Nai Baat:
2025-04-23@00:28:11 GMT

دلیل کی زبان

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

دلیل کی زبان

حضور نبی اکرمؐ کا ہر اْمتی آپؐ سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ مسلمان فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا مرتکب تو ہو سکتا ہے مگر جب بات ناموس رسالتؐ پر پہرہ دینے اور عشق مصطفی ؐ کے اظہار کی ہو پھر کوئی مصلحت اْس کا راستہ نہیں روک پاتی، کچھ عرصہ سے مغرب کی طرف سے شانِ رسالت مآبؐ اور شعائر دین کے حوالے سے تکلیف دہ واقعات رونما ہوئے جس سے اْمہ کے نوجوانوں کے دل دماغ گھائل ہوئے اور شدید جذباتی ردعمل نے جنم لیا۔ ان واقعات کی وجہ سے عوامی سطح پر ٹکراؤ اور تصادم کا ماحول پیدا ہوا، مغرب کے بیشتر ملک ایسے واقعات کو آزادی اظہار کے پیرائے میں دیکھتے ہیں جبکہ مقدسات کی توہین پر ہمارا نکتہ نظر مختلف ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو مقدسات کی توہین کو جائز قرار دے یا اگر مگر کے ساتھ اس توہین کا راستہ کھولے۔ جب سے سوشل میڈیا کا زمانہ آیا ہے مقدسات کی توہین کو آزادی اظہار کے طور پر پیش کرنے کے پروپیگنڈا میں بھی شدت آئی ہے۔ عالم اسلام کی طرف سے عوامی اور سرکاری سطح پر کوششیں کی گئیں کہ بین المذاہب رواداری اور تہذیبی تصادم کو روکنے کے لئے مقدسات کی توہین کو روکا جائے، ان کوششوں سے کسی حد تک ذہن بدلے ہیں اور مقدسات کی توہین کو ایک جرم کے طور پر قبول کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بھی احترام مذاہب ڈے منائے جانے کا فیصلہ کیا گیا جو خوش آئند ہے، تاہم اب بھی اس ضمن میں بہت سارا کام کرنا باقی ہے، اہل اسلام اور بالخصوص برصغیر پاک و ہند کے خطہ میں جذباتی ردعمل عقل پر ہمیشہ حاوی پایا گیا ہے اور ہمارے علمائ، آئمہ مساجد اور نیم خواندہ مولوی حضرات نے ہمیشہ جلتی پر تیل گرایا ہے۔ کبھی اس صورت حال کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ مغرب کے لوگ ایک مخصوص آب و ہوا میں پرورش پاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو چیزیں حلال وحرام کے زمرے میں آتی ہیں اْن کے ہاں یہ معمولات زندگی کا حصہ ہیں۔ اہل مشرق کی طرف سے اسلام کی قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں اہل مغرب کو منظم انداز کے ساتھ کبھی جانکاری نہیں دی گئی، اسلام کے بارے میں اْن کے تصورات لاعلمی یا تعصب پر مبنی رہے ہیں اور نائن الیون کے بعد اسلام کے اوپر انتہا پسندی کا داغ لگانے کے لئے جو تہمت بازی ہوئی اْس نے فقط میڈیا سے معلومات حاصل کرنے والے کچے ذہنوں کو اسلام کے بارے میں بری طرح متاثر کیا اور نہایت ہوشیاری کے ساتھ افغانستان کی ثقافت کو عملی ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا، حقیقت یہ ہے افغانستان ہو یا پاکستان کے خیبرپختونخوا کا خطہ یا بلوچستان یہاں مذہب سے زیادہ ثقافتی اقدار و روایات کے تحت لوگ زندگی بسر کرتے ہیں، یہی رویے اْن کے خواتین سے متعلق بھی ہیں مگر ’’پلاننگ‘‘ کے تحت خاندانی و علاقائی ثقافت اور اقدار و روایات کو اسلام کی تعلیمات بنا کر پیش کیا گیا جو ایک صریح غلط فہمی ہے۔ مغرب کی اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے علمی و عقلی سطح پر من حیث الجموع ہمارے اسلامی حلقوں اور تحریکوں نے جذباتیت سے پاک کردار ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ غلط فہمیاں دن بہ دن گہری ہوتی چلی گئیں، نائن الیون کے بعد اس میں شدت آئی اور مغرب میں آباد مسلمانوں کے لئے آزادانہ اپنے سماجی امور انجام دینا مشکل ہو گئے، وہ خود بھی اس بات پر پریشان تھے کہ اس الزام کا کیا جواب دیا جائے؟ اس ماحول میں بہرحال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بہت متحرک کردار ادا کیا، انہوں نے نائن الیون کے بعد تواتر کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، یورپ کے دورے کئے، کانفرنسز منعقد کیں اور بڑے زور دار دلائل دئیے، اس ضمن میں سیرت مصطفی ؐ پیش کی کہ اسلام کا نہ صرف انتہا پسندی سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ اسلام تو انتہا پسندانہ رویوں اور رجحانات کو ختم کرنے والا ضابطہء حیات ہے،یہ اسلام ہی تو ہے جس نے ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ بہرحال اب صورت حال بدل رہی ہے، حال ہی میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر ویانا میں بین المذاہب رواداری کانفرنس میں شرکت کی اور اسلام کی امن فلاسفی اور اس ضمن میں ریاست مدینہ کے عملی ماڈل پر سیر حاصل گفتگو کی، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا مؤقف تھا کہ اگر اسلام عدم برداشت کی حوصلہ افزائی کرنے والا دین ہوتا تو حضور نبی اکرمؐ ریاست مدینہ کے اندر دیگر مذاہب کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرتے اور نہ ہی اْنہیں دستوری تحفظ دیتے، آپؐ نے دیگر مذاہب کے ساتھ میثاق مدینہ کیا اور یہ میثاق تحریر فرماتے وقت دیگر مذاہب کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا اور اْنہیں مدینہ کی ریاست کے شہری کی حیثیت سے جان و مال کا تحفظ دیا اور اس بات کی گارنٹی دی کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی عبادات اور مذہبی رسومات انجام دے سکتے ہیں یہاں تک کہ دیگر مذاہب کو اپنی اقدار و روایات کے مطابق اپنے شہریوں کے حوالے سے عدالتی سطح پر فیصلے صادر کرنے کی بھی اجازت دی۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا یہ دعویٰ شرکائے کانفرنس کے لئے حیران کن تھا جس میں آپ نے کہا کہ حضور نبی اکرم ؐ نے نجران سے آئے ہوئے نصرانی وفد کو مسجد نبوی کے اندر عبادت کی اجازت دی، آپؐ غیر مذاہب نمائندوں کے احترام میں کھڑے ہوئے اور آپؐ نے گرجا گھروں کی حفاظت کی بھی گارنٹی دی، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا ہر جملہ ریفرنس کے ساتھ تھا شاید یہی وجہ ہے کہ اس عالمی کانفرنس کے موقع پر دنیا بھر سے آئے ہوئے مختلف مذاہب کے نمائندوں اور انسانی حقوق کے مختلف فورمز کے سربراہان نے اْن سے طویل ترین سوال و جواب کیا، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ایک ایک سوال کو ایڈریس کیا اور اْنہیں اپنی دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کے موضوع پر لکھی گئی کتب بھی تحفہ میں دیں۔ ہمارے سکالرز، علمائے کرام و دینی حلقوں کو مغرب کے ساتھ غیر جذباتی مدلل مکالمہ قائم کرنا ہو گا، وہ لوگ جذبات کی زبان کو نہیں سمجھتے، اْن کے ساتھ حقائق کی زبان میں بات کرنا ہو گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ڈاکٹر حسن محی الدین قادری مقدسات کی توہین کو دیگر مذاہب اسلام کی مذاہب کے کیا گیا کے ساتھ اور اس ا نہیں کے لئے

