ترقیاتی بجٹ اور ترقیاتی کام
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے آیندہ مالی سال 2025-26 کے لیے ترقیاتی فنڈز کی حکمت عملی طے کر لی ہے۔ ترقیاتی فنڈز یا ترقیاتی بجٹ دراصل ایسا فنڈ ہوتا ہے جو کسی بھی علاقے صوبے یا ملک کے لیے مختص کرتے ہیں، پھر اس کی علاقائی تقسیم ہوتی ہے۔ اضلاع، تحصیلوں کے لیے رقوم مختص کی جاتی ہیں، پاکستان میں ترقیاتی بجٹ اتنا کم ہوتا ہے کہ تقسیم در تقسیم ہو کر مختلف شعبوں میں انتہائی ضروری کاموں کی بھی تکمیل نہیں ہو پاتی۔
ملک کا بنیادی ڈھانچہ جس کی تعمیر و ترقی کے لیے بجٹ میں ترقیاتی فنڈز کے نام سے رقوم رکھی جاتی ہیں وہ اب تک بنیادی ڈھانچے کو سیراب نہ کر سکیں۔ سڑکوں، پلوں کی تعمیر یا ان کی مرمت، ریلوے لائنوں کی تعمیر، ہوائی اڈے، بندرگاہوں کو ترقی دینا، نئے پن بجلی کے منصوبے بنانا، ان کو مکمل کرنا، میٹھے پانی کی فراہمی، نئی سیوریج لائنیں یا ان کی مرمت کے لیے رقوم خرچ کرنا، گٹروں کے اوپر ڈھکن، شہریوں کو ان کی فراہمی کو آسان بنانا، تعلیم کے لیے بجٹ اور صحت کے لیے بجٹ، زراعت و صنعت کے لیے رقوم کی فراہمی کے علاوہ فلاحی منصوبوں، روزگار کی فراہمی کے پروگرام اور بہت سی باتوں کا تعلق ترقیاتی بجٹ سے ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں اس کا انتہائی قریبی تعلق ممبران اسمبلی کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ شاید وہی باخبر ہوتے ہیں کہ ان کے علاقوں کو کن منصوبوں کی ضرورت ہے اور اکثر اوقات حکومت فنڈز بھی انھی کو مہیا کرتی ہے۔
بعض افراد اس بارے میں منفی رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ دراصل یہ ایک سیاسی فنڈ ہوتا ہے جس میں عوام کی فلاح و بہبود کے ساتھ حکومت ممبران اسمبلی کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ 7 دہائیوں سے زائد عرصے سے تعلیم اور صحت کے لیے فنڈز کا اجرا کیا جا رہا ہے لیکن ابھی بھی کہا جا رہا ہے کہ دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اسی طرح صحت کا معاملہ ہے اور اس شعبے کی صحت داؤ پر لگی ہوئی ہے، کیونکہ ہر اسپتال میں بیماروں، مریضوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں ایم بی بی ایس کے پرائیویٹ کالجز کے اخراجات کو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ 5 سالہ ڈگری پروگرام کے اخراجات ایک کروڑ روپے سے ڈیڑھ کروڑ روپے تک بنتے ہیں۔
اب ان سب باتوں کے باعث کوئی بھی ملک اپنے عوام کی بہتری کی خاطر منصوبوں کی تکمیل کے لیے قرض لیتا ہے۔ پاکستان بھی قرضوں کے بوجھ سے لدا ہوا ترقی پذیر ملک ہے۔ اب اس میں ناقص منصوبہ بندی بھی شامل ہو کر رہ گئی ہے اور انھی ترقیاتی بجٹ کے ذریعے بڑی آسانی کے ساتھ کرپشن کو فعال بنا دیا جاتا ہے۔
وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان پر ایک خاص طبقہ اپنے ہاتھ بھی صاف کرتا ہے۔ انھی وجوہات کی بنا پر ترقیاتی منصوبے بھی مکمل نہیں ہو پاتے۔ اس طرح ملک بھر میں ہزاروں منصوبے ایسے ہیں جن کی مدت تکمیل گزرنے کے بعد ان کو مکمل کیا گیا یا پھر زیر تکمیل رہ جاتے ہیں۔ مزید فنڈز کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب ترقیاتی بجٹ میں برآمدات اور پیداوار بڑھانے کے ساتھ ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔
اس کے علاوہ اگلے برس ’’ اڑان پاکستان‘‘ کے وژن کے مطابق منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔ کاروبار میں جدت اور تحقیق و ترقی کے منصوبوں کے لیے اچھی خاصی رقم رکھی جائے گی۔ ترقیاتی بجٹ میں 2025 کے علاوہ 2026-27 اور 2027-28 تک کے لیے ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ تیارکیا جائے گا۔ یہ ایک اچھی بات ہوگی اگر جون 2028 تک کے لیے تخمینے تیار کر لیے جائیں اور منصوبوں پر اس طرح رقم لگائی جائے کہ ہم آیندہ دو یا تین برسوں کے لیے اپنے محتاط اندازوں اور تخمینوں کے مطابق آگے بڑھیں اور اس کے لیے سوچ بچار کریں اس کے لیے معاشی منصوبہ بندی کر ڈالیں تو یہ ایک اچھی پیش رفت ہوگی۔
