جھارکھنڈ کے ہو قبیلے میں شادی کی انوکھی رسم: دلہن بارات لے کر آتی ہے اور جہیز بھی لیتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
جھارکھنڈ: بھارت کے جھارکھنڈ ریاست میں آدیواسی ’ہو‘ قبیلے کی شادیوں میں ایک نرالی اور منفرد روایت ہے، جہاں عموماً مردوں کی جگہ خواتین کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ یہاں، دولہا بارات لے کر نہیں آتا بلکہ دلہن اپنے خاندان کے ساتھ بارات لے کر آتی ہے اور شادی کے بعد وہ جہیز بھی دولہا سے ہی وصول کرتی ہے۔
’ہو‘ قبائل کے رکن ہیرا کے مطابق، ان کی ثقافت میں دولہا نہیں بلکہ دلہن کو جہیز دیا جاتا ہے اور شادی کے بعد بارات واپس چلی جاتی ہے، مگر دلہن اپنے شوہر کے گھر ہی رہتی ہے۔ لڑکے کے خاندان کو دلہن کے خاندان کو بیل، گائے اور نقد رقم دینی ہوتی ہے، اس رسم کو ’گونونگ‘ کہا جاتا ہے۔
ہیرا کا کہنا ہے کہ ان کے آبا اجداد کا ماننا تھا کہ لڑکیوں کو لڑکوں سے زیادہ عزت دی جانی چاہیے، یہی وجہ ہے کہ یہاں خواتین کو دیوی کی طرح پوجا جاتا ہے اور ان کو زندگی دینے والی طاقت تصور کیا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
بھارت؛ 22 سالہ دولھے کے ساتھ دھوکا، دلہن کی والدہ سے شادی کروادی گئی
MEERUT:بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ میں 22 سالہ دولھے کو دھوکا دے کر ان کی 21 سالہ دلہن کی والدہ سے شادی کرادی گئی۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ دولھے کے ساتھ مبینہ طور پر دھوکا دیا گیا اور ان کی 21 سالہ دلہن کی 45 سالہ والدہ سے شادی کرادی گئی۔
پولیس نے بتایا کہ میرٹھ کے علاقے براہماپوری کے رہائشی 22 سالہ محمد عظیم نے شکایت درج کرائی کہ ان کے بھائی اور بھابی نے ان کی شادی ضلع چاملی میں منتشا سے طے کی تھی۔
پولیس نے بتایا کہ شادی 31 مارچ کو ہوئی اور نکاح کے دوران نکاح خواں نے دلہن کا نام طاہرہ لیا اور جب پردہ ہٹایا گیا تو انکشاف ہوا کہ دلہن منتشا کی 45 سالہ بیوہ ماں ہیں اور انہیں دلہن ظاہر کرکے منتشا کے بجائے والدہ سے شادی کرا دی گئی۔
دولھے نے دعویٰ کیا کہ نکاح کی تقریب کے دوران 5 لاکھ بھارتی روپے کا تبادلہ ہوا تھا۔
پولیس کے پاس 17 اپریل کو درج شکایت میں عظیم نے پولیس کو بتایا کہ جب انہوں نے اس دھوکے پر احتجاج کیا تو ان کے بھائی اور بھابی نے انہیں جھوٹے ریپ کیس میں پھنسانے کی دھمکی دی۔
سی او براہماپوری سومیہ استھانا نے بتایا کہ دونوں فریقین کے درمیان راضی نامہ ہوگیا ہے، عظیم نے اپنی شکایت واپس لے لی ہے اور بتایا ہے کہ وہ اس وقت مزید کوئی قانونی چارہ جوئی جاری رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