Jasarat News:
2025-04-22@07:22:15 GMT

غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز، ایک نئی عالمی حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز، ایک نئی عالمی حقیقت

30 جنوری 2025 کو non traditional security challenges in 21st century کے عنوان سے منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں ترکی، جرمنی اور جاپان سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاؤہ پاکستان سے ماہر معاشیات قیصر بنگالی ، پروفیسر مونس احمر کے علاوہ پاکستان کی مختلف جامعات کے وائس چانسلروں نے بھی شرکت کی اور موضوع کی اہمیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کا انعقاد گرین وچ یونیورسٹی اور فیڈرل اردو یونیورسٹی کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں پی جے آئی ایف کی نمائندگی کرتے ہوئے راقم کو بھی اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا۔ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز اب ایک بز ورڈ بن چکا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تواتر سے گفتگو کی جانے لگی ہے۔ آئیں آج سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ تصور کیا ہے اور عالمی سطح پر اسے کس تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ روایتی طور پر سیکورٹی کا تصور عسکری طاقت اور جغرافیائی سرحدوں کے دفاع تک محدود تھا، لیکن 21 ویں صدی میں سیکورٹی کے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ جن میں ماحولیاتی تبدیلی، عالمی وبائیں، سائبر حملے، خوراک اور توانائی کے بحران، اور انسانی حقوق جیسے مسائل شامل ہیں۔ یہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز (Non-Traditional Security Challenges) کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ ان کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا میں، کوئی بھی ملک ان چیلنجز سے تنہا نہیں نمٹ سکتا۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون، جدید پالیسی سازی، اور ایک جامع حکمت عملی درکار ہے، جو روایتی سیکورٹی تصورات سے آگے بڑھ کر انسانی فلاح و بہبود کو بھی مدنظر رکھے۔

عالمی درجہ حرارت ہی کو لے لیجیے جس میں اضافے کی وجہ سے غیر متوقع موسم، سیلاب، اور خشک سالی جیسے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ یہ مسائل خاص طور پر پاکستان جیسی کمزور معیشت رکھنے والے ممالک کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہو رہے ہیں، جہاں بنیادی ڈھانچہ پہلے سے ہی کمزور ہے۔ یہ بات اب مسلم ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی نہ صرف معیشت اور صحت پر اثر ڈالتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی نقل مکانی (climate migration) کو بھی جنم دے رہی ہے، جس سے جغرافیائی سیاست متاثر ہو رہی ہے۔ اسی طرح صحت کے مسائل ہیں، کورونا وبا کے دوران دنیا کو یہ سبق ملا کہ صحت کا ایک بحران پوری عالمی معیشت اور سیکورٹی کو مفلوج کر سکتا ہے۔ وبائی امراض کے خلاف تیاری، ویکسین کی مساوی تقسیم، اور عالمی سطح پر صحت کے نظام کو مضبوط بنانا اب صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سلامتی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ ہم آئے دن ہیکنگ اور ڈیٹا کی چوری جیسے مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں اور یہ معاملہ صرف انفرادی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کارپوریٹ سے حکومتی سطح تک سبھی کو درپیش رہتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں یہ سائبر حملے حکومتوں، معیشتوں، اور سماجی استحکام کے لیے نئے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ غلط معلومات (disinformation)، ڈیٹا چوری، اور انفرا اسٹرکچر پر سائبر حملے ریاستوں کے لیے بڑے چیلنجز بن چکے ہیں۔

کہیں معمر افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کہیں برتھ ریٹ میں کمی ورک فورس میں کمی کا

سبب بن رہی ہے۔ سامراجی طاقتوں کی ناانصافی اور کہیں محدود قدرتی وسائل کے باعث خوراک اور توانائی کی قلت عالمی سطح پر کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔ کئی ممالک میں غذائی قلت ایک بڑا انسانی بحران بن چکی ہے، جبکہ توانائی کے متبادل ذرائع پر منتقلی (energy transition) بھی ایک پیچیدہ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جنگ، ماحولیاتی تبدیلی، اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے لاکھوں افراد اپنے گھروں سے محروم ہو رہے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف ترقی پذیر ممالک تک محدود نہیں بلکہ اب ترقی یافتہ ممالک بھی اس بحران کے اثرات محسوس کرنے لگے ہیں، کیونکہ عالمی سطح پر مہاجرین کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں کچھ ممالک نے خاص پیش رفت کی ہے، اور جاپان ان ممالک میں سے ایک ہے۔ جاپان کی حکمت عملی ان چیلنجز کو صرف قومی مسئلہ سمجھنے کے بجائے انہیں عالمی تناظر میں دیکھنے اور بین الاقوامی شراکت داری کے ذریعے ان کے حل میں کردار ادا کرنے پر مبنی ہے۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ ماحولیاتی تحفظ جاپان کی پالیسی کا ایک اہم جزو ہے۔ “Long-term Low Carbon Vision” کے تحت جاپان قابل تجدید توانائی اور کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ عالمی شراکت داری کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی مدد میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

