اسماعیلی فرقے کا 50واں روحانی پیشوا کون ہوگا اور انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسماعیلی کمیونٹی کے 49ویں امام و روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان گزشتہ رات انتقال کرگئے جس کے بعد ان کے جانشین کا اعلان آج کیا جائے گا۔
اسماعیلی جماعت کے اعلامیے کے مطابق، پرنس کریم آغا خان کا پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں انتقال ہوا، ان کی عمر 88 برس تھی اور انتقال کے وقت اہلخانہ ان کے پاس موجود تھے۔
اسماعیلی کمیونٹی کے 50ویں پیشوا کا تاج کس کے سر سجے گا اور انتخاب کیسے ہوتا ہے؟اسماعیلی امامت کا انتخاب روایت کے مطابق ہوتا ہے اور شروع سے ہی انتخاب کا یہ خاص سلسلہ جاری ہے۔ آج انتقال کرنے والے 49ویں روحانی پیشوا شاہ کریم الحسنی آغا خان چہارم کو ان کے دادا اور اس وقت کے امام سر سلطان محمد شاہ اغا خان سوم نے جانشین مقرر کیا تھا اور ان کا انتخاب اس لیے منفرد تھا کیونکہ دادا نے وصیت میں بیٹے کی جگہ پوتے کا انتخاب کیا تھا یوں شاہ کریم نے 20 سال کی عمر میں 1957 میں امامت کی کرسی سنبھال لی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پرنس رحیم آغا خان کا ہنزہ کا دورہ، سولر پاور پلانٹ منصوبے کا افتتاح
آغا خان چہارم کے انتقال کے بعد اسماعیلی کمیونٹی کے ماننے والے جانشین کے اعلان کا بے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔ اسماعیلی امامت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق نئے پیشوا کا اعلان جلد ہوگا۔
اسماعیل کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے علی احمد نے وی نیوز کو بتایا کہ جانشین کے انتخاب کا اختیار حاضر پیشوا کے پاس ہوتا ہے جو اپنی زندگی میں ہی جانشین کا انتخاب کرتا ہے اور باقاعدہ وصیت کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شاہ کریم نے بھی انتقال سے پہلے جانشین کا انتخاب کیا ہے اور ان کی وصیت کے مطابق باقاعدہ اعلان آج ہوگا۔ اسماعیلی کمیونٹی کے مطابق اگلے پیشوا کا باقاعدہ اعلان اہل خانہ، جماعتی ذمہ داران اور عہداداران کی موجودگی میں وصیت کے مطابق ہوگا۔
علی احمد نے بتایا کہ روحانی پیشوا اپنی وصیت تحریری یا ویڈیو میں بھی کرسکتا ہے۔
50ویں روحانی پیشوا کا اعلان آج ہوگاآغا کونسل کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ نئے اور 50ویں پیشوا کا اعلان آج ہوگا اور اس سلسلے میں جماعت کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ ان کے مطابق نئے پیشوا کا اعلان شام نماز کے وقت ہوگا جس کے بعد باقاعدہ نماز کی ادائیگی ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ روحانی پیشوا کے انتقال پر پوری دنیا میں اسماعیلی کمیونٹی کے ماننے والے غمزدہ ہیں اور ذمہ داران کی جانب سے خصوصی دعاؤں کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دن کے اوقات میں خصوصی طور پر آج جماعت خانے (عبادت خانے) کھول دیے گئے ہیں تاکہ عقیدت مند جماعت خانے آکر دعا کرسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر گلگت بلتستان کی پرنس رحیم آغا خان سے ملاقات، نشانِ پاکستان ملنے پر مبارکباد دی
جانشین کے انتخاب کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ روحانی پیشوا کا فرمان حرفِ آخر ہے اور تمام عقیدت مند اور ان کے ماننے والے اس پر عمل اور تسلیم کرتے ہیں۔ عہدیدار کا مزید بتانا تھا کہ جانشین کا انتخاب خاندان سے ہی کیا جاتا ہے اور انتخاب کا اختیار مکمل طور پر پیشوا کے پاس ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جو بھی فرد پیشوا کے انتخاب اور جانشین پر سوال اٹھائے گا اور ماننے سے انکار کرے گا وہ اسماعیلی عقیدے سے نکل جائے گا۔
