مشرق وسطیٰ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا قالین
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
سیاست میں ایک بے پناہ اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ وقت سے قبل یہ بھانپ لیا جائے کہ کسی خاص صورتحال میں کسی لیڈر کا ممکنہ طرزِ عمل یا ردعمل کیا ہوگا؟ چنانچہ نہ صرف یہ کہ متحارب سیاسی قوتیں اپنی چال چلنے یا نہ چلنے کا فیصلہ بھی اسی بنیاد پر کرتی ہیں بلکہ تجزیہ کاروں کی روزی روٹی بھی اسی چیز سے جڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ تجزیہ حال سے کم اور مستقبل سے زیادہ جڑا ہوتا ہے۔ ہرچند کہ ناقابل یقین سی بات ہے مگر ہوتے سیاسی لیڈر بھی بہر حال انسان ہی ہیں۔ اور ہر انسان کی ایک نفسیات ہوتی ہے، اسی بنیاد پر اس کے حوالے سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ کس صورتحال میں اس کا طرز عمل یا ردعمل کیا ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے حوالے سے یقین کی حد کو پہنچی ہوئی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات سے چند ماہ قبل جب روسی صدر ولادیمیرپیوٹن سے سوال ہوا کہ وہ بائیڈن اور ٹرمپ میں سے کس کی جیت چاہتے ہیں؟ تو پیوٹن کا یہی کہنا تھا کہ وہ بائیڈن کی جیت چاہتے ہیں کیونکہ وہ ’پریڈکٹ ایبل‘ ہیں۔ یعنی کسی بھی صورتحال میں ان کے چلن کو پیشگی بھانپا جاسکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ’پریڈکٹ ایبل‘ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ روایتی سیاستدان نہیں ہیں۔ سو وہ سیاست کے روایتی راستوں پر نہیں چلتے۔ مثلاً آپ ان کا ٹیرف کارڈ ہی لے لیجیے۔ یہ کارڈ ہر جگہ کارآمد نہیں مگر اس کے کارآمد ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے قبل یہ کارڈ کسی امریکی صدر نے استعمال نہیں کیا۔ یہ ان کا بالکل ہی آؤٹ آف دی بکس ٹول ہے، اور اب تک وہ اسے کولمبیا، میکسیکو اور کینیڈا کے خلاف کامیابی سے استعمال کر چکے ہیں۔ ٹرمپ یورپ کے خلاف بھی یہ کارڈ چلنے کا واضح اشارہ دے چکے، جو آنے والے ایام میں عالمی سیاست کے لیے مزید ارتعاش کا باعث بنے گا۔
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ غزہ سیز فائر کے حوالے سے ہمارا کالم تاخیر کا اس لیے شکار ہوا کہ سیاست لین دین کا کھیل ہے۔ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ کیا ہے جو ٹرمپ سیز فائر کے بدلے اسرائیل کو دینا چاہتے ہیں؟ اگرچہ ان دنوں یہ آئیڈیا فلوٹ ہوچکا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ خالی کروانے کا پلان رکھتے ہیں۔ مگر فلوٹ کیے گئے آئیڈیاز بالعموم ٹرک کی بتی ثابت ہوتے ہیں، سو ہم ان کے تعاقب سے گریز کرتے ہیں۔ ہم کسی آئیڈیے کو اسی صورت موضوع بناتے ہیں جب وہ آفیشل ہوجائے۔
غزہ انخلا کا آئیڈیا دو روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی مشترکہ پریس کانفرنس میں آفیشل ہوچکا۔ فی الحال اعلان کی حد تک ہی سہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے باقاعدہ اون کرلیا ہے۔ کسی بھی آئیڈیے کی طرح اس آئیڈیے کے حوالے سے بھی سب سے پہلے ہمیں یہی دیکھنا ہے کہ یہ قابل عمل کتنا ہے؟ اس آئیڈیے پر بی بی سی کے ردعمل سے ہی اندازہ لگا لیجیے کہ یہ آئیڈیا کتنا قابل عمل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان پر بی بی سی کی ہیڈلائن ہے “Trump’s Gaza plan will be seen as flying in face of international law” یعنی ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جائےگا۔