کورونا 19 کے دوران۔ وباؤں کے تدارک کے لیے جاپان نے ویکسین کی فراہمی اور صحت عامہ کے نظام کو مضبوط بنانے میں عالمی شراکت داروں کے ساتھ کام کیا خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ساتھ اس کا تعاون اہم رہا ہے، ڈیجیٹل دور میں جاپان نے قومی سائبر سیکورٹی پالیسی تشکیل دی ہے اور بین الاقوامی سطح پر سائبر کرائم کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ جاپان کی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی سائبر سیکورٹی کے معیارات کو بہتر بنانے میں عالمی سطح پر نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ جاپان زراعت میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے کر خوراک کی پیداوار میں بہتری لا رہا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع، جیسے ہائیڈروجن ٹیکنالوجی اور نیوکلیئر انرجی پر بھی کام کیا جا رہا ہے، تاکہ توانائی کے بحران کا سامنا مؤثر طریقے سے کیا جا سکے۔ جاپان مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ خاص طور پر تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، تاکہ مہاجرین کو بہتر زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔

جیسا کہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے صرف قومی اقدامات کافی نہیں بلکہ عالمی تعاون ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں جاپان کی حکمت عملی اس بات کی مثال ہے کہ جدید ریاستیں ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیسے کام کر سکتی ہیں۔ اپنے اندرونی نظام کو مضبوط بنا کر اور بین الاقوامی سطح پر شراکت داری کے ذریعے مشترکہ مسائل کا حل نکال کر۔ دیگر ممالک کے لیے بھی یہی ماڈل اپنانا ضروری ہوگا تاکہ دنیا ایک پائیدار اور محفوظ مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز مستقبل میں مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ممالک ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں، سائنسی تحقیق، پالیسی سازی، اور عالمی تعاون کو ترجیح دیں، تو ان چیلنجز کو کم کیا جا سکتا ہے اور عالمی استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ترقی پذیر ممالک بین الاقوامی عالمی سطح پر بلکہ عالمی توانائی کے اور عالمی چیلنجز سے ان چیلنجز نہیں بلکہ حکمت عملی جاپان کی کے ساتھ رہے ہیں سکتا ہے کے لیے رہا ہے رہی ہے

پڑھیں:

نیا واٹس ایپ فراڈ: تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے سے فون ہیک اور بینک اکاؤنٹ خالی ہونے کی حقیقت کیا؟

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حالیہ دنوں میں واٹس ایپ کے ذریعے ہونے والے ایک مبینہ اسکینڈل نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے، جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ واٹس ایپ پر بھیجی گئی ایک تصویر کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے موبائل فون ہیک ہو جاتا ہے اور بینک اکاؤنٹ سے رقم چوری ہو جاتی ہے۔ بھارت میں اس حوالے سے چند مبینہ کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں، جس پر صارفین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

تاہم، ٹیکنالوجی ویب سائٹ ”GadgetsToUse“ کی تحقیق کے مطابق یہ تمام دعوے بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے سے موبائل ہیک ہونا ممکن نہیں۔

واقعے کی ابتدا کیسے ہوئی؟
یہ مبینہ فراڈ اپریل کے پہلے ہفتے میں بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر جبل پور سے رپورٹ ہوا۔

ایک نامعلوم شخص نے دعویٰ کیا کہ اسے ایک اجنبی نمبر سے تصویر موصول ہوئی جس میں کسی شخص کی شناخت میں مدد مانگی گئی تھی۔ دعویٰ ہے کہ تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد اُس کا فون ہیک ہوگیا اور اس کے بینک اکاؤنٹ سے دو لاکھ روپے چوری ہو گئے۔