پاکستان میں ہر سال ایک بہت بڑی رقم ترقیاتی بجٹ کے نام پر مختص کی جاتی ہے، لیکن دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس ملک میں غربت میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت بڑی بیرونی سرمایہ کاری لانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ اسکول کالجز کی تعداد پہلے ہی کم ہے لیکن اب تو جو بھی اسکول،کالج ہیں ان کی عمارتیں اتنی خستہ حال ہو چکی ہیں۔ شعبہ صحت کی حالت اتنی خستہ ہے کہ مریض اسپتال جا کر اپنا مرض بھول جاتا ہے اور اسپتال کی خستہ حالی، شکستگی کو دیکھ کر ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں اتنی زیادہ وسعت نہیں ہے کہ اسپتال کی حالت کو بہتر بنایا جاسکے۔
2024-25 کے لیے ترقیاتی بجٹ950 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد میں کم کر دیا گیا۔ 2022-23 کے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کی حد میں 800 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ بڑی بڑی رقوم مختص کر دی جاتی ہیں اور خرچ بھی ہو جاتی ہیں لیکن جو فوائد عوام کو حاصل ہونے چاہئیں وہ حاصل نہیں ہوتے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ترقیاتی بجٹ کی فراہمی جاتی ہیں کی تعمیر جاتا ہے ہوتا ہے کے ساتھ کے لیے ہے اور
پڑھیں:
پنجاب کا کوئی محکمہ ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے قلعی کھول دی
لاہور:پنجاب کا ایک بھی محکمہ رواں مالی سال میں ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے کارکردگی کا پول کھول دیا۔
صوبائی اسمبلی میں پوسٹ بجٹ بحث کے لیے رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر کی فنانشل رپورٹ نے سرکاری محکموں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ، جس کے مطابق پنجاب کا ایک بھی سرکاری محکمہ رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر کے طے شدہ اہداف حاصل نہیں کرسکا ۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے تیسرے کوارٹر کے لیے مجموعی طور پر 488 ارب 43 کروڑ روپے جاری کیے ، تاہم رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر تک مجموعی طور پر 355 ارب 43 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے ۔
محکمہ زراعت کو 3 ارب روپے کا بجٹ ملا لیکن ایک ارب 21 کروڑ روپے خرچ ہوسکے ۔ اسی طرح بورڈ آف ریونیو کو 30 ارب 50 کروڑ روپے کا بجٹ ملا تاہم 4 ارب 79 کروڑ روپے خرچ کیے گیے جب کہ محکمہ مواصلات و تعمیرات کو 4 ارب 62 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن 2 ارب 91 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
علاوہ ازیں محکمہ تعلیم کو 4 ارب 62 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن2 ارب 91 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ محکمہ خزانہ کو 2 ارب 30 کروڑ روپے کا بجٹ ملے لیکن 1 ارب 33 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ محکمہ جنگلات، جنگلی حیات و ماہی پروری کو 324 ارب 24 کروڑ روپے جاری کیے گئے جبکہ 296 ارب 4 کروڑ روپے خرچ کیے ۔
اسی طرح محکمہ صحت کو ایک ارب 98 کروڑ روپے جاری ہوئے لیکن 1 ارب 26 کروڑ روپےکیے گئے ۔ محکمہ داخلہ کو 25 ارب 50 کروڑ روپے دیے گئے لیکن 2 ارب 18 کروڑ روپے ہی خرچ ہوئے جب کہ محکمہ ہاؤسنگ و پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو 1 ارب 22 کروڑ روپے ملے جبکہ 67 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔
صنعت، تجارت و سرمایہ کاری کو 1 ارب 64 کروڑ روپے جبکہ 27 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ محکمہ آبپاشی کو 19 ارب 50 کروڑ روپےملے لیکن 5 ارب 85 کروڑ روپے خرچ ہوسکے اور محکمہ لائیو اسٹاک و ڈیری ڈیولپمنٹ کو 1 ارب 97 کروڑ روپے ملے لیکن 93 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ قانون و پارلیمانی امور کو 1 ارب 41 کروڑ روپے ملے لیکن ایک ارب روپےخرچ ہوسکے ۔ محکمہ معدنیات و کان کنی کو 31 ارب روپے ملے لیکن 12 ارب 6 کروڑ روپے خرچ ہوسکے ۔ محکمہ پولیس کو 16 ارب 25 کروڑ روپے ملے لیکن 13 ارب 93 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متفرق مدات میں 24 ارب 17 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن 7 ارب 65 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے۔