پاکستانی حاجیوں کیلئے حج 50 ہزار روپے سستا ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزارت مذہبی امور کے مطابق رواں سال پاکستانی حاجیوں کیلئے حج اخراجات میں 50 ہزار روپے تک کمی ہوگئی ہے۔
وزارت مذہبی امور کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق لانگ پیکیج میں تیسری قسط کے 4 لاکھ 50 ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔وزارت مذہبی امور نے کہا ہے کہ 40 دنوں پر محیط لانگ حج پیکیج کے اخراجات 25 ہزار کی کمی کے ساتھ 10 لاکھ 50 ہزار روپے مقرر کر دیئے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 25 دنوں پر محیط شارٹ حج پیکیج کے 50 ہزار روپے کی مزید کمی کے ساتھ 11 لاکھ روپے مقرر کیے گئے ہیں، جبکہ شارٹ حج پیکیج کی تیسری قسط 5 لاکھ روپے ہوگی۔تیسری قسط نامزد بینکوں میں 6 فروری تا 14 فروری جمع کروانا لازم ہے، ہر عازم حج کو اس کی اطلاع موبائل ایپ ’پاک حج‘ پر مل جائے گی۔
بیان کے مطابق سال 2024 کے حجاج کرام کو پونے 5 ارب روپے سے زائد رقم واپس کی جارہی ہے، رقوم کی واپسی کی سات مختلف کیٹگریاں ہیں، رقم میں فرق کی وجہ منیٰ زون، مکہ رہائش، مکتب سی میں اخراجات کی کمی ہے، نیز قربانی ریفنڈ اور فضائی کرایوں میں بچت کا فائدہ بھی حجاج کرام کو دیا جارہا ہے۔
سال 2024 کے 14 فیصد (9588) حجاج کرام کو 20 ہزار روپے بینک اکاونٹس میں منتقل کئے جارہے ہیں، پانچ فیصد (3358) حجاج کرام کو 35 ہزار روپے دیئے جائیں گے، 19 فیصد (12981) حجاج کرام کو 50 ہزار روپے، 23 فیصد (16037) حجاج کرام کو 75 ہزار روپے، 26 فیصد (17828) حجاج کرام کو 90 ہزار روپے، 10 فیصد (6784) حجاج کرام کو 1 لاکھ 10 ہزار روپے، جبکہ 3 فیصد (2228) حجاج کرام کو ایک لاکھ 40 ہزار روپے متعلقہ بینک برانچ کے ذریعے واپس ملیں گے۔وزارت مذہبی امور نامزد بینکوں میں جلد ہی حاجیوں کی اضافی رقم کی منتقلی شروع کردے گی۔
مزیدپڑھیں:حدیقہ کیانی نے اپنی ہم شکل بہن متعارف کرادی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حجاج کرام کو ہزار روپے کے مطابق
پڑھیں:
اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔
دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