یہ ایک ہی سقم اتنا بڑا ہے کہ اسی کی بنیاد پر ٹرمپ کے اعلان کو مضحکہ خیز قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ معاملہ ہے کہ خود اہل غزہ اسے قبول کریں گے یا نہیں؟ اپنی سرزمین سے فلسطینیوں کی کمٹمنٹ کس درجے کی ہے اس کا اندازہ پچھلے ایک سال کی جنگ سے لگایا جاسکتا ہے۔ روایتی طور پر دنیا بھر میں ہوتا یہ ہے کہ جب کسی ملک میں جنگ چھڑتی ہے تو اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہجرت کر جاتا ہے۔ یہ ہم افغان جنگ کے دوران بھی دیکھ چکے جب لگ بھگ ایک کروڑ افغان اپنے وطن سے ہجرت کرگئے تھے، اور یہ ہم یوکرین میں بھی دیکھ سکتے ہیں جس کی لگ بھگ چالیس فیصد آبادی ہجرت کرچکی ہے۔ لیکن غزہ میں چلن نظر نہیں آیا، وہاں کے لوگوں نے تاریخ کے بدترین قتل عام کے دوران بھی اپنی سرزمین نہیں چھوڑی۔ اس کی آبادی میں اگر کوئی کمی واقع ہوئی تو وہ کمی بس انہی افراد کی ہے جو اسرائیلی قتل عام میں شہید ہوچکے۔ اہل غزہ اس قتل عام کے دوران غزہ کی ہی حدود میں کبھی شمال تو کبھی جنوب کا رخ کرتے رہے، لیکن اپنی سرزمین کو انہوں نے نہیں چھوڑا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس جادو کی وہ کون سی چھڑی ہے جس کے ایک اشارے سے اہل غزہ اپنی سرزمین سے دستبردار ہو جائیں گے؟ کیا اہل غزہ وہاں اس لیے بیٹھے ہیں کہ وہ تو نکلنا چاہتے ہیں مگر کوئی نکلنے نہیں دیتا؟ اور ڈونلڈ ٹرمپ راستے کھول دیں گے؟ سرنگوں کا ایک جال ہے جو ایک جانب مصر اور دوسری جانب لبنان تک پہنچتا ہے۔ یہی تو وہ سپلائی لائن ہے جس کا تاحال اسرائیل کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ سو اگر کوئی غزہ چھوڑنا چاہتا تو یہ سرنگیں اس کے لیے کارآمد تھیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فلسطین کی تحریک کا سب سے طاقتور عنصر ہی یہ ہے کہ فلسطینی اپنی سرزمین کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہتے۔
پھر ایک اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اہل غزہ کو بسائیں گے کہاں؟ سردست مصر اور اردن کے نام لیے جا رہے ہیں، مگر یہ اتنا آسان معاملہ نہیں کہ ان ممالک کے حکمران ہاں کردیں گے اور سب بخیر و خوبی طے پاجائے گا۔ ان کے ہاں کرتے ہی خود ان حکمرانوں کا اقتدار خطرے میں ہوگا، بالخصوص مصر میں اخوان کے ہاتھ اتنا بڑا ایشو آجائے گا کہ جنرل سیسی کے لیے اس سے نمٹنا ممکن ہی نہ رہے گا۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ فلسطین کا ہی ایشو تھا جس پر سودے بازی کے نتیجے میں انور سادات کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ سیسی کے پاس تو پھر بھی کسی نہ کسی درجے میں مصری فوج ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ کا حال تو اور بھی پتلا ہے۔ وہ پہلے ہی ان تیس لاکھ فلسطینیوں کے خوف میں رہتے ہیں جو دہائیوں سے وہاں آباد ہیں۔ سو ایسے میں غزہ انخلا کے لیے ہاں کرتے ہی شاہ عبداللہ خطرے میں ہوں گے۔
اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لگ بھگ ناممکنات کی حد کو پہنچا ہوا آئیڈیا ٹرمپ نے پیش ہی کیوں کیا؟ ڈونلڈ ٹرمپ سیاست کے روایتی طریقوں سے جتنا بھی انحراف کرلیں وہ سیاست کے دائرے سے باہر تو جانے سے رہے۔ سو سیاست کے بازار کا ایک چلن یہ ہے کہ یہاں قالین کی قیمت ہمیشہ پٹھانوں والی لگائی جاتی ہے۔ اور پھر اس پر بارگین کی صورت اس قیمت کو پہنچا جاتا ہے جو فی الواقع مطلوب ہوتی ہے۔
سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے کچھ ریٹائرڈ اعلیٰ سطح کے افسران ایسے ہیں جو فلسطین کے ایشو پر فلسطینیوں کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ایسے ہی ریٹائرڈ افسران میں سے ایک ایلسٹر کروک ہیں۔ ایلسٹر کو باقاعدگی سے فالو کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ انتہائی باخبر شخص ہیں۔ ایلسٹر کروک نیتن یاہو کے دورے سے دو روز قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیز فائر پلان سے جس شخص کے لیے سب سے زیادہ مشکلات کھڑی کردی ہیں وہ نیتن یاہو ہے۔ اس کا اقتدار کھڑا ہی دو انتہا پسند صہیونی لیڈروں کی حمایت پر تھا۔ ان میں سے ایتمار بین گویر سیز فائر والے ایشو پر نیتن یاہو کا ساتھ چھوڑ چکا جبکہ سموٹریج بھی ایسا کرسکتا ہے۔ سو نیتن یاہو نے سیز فائر کے دوسرے مرحلے کے لیے اپنا نمائندہ دوحہ بھیجنے کے بجائے خود واشنگٹن جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایلسٹر کروک کے مطابق غزہ انخلا کا جو آئیڈیا فلوٹ کیا گیا ہے یہ درحقیقت نیتن یاہو کو سیاسی آکسیجن فراہم کرنے کے لیے ہے۔ کوئی ایسا لولی پاپ نیتن یاہو کی اشد ضرورت ہے جسے وہ تل ابیب کے سیاسی بازار میں سیل کرسکے۔ اور اس خفت سے جان چھڑا سکے جس کا سامنا نیتن یاہو کو قیدیوں کے تبادلے والے مناظر سے کرنا پڑا ہے۔
