افغان مرکزی گزرگاہ طورخم کے قریب لنڈی کوتل کے مقام پر کیمپ قائم کیا ہے، محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق یکم اپریل سے عید تک روزانہ  2500 سے 3000 افغان باشندے پاکستان سے واپس افغانستان جا رہے تھے۔

لیکن عید کے بعد واپسی کے عمل میں ان میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور گزشتہ چند دنوں میں یہ تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سینکڑوں میں رہ گئی ہے، جو حکام کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ روز 479 افراد نے افغانستان واپسی کا سفر کیا۔

واپس جانے والے افغان باشندوں کے لیے حکومتی انتظامات

پاکستان سے افغان باشندوں کی باعزت واپسی اور سہولت کے لیے پاکستان نے موثر اقدامات اٹھائے ہیں، حکام کے مطابق پنجاب سے بھی زیادہ تر افغان باشندے واپسی کے لیے طورخم کا رخ کرتے ہیں اسی بنیاد پر لنڈی کوتل کے مقام پر کیمپ قائم کیا گیا ہے، جہاں رات قیام کی بھی سہولت ہے جبکہ واپس جانے والوں کی ضروری تصدیق کے بعد مکمل سیکیورٹی میں طورخم پر لے جایا جاتا ہے۔

خصوصی کنٹرول روم قائم

حکام کے مطابق نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے دورے افغانستان کے دوران افغان باشندوں کی جائیداد کے حوالے سے تحفظات سامنے آئے تھے، جس کے بعد ان شکایات کے ازالے کے لیے ایک کنٹرول روم قائم کرکے ہیلپ لائن نمبر بھی جاری کیے گئے ہیں، تاکہ افغان باشندوں کی شکایات کا بروقت ازالہ کیا جا سکے۔

حکام کے مطابق کنٹرول روم نیشنل کرائسس اینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سیل میں قائم کیا گیا ہے، جو 24 گھنٹے افغان شہریوں کی معاونت کے لیے کام کرے گا۔

اب تک کنتے افراد افغانستان واپس گئے؟

پاکستان میں مقیم افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں اور غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے، محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دوسرے مرحلے کے تحت گزشتہ روز 479 افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اور 1008 غیر قانونی تارکین وطن کو طورخم بارڈر کے راستے افغانستان روانہ کیا گیا۔

دوسرے مرحلے میں یکم اپریل سے اب تک مجموعی طور پر 26083 افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افراد رضاکارانہ طور پر واپس گئے ہیں جبکہ 17892 غیر قانونی تارکین وطن کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے، اب تک دوسرے مرحلے میں مجموعی طور پر 43496 افراد افغانستان واپس گئے۔

یہ بھی پڑھیں: تمام صوبے آن بورڈ ہیں، افغان باشندوں کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں ہو رہی، طلال چوہدری

اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد سے 1982 ، پنجاب سے 16624، گلگت سے 2 جبکہ آزاد کشمیر سے 1019 افراد اور سندھ سے 44 افراد کو طورخم کے راستے افغانستان واپس بھیجا گیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2023 سے لے کر اب تک خیبر پختونخوا کے مختلف بارڈرز سے مجموعی طور پر 5 لاکھ 15 ہزار 892 افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجا جا چکا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ حکومت اس عمل کو مزید شفاف، منظم اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کے تحت جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو باعزت طریقے سے ان کے ملک واپس بھیجا جا سکے۔

واپسی کا عمل سست روی کا شکار کیوں؟

پاکستان حکام کے مطابق پاکستان سے افغان باشندوں کی واپسی کا عمل مرحلہ وار جاری ہے اور اس وقت طورخم سے واپس جانے والوں سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں مقیم افغان شہروں کی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ 16624 افغان باشندے پنجاب سے طورخم کے راستے اپنے ملک واپس گئے جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ واپسی میں کمی آنے لگی ہے۔

مزید پڑھیں: افغان تارکین وطن کی واپسی، کوئٹہ کی کاروباری صورتحال کتنی متاثر ہوئی ہے؟

افغان باشندوں کی واپسی کی نگرانی کرنے والے ایک سرکاری افیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دوسرے مرحلے کے آغاز پر کریک ڈاؤن اور حکومتی کاروائی کا ڈر تھا اور گرفتاری اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے واپسی میں تیزی آئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ افغان باشندے خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں، جن کی واپسی ابھی تک شروع نہیں ہوسکی ہے،ان کے مطابق ابھی تک افغان باشندوں کی وطن واپسی بیشتر پنجاب سے ہی ہورہی ہے۔

’جن افغان شہریوں نے پاکستان میں گھر خریدا ہے یا ان کی یہاں جائیداد ہیں وہ ابھی تک وطن واپسی کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، زیادہ تر افغان باشندے اپنے سامان بھی ساتھ لے کر جا رہے ہیں تاکہ وہاں ان کی زندگی آسان ہو۔‘

گھر زمین کچھ نہیں وہاں جا کر کیا کریں گے؟‘

’منی کابل‘ کہلائے جانیوالے پشاور کے بورڈ بازار میں افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے، یہاں کے سبزی فروش افغان شہری سمیع اللہ نے بتایا کہ افغان باشندے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں اور منتظر ہیں کہ کسی بھی وقت پاکستانی حکومت یہ فیصلہ واپس لے۔

‘میری پیدائش پاکستان کی ہے، اردو بول سکتا ہوں، دوست گھر سب یہاں ہیں، واپس جا کر کیا کروں گا، وہاں نہ گھر ہے نہ زمین۔‘

سمیع اللہ نے بتایا کہ اکثر لوگ پولیس کارروائی کے ڈر سے جا رہے ہیں، خوشی سے کوئی نہیں جا رہا، انہوں نے بتایا کہ ان کا تین مرلے کا گھر بھی ہے اور اس وقت تک رہیں جب تک زبردستی نکال نہیں دیتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آزاد کشمیر اسحاق ڈار اسلام آباد افغان سٹیزن کارڈ افغان شہریوں افغانستان پنجاب تارکین وطن خیبرپختونخوا رضاکارانہ سمیع اللہ سندھ طورخم غیر قانونی کنٹرول روم گلگت لنڈی کوتل ہیلپ لائن وزیر خارجہ

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ کی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول پر تنقید ‘مارکیٹ میں ڈالر کی قدرمیں نمایاں کمی
  • ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ
  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے پیداہونے والے بحران پر وائٹ ہاؤس ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گا
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، اسحق ڈار