پڑھیں:

یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ

اسلام ٹائمز: ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی اور ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ خصوصی رپورٹ:

چینی ویب سائٹ SOHO کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو فوجی طاقت اور وسیع فوجی سہولیات کے باوجود یمن کے انصار اللہ کے مقابلے میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ کاٹنے والا کتا کبھی نہیں بھونکتا اور حقیقی طاقتور اوچنا نہیں بولتا۔ امریکہ کی موجودہ فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اصولی طور پر یہ کہنا ممکن ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تصادم پر یہ مقولہ صادق آتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے استعمال کی بات کی، حوثیوں پر تابڑ توڑ حملے ایک ایسی ہی گھن گرج پر مبنی حکمت عملی ہے، جو امریکیوں کو معقول محسوس ہو رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے مذکورہ مقولہ ہی سچ لگتا ہے۔

فی الحال، ریاستہائے متحدہ کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز اور ان کے ساتھ بحیرہ احمر کے علاقے میں اسٹرائیک گروپس موجود ہیں، جن کے چاروں طرف تباہ کن کشتیوں اور اسکارٹ جہازوں کے بیڑے ہیں۔ اس کے علاوہ، واشنگٹن نے بڑی تعداد میں B-2 سٹیلتھ بمبار طیاروں کو اپنی سرزمین سے منتقل کر دیا ہے اور انہیں بحر ہند میں ایک اڈے پر تعینات کر دیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ فوجی تعیناتی واضح طور پر حوثیوں کے خلاف ہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس سے امریکہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ کی مسلسل فضائی بمباری کے باوجود حوثیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔

وہ پہلے کی طرح (غزہ کی حمایت میں) وقتاً فوقتاً جوابی حملے کرتے رہتے ہیں۔ تہران کے ساتھ مذاکرات کے وقت، واشنگٹن نے حوثیوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کرنے کو ترجیح دی۔ اگرچہ یہ ایران کو مذاکرات کی شرائط ماننے اور براہ راست جنگ سے بچنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن یہ احتیاط سے تیار کی گئی امریکی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی اور بالآخر ایک فسانہ اور جعلی شو میں بدل گئی۔ واشنگٹن کی اعلیٰ فوجی طاقت محدود صلاحیتوں کے ساتھ "یمن کی عوامی فوج" کے خلاف غالب آنے میں ناکام رہی۔ اگر حوثی ایسے ہیں، تو امریکہ ایران سے لڑنے کا فیصلہ کریگا تو حالات کیا ہوں گے؟

ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی سمیت کئی حوالوں سے ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ امریکہ نے یوکرین کے بحران میں روس کا سر توڑ مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں اور وہ مشرق وسطیٰ میں یمن کی دلدل میں پھنس گیا۔

"واشنگٹن نے خطے میں اپنے سلسلہ وار اقدامات سے ایک مضبوط قوت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا، اور آج ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سب کی نظریں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ کیا واشنگٹن اپنا کام جاری رکھے گا یا ذلت اور مایوسی میں پیچھے ہٹ جائے گا۔"

متعلقہ مضامین

  • سی ڈی اے اسلام آباد واٹر کا ڈویلپمنٹ پارٹنرز کے ساتھ اسلام آباد میں پانی کی کمی اور بہتر واٹر مینجمنٹ کے حوالے سے کانفرنس کا انعقاد
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف ترکیہ کے دو روزہ دورے پر انقرہ کیلئے روانہ
  • پی ایف یو جے دستور گروپ کی پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری
  • سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا:ایاز صادق
  • جے یو آئی دیگر اپوزیشن اور پی ٹی آئی سے علیحدہ اپنا الگ احتجاج کرےگی، کامران مرتضیٰ
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہیں ہوگا، جے یو آئی
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
  • آج اسلام آباد اورکشمیرمیں آندھی/جھکڑ / ژالہ باری/گرج چمک کا امکان