جانشین کون ہوگا؟علی احمد اور آغا خان کونسل کے عہدہ دار دونوں نے بتایا کہ جانشین کا انتخاب روایت کے مطابق ہوگا اور یہ حاضر پیشوا کا اختیار ہے۔ اسماعیلی کمیونٹی کے مطابق روحانی پیشوا اپنی اولاد میں سے فرمانبردار اور اہل کا انتخاب کرتا ہے جس میں ذمہ داری ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ انہوں نے بتایا کہ مثال کے طور پر آغا خان سوم نے 49ویں پیشوا کا انتخاب روایت سے ہٹ کر باپ کی جگہ بیٹے کو جانشین مقرر کیا تھا، مگر اس کے باوجود سب نے ان کا یہ فیصلہ تسلیم کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پرنس کریم آغا خان کی صاحبزادی کی گلگت آمد، صحت و تعلیم کے شعبہ میں حکومت کے ساتھ ملکر کام کرنے کا اعلان
اسماعیلی عقیدے کے ماننے والوں کے مطابق نئے امام کا انتخاب 49ویں پیشوا کے تینوں بیٹوں میں سے ہی کسی کا ہوسکتا ہے۔
علی احمد نے بتایا کہ پرنس کریم آغا خان کے 3 بیٹے ہیں شہزادہ رحیم، شہزادہ حسین اور پرنس علی محمد جبکہ ایک بیٹی شہزادی زہرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ تینوں بیٹوں میں سے ایک جانشین مقرر ہوگا جبکہ اسماعیلی روایت میں آج تک کبھی بیٹی کا انتخاب نہیں ہوا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسماعیلی اگلے پیشوا پرنس کریم آغا خان جانشین روحانی پیشوا فرقے کمیونٹی کون.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسماعیلی اگلے پیشوا روحانی پیشوا کمیونٹی کون اسماعیلی کمیونٹی کے جانشین کا انتخاب پیشوا کا اعلان روحانی پیشوا پیشوا کے علی احمد کے ماننے کے مطابق ہوتا ہے اعلان ا ا اور ا گا اور ہے اور اور ان
پڑھیں:
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
کسی شاعر نے توکہا تھا کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
مگر حادثہ کا شکار ہونے والوں سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ اْنہیں تو پتہ ہی نہیں چلا ، اگر اْنہیں علم ہوتا کہ اْن کے ساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے تو وہ گھر سے نکلتے ہی نہیں جبکہ اْسی حادثے میں جو لوگ کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اْن کے لواحقین بتاتے ہیں کہ اِس حادثے میں زخمی ہونے یا جان بحق ہونے سے پہلے اْنہوں نے کتنے جتن کئے تھے اور وہ کون کون سی رکاوٹ پھلانگ کر حادثے کا حصہ بنے تھے ۔ بہرحال اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کے حادثے سے محفوظ رکھے۔
پرانے زمانے میں حادثات کی خبروں کے حصول کا واحد ذریعہ اخبارات ہوتا تھا اور عموما صفحہ اول پر ہی ٹریفک حادثات کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ آج کے برعکس ریڈیو اور ٹی وی پر ایسی خبریں نشر نہیں ہوتی تھیں۔ آج تو معمولی سے معمولی حادثے کی خبر بھی ٹی وی پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ لوگ پوری ذمہ داری اور دلچسپی کے ساتھ وہ خبریں دیکھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ خبر نشر نہ کرتے تو کیا حرج تھا ۔
چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ کوئی ٹریفک حادثہ ہونے کے بعد یہ طے کرنا مشکل ہوتا تھا کہ حادثہ کس کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، جبکہ آج یہ بات طے کرنا مشکل نہیں رہا کہ حادثے کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ کیونکہ اکثر گاڑیوں میں لگے کیمرے یہ راز کھول دیتے ہیں اور اگر کسی گاڑی میں کیمرہ نہ بھی ہو تو آس پاس کے کلوز سرکٹ کیمرے یہ راز فاش کر دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آج بھی ایسے کئی حادثات ہوتے رہتے ہیں جن کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جا سکتا یا نہیں ہو پاتا ۔( خصوصا ہمارے ہاں)