ہم ایلسٹر کروک سے اس اضافے کے ساتھ متفق ہیں کہ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ قالین کا نام ’ابراہیمی معاہدہ‘ ہے۔ لیکن ٹرمپ کا یہ قالین غیر مشروط فروخت ہو پائے گا یا نہیں؟ یہی دیکھنے والا اصل نکتہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی نیتن یاہو وی نیوز ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنی سرزمین صورتحال میں کے حوالے سے نیتن یاہو چاہتے ہیں سیاست کے سیز فائر یہ ہے کہ ہوتی ہے اہل غزہ کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
امریکا: 20 ریاستوں کا ڈونلڈ ٹرمپ کے 100 ہزار ڈالر H-1B ویزا فیس کیخلاف مقدمہ
امریکا کی 20 ریاستوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے H-1B ویزا پر 100 ہزار ڈالر فیس عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاستوں کا مؤقف ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ نئی پالیسی غیرقانونی ہے اور تعلیم، صحت اور دیگر ضروری عوامی خدمات کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہ مقدمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کی اس پالیسی کے خلاف ہے جس کے تحت ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کے لیے H-1B ویزا درخواستوں کی فیس میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا۔
امریکی ریاستوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو اس قدر بھاری فیس عائد کرنے کا اختیار حاصل نہیں اور یہ فیصلہ انتظامی طریقۂ کار اور آئینی حدود کی خلاف ورزی ہے۔ H-1B پروگرام سے متعلق فیس ہمیشہ صرف انتظامی اخراجات تک محدود رہی ہے۔
ریاستوں کا مؤقف ہے کہ اس فیصلے سے تعلیمی اداروں اور صحت کے شعبے میں پہلے سے موجود عملے کی کمی مزید سنگین ہو جائے گی۔ حالیہ تعلیمی سال کے دوران امریکا کے 74 فیصد اسکولوں کو اساتذہ کی خالی آسامیوں پر تقرری میں مشکلات کا سامنا رہا۔
واضح رہے کہ ایچ ون بی ویزا پروگرام امریکی اسپتالوں، جامعات اور سرکاری اسکولوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔
H-1B ویزا رکھنے والوں میں اساتذہ تیسرا بڑا پیشہ ور گروپ ہیں۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی اس پروگرام پر انحصار کیا جاتا ہے۔
نئی پالیسی کے تحت بھاری بھرکم فیس کا اطلاق 21 ستمبر 2025ء کے بعد دائر کی گئی درخواستوں پر کیا گیا جبکہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کچھ درخواستوں کو فیس سے مستثنیٰ بھی قرار دے سکتے ہیں۔
اس سے قبل H-1B ویزا کے لیے مجموعی سرکاری فیس 960 ڈالر سے 7 ہزار 595 ڈالر کے درمیان تھی۔
مالی سال 2024ء میں تقریباً 17 ہزار H-1B ویزے طبی اور صحت کے شعبے کے لیے جاری کیے گئے تھے جن میں سے نصف کے قریب غیر ملکی افراد معالجین اور سرجن تھے۔
امریکی انتظامیہ کی نئی پالیسی کے تحت امریکا کو 2036ء تک 86 ہزار ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
یہ مقدمہ کیلیفورنیا اور میساچوسٹس کی قیادت میں دائر کیا گیا ہے جس میں ایریزونا، کولوراڈو، کنیکٹیکٹ، ڈیلاویئر، ہوائی، الینوائے، میری لینڈ، مشی گن، مینیسوٹا، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، نیو جرسی، نیویارک، اوریگن، رہوڈ آئی لینڈ، ورمونٹ، واشنگٹن اور وسکونسن شامل ہیں۔
H-1B ویزا پروگرام امریکا میں ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کے لیے ایک اہم راستہ سمجھا جاتا ہے جس کے تحت بڑی تعداد میں پیشہ ور افراد ٹیکنالوجی، صحت اور تعلیمی تحقیق کے شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