بعض میڈیا رپورٹس نے اس واقعے کو ”اسٹیگنوگرافی“ یا ”زیرو ڈے وَلنریبیلٹی“ جیسے پیچیدہ سائبر حملوں سے جوڑا، جن کے ذریعے مبینہ طور پر تصویر میں پوشیدہ کوڈ کو ایکٹیو کیا گیا۔ تاہم، نہ تو اس خبر کا کوئی مصدقہ ذریعہ موجود ہے، نہ ہی متاثرہ فرد کی شناخت سامنے آئی ہے، جو خود اس کہانی پر کئی سوالات اٹھا دیتا ہے۔

کیا واٹس ایپ تصویر سے فون ہیک ہو سکتا ہے؟
اس سوال کا واضح جواب ہے، نہیں!

واٹس ایپ تصاویر سے EXIF ڈیٹا ہٹا دیتا ہے
جب آپ واٹس ایپ پر تصویر بھیجتے ہیں، تو ایپ اس تصویر کو کمپریس کر دیتی ہے اور اس میں موجود میٹا ڈیٹا (جیسے وقت، تاریخ، کیمرہ تفصیلات) ہٹا دیتی ہے۔ اگر کوئی ہیکنگ کوڈ تصویر میں چھپایا بھی گیا ہو، تو واٹس ایپ کا کمپریشن سسٹم اسے نکال دیتا ہے۔

اینڈرائیڈ اور آئی او ایس سسٹمز محفوظ ہیں
موبائل فونز میں ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں جو کسی تصویر کو ڈاؤن لوڈ کرتے ہی کوڈ ایکٹیو کر دے۔ فون صرف مخصوص فارمیٹس (جیسے APK) پر ریسپانڈ کرتا ہے، اور وہ بھی تب جب صارف خود انسٹالیشن کی اجازت دے۔

حقیقت میں دھوکہ کیسے ہوتا ہے؟
حقیقت میں ایسا ہوتا ہے کہ ہیکر ایک APK فائل بھیجتے ہیں، جس کا نام یا آئیکن تبدیل کر کے اسے تصویر جیسا بنا دیا جاتا ہے۔ صارف اگر اس ”تصویر“ پر کلک کرے اور ایپ انسٹال کر لے، تو وہ ہیک ہو سکتا ہے۔ اس ایپ کے ذریعے ہیکر مختلف پرمیشنز حاصل کر کے بینکنگ ایپس یا ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔

ممکنہ طور پر جبل پور کے واقعے میں بھی یہی ہوا ہو۔

اپنا واٹس ایپ کیسے محفوظ رکھیں؟
کسی بھی اجنبی نمبر سے موصول پیغام یا فائل پر کلک نہ کریں۔
اگر کوئی APK یا نامعلوم فائل آئے تو اسے ہرگز انسٹال نہ کریں۔
واٹس ایپ میں ”Linked Devices“ چیک کرتے رہیں کہ کوئی اور آپ کے اکاؤنٹ سے تو جڑا نہیں۔
جدید AI ٹولز جیسے Norton Genie یا Scam AI کا استعمال کریں، جو ممکنہ فراڈ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
تو اس طرح واضح ہوا کہ واٹس ایپ پر تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے سے فون ہیک ہونا ایک افواہ ہے۔ یہ محض خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش ہے۔ اصل خطرہ جعلی ایپس اور غیر مصدقہ فائلوں سے ہے، جن سے ہوشیار رہنا ہی سب سے بہتر تحفظ ہے۔
مزیدپڑھیں:سب صحافیوں کو 5 مرلے کا پلاٹ ملے گا،حکومت کابڑااعلان

متعلقہ مضامین

  • صدر مملکت نے 6 دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر سیکورٹی فورسز کو سراہا
  • سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں ؛6 خوارج جہنم واصل
  • ایک قدامت پسند اور غیر روایتی پوپ کا انتقال
  • پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ
  • امریکہ کے اندھا دھند محصولات کے اقدامات غلط ہیں،یونیڈو
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • گری ہوئی چیز کو اٹھا کر کھانے کا 5’ سیکنڈ رول’، حقیقت کیا ہے؟
  • شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی خدشات کے باعث کرفیو نافذ
  • اسپورٹیج ایل کی قیمت میں 10 لاکھ روپے کمی ، حقیقت یا افواہ؟
  • نیا واٹس ایپ فراڈ: تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے سے فون ہیک اور بینک اکاؤنٹ خالی ہونے کی حقیقت کیا؟