شدید دھند کے موسم میں ہمارے ہاں تو بے شک موٹرویز اور ایکسپریس ویز بند کر دی جاتی ہیں مگر کئی ممالک میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تاہم ڈرائیورز کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ، مگر پھر بھی حادثات ہو ہی جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں عموماً غلطی تو کسی ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے مگر اْس کے پیچھے آنے والے کئی ڈرائیورز اِس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اچانک بریک لگانے سے پیچھے آنے والی گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنستی چلی جاتی ہیں ۔ امریکہ کی ریاست لوزیانہ کی ہائی وے پر چند سال پہلے ایسی صورت میں چند منٹوں میں کم از کم ڈیڑھ سو سے زیادہ گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنس جانے کی وجہ سے سات افراد جان بحق ہو گئے۔
شدید سردی کے موسم میں جبکہ دھند کے باعث حدِ بصارت بہت کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں موٹرویز تو بند ہو جاتی ہیں مگر ہائی ویز پر ٹریفک کا دباؤ پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور وہاں حادثات کی شرح خاصی بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے میں زیادہ تر حادثات رات کے وقت ہوتے ہیں جب ڈرائیور کو یہ اندازہ کرنے میں غلطی لگ جاتی ہے کہ اْسے کہاں سے مڑنا ہے۔ ایسے میں وہ بعض اوقات گاڑی کو سڑک کے درمیان بنی دیوار سے ٹکرا دیتا ہے ۔ بعض اوقات اچھے خاصے خوشگوار موسم میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے تو کوئی جانورکسی بھی طرح سے موٹروے کی ’سیر و سیاحت‘ کے لیے آ جائے تو اْس سے بچنے یا اْس کو بچانے کے لیے ڈرائیور یکدم بریک لگا دیتا ہے تو اِس سے بھی اْس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں اْس میں آ کر لگنے لگتی ہیں ۔
ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کو مقدر کا لکھا ہی تصور کیا جاتا ہے، بہت پہلے جبکہ موٹرویز ، ایکسپریس ویز اور ون ویز نہیں ہوتی تھیں اور ایک ہی سڑک پر دونوں اطراف سے گاڑیاں آ جا رہی ہوتی تھیں تو سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کر زبان پر بے ساختہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہو جاتا تھا ۔ اْس وقت دوسرے شہر جانے کے لیے زیادہ تر لوگ بسوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے۔ سنگل سڑک پر اوورٹیک کرتے ہوئے یا سامنے سے آنے والی ٹریفک سے بچتے ہوئے بعض اوقات بس بے قابو ہو کر سڑک سے نیچے اْتر جاتی اور سامنے آئے کسی درخت سے ٹکرا کر رک جاتی ۔ ایسے ہی کسی حادثے میں بچ جانے والی ایک بڑھیا نے ڈرائیور سے سوال کیا ؛ "بیٹا جہاں درخت نہیں ہوتے، تم بس کو کیسے روکتے ہو؟‘‘۔
اْن دنوں میں زمینی علاقوں میں سفر پہاڑی علاقوں میں سفر کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتا تھا۔ پہاڑی راستے چونکہ تنگ اور بل کھاتے ہوئے جاتے ہیں ، اِس لیے وہاں پر گاڑی چلانے کے لیے اضافی مہارت کی ضرورت ہوتی تھی ، بلکہ آج بھی ہے۔ ایسے میں معمولی سی غفلت گاڑی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی تھی۔ پہاڑوں میں بل کھاتی سڑکوں کے کسی موڑ سے نیچے کھائی کی طرف دیکھیں تو کوئی گری ہوئی گاڑی یا بس نظر آ جاتی ہے۔
پرانے زمانے میں تو بسیں ہی گری ہوئی نظر آتی تھیں مگر اب کاریں ، خصوصاً چھوٹی اور کم طاقت والی کاریں گرتی ہیں خصوصاً جن کے ڈرائیورز نا تجربہ کار ہوتے ہیں ۔ ایسی گاڑیاں اگر ناقابل مرمت ہوں یا اْن کی ملکیت کا کوئی دعوی دار نہ ہو تو متعلقہ ادارے ایسی گاڑیاں کھائی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دیتے ہیں کہ جہاں ہر آنے جانے والے ڈرائیور کی نظر پڑے اور وہ اْس گاڑی کی حالت سے عبرت پکڑتے ہوئے محتاط ڈرائیونگ کرے مگر اِس کے باوجود بھی جو حادثات رونما ہونا ہوتے ہیں ہو کر ہی رہتے ہیں ۔
گاڑیوں کی ریس کو دنیا کا مہنگا ترین کھیل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اِس میں استعمال ہونے والی عام سی گاڑی بھی پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے کئی کروڑ روپے کی ہوتی ہے اور اْس میں بیٹھے ڈرائیور کی زندگی کی کیا قیمت ہو گی ،آپ خود اندازہ لگا لیں ۔ پھر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کروڑوں کی گاڑی دوسری مرتبہ ریس میں حصہ لینے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ ایسے میں بعض اوقات تو دہرا نقصان بھی ہو جاتا ہے کہ ایک تو کار بیکار ہو گئی اور دوسرا اعزاز بھی ہاتھ نہیں آیا ۔ منظم کار ریس میں عام طور پر نقصان کار کا ہی ہوتا ہے، ڈرائیور بہرحال محفوظ ہی رہتا ہے۔ یہ ریس شائقین کو دکھانے کے لیے عام طور پر مختلف کیمروں کی مدد سے بڑی سکرینوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔
بعض اوقات اِس کی فلم بندی میں مصروف فوٹوگرافر کسی حادثے کی صورت میں ڈرائیورز سے زیادہ زخمی ہو جاتے ہیں ۔ عام لوگ دوران ریس گاڑیوں کے اْلٹنے اور ٹوٹنے کے مناظر سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اْن کا لطف بے شک ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ریسلنگ، فٹبال ، کرکٹ یا کسی بھی میچ کے دوران شائقین کا ہوتا ہے۔ گاڑیوں کے اْلٹنے کی خبریں، فوٹو یا ویڈیوز تو اکثر لوگوں نے دیکھ رکھی ہیں اور اْس سے حسبِ ضرورت لوگ عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور لذت بھی۔ مگر اْلٹی ہوئی بس ہو یا ٹرین ، اس سے تو لوگوں نے ہمیشہ عبرت ہی حاصل کی ہے ۔
بسوں اور گاڑیوں کے بعد زیادہ تر حادثات ٹرینوں کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ ریل گاڑی کا کانٹا بدلنے والی کسی پوسٹ کے لیے انٹرویو ہو رہے تھے۔ انٹرویو لینے والے نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اْس نے کسے چننا ہے اور وہ حاضر امیدواروں میں موجود بھی نہیں تھا ۔ اْس نے ایک امیدوار سے پوچھا کہ اگر اْسے معلوم ہو جائے کہ دو گاڑیاں ایک ہی ٹریک پر آمنے سامنے سے آرہی ہیں تو تم کیا کرو گے؟
اْس نے جواب دیا کہ میں اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا کہ وہ اِس کا کوئی بندوبست کرے ۔
انٹرویو لینے والے نے کہا کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو؟
امیدوار نے کہا پھر میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا۔
اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر ۔۔
پھر میں سگنل مین سے کہوں گا کہ وہ دونوں گاڑیوں کو دور دور رْک جانے کا سگنل دے۔
اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر؟
امیدوار نے کہا میں اپنی دادی کو بلا لاؤں گا۔
تمہاری دادی وہاں کیا کرے گی؟ انٹرویو لینے والے نے حیرت سے پوچھا
اْنہیں ٹرینوں کی ٹکر خصوصاً ہیڈ کولیڑن دیکھنے کا بڑا شوق ہے ، وہ اپنا شوق پورا کر لیں گی ۔ امیدوار نے جواب دیا۔
ٹرینوں کا ہیڈ کولیڑن یا ٹیل کولیڑن پاکستان میں ہوتا ہی رہتا ہے ۔ اس طرح کے حادثات پہلے تو جنوری کے مہینے میں جب کہ دھند کا راج ہوتا ہے ، ہوا کرتے تھے مگر اب جنوری تا دسمبر کسی بھی مہینے کی کسی بھی تاریخ کو رونما ہو جاتے ہیں ۔ اِن حادثات کی وجوہات اور تفصیلات بیان کرنا چونکہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے اِس لیے آگے بڑھتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ہیڈ کولیڑن یا آمنے سامنے سے ٹکر کاروں، بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ جہازوں کی بھی ہو جاتی ہے۔
چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ ہوائی جہازکے حادثات عموماً دورانِ لینڈنگ یا ٹیک آف رن وے پر ہی رونما ہوتے تھے، پھر پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے حادثات کی خبریں آنے لگیں ۔ پھر 9/11 کو جب امریکہ کے ٹوین ٹاورز سے دو جہاز ٹکرائے تو بعد میں اونچی عمارتوں سے جہاز ٹکرانے کی خبریں بھی ملتی رہیں۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے" کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز" کے مصداق دو ایک جیسے طیارے آپس میں ٹکرانے کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں یعنی مسافر اور کمرشل طیاروں کی ٹکریں رن وے کے علاوہ کھلی فضا میں بھی ہوتی ہیں ۔
ہوائی جہاز کا سفر بے شک سب سے تیز سفر ہوتا ہے یعنی ٹرین یا بس کے ذریعے دنوں کا سفر محض چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے ۔ یوں تو فضائی سفر کی کمپنیاں دعوی کرتی ہیں کہ ہوائی سفر ہی سب سے زیادہ محفوظ سفر ہے اور اس کے لیے وہ مختلف تجربات بھی کرتی رہتی ہیں اور نئی نئی ٹیکنالوجیز بھی استعمال کرتی رہتی ہیں مگر پھر بھی حادثات جو ہونا ہوتے ہیں وہ ہو ہی جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں اوپر تلے کئی ہوائی حادثات رونما ہوئے تو لوگوں نے اِس کی ذمہ داری بھی نو منتخب صدر ٹرمپ پر ڈال دی مگر پھر دوسرے ممالک میں بھی ہوائی جہازوں کے حادثات ہوئے تو خاموشی چھا گئی کہ یہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔
چند سال قبل عید سے ایک دن پہلے پی آئی اے کی لاہور سے کراچی جانے والی پرواز کو کراچی لینڈ کرنے سے پہلے ایسا حادثہ پیش آیا کہ ایک کے سوا مسافروں اور عملے کے تمام افراد جان بحق ہوگئے۔ اِس کے علاوہ جہاز کا ملبہ آس پاس کی عمارتوں کی چھتوں پر گرنے سے الگ نقصان ہوا۔ اس حادثے کے بعد معلوم ہوا کہ قومی ائیر لاین کے بہت سے پائلٹس کی تربیت معیار کے مطابق نہیں ہے تو وزیراعظم نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا جس سے قومی ائیر لائن کی مقبولیت کا گراف خاصا گر گیا ، بہت سے ممالک نے تو قومی ائیر لائن کا داخلہ ہی بند کر دیا تھا۔ اْس وقت کی اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ وزیراعظم کے اس اقدام سے پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
فضائی حادثات کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل بن سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجوہات میں تو مماثلت ہو سکتی ہے مگر فضائی حادثات کی صورت میں ہمیشہ نئی صورت حال ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں کینیڈا ٹورنٹوکے پیرسون ائیر پورٹ پر ڈیلٹا ائیر کاطیارہ شدید سردی کے موسم میں لینڈ کرنے کے بعد اِس طرح اْلٹ گیا کہ اِس سے پہلے کسی طیارے کو اِس حالت میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اِس حادثے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر طیارہ ناصرف ناکارہ ہو گیا بلکہ کئی دنوں تک اْس کا ملبہ ائیر پورٹ پر ایسے پڑا رہا کہ حادثہ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہوا بلکہ کسی انتہائی پسماندہ ملک میں ہوا ہے۔ جہاز ساز کمپنیاں ایسے حادثات کی وجوہات کو عوام سے چھپانے میں عموماً کامیاب ہو ہی جاتی ہیں ، ممکن ہے اِس مرتبہ بھی اْنہیں کامیابی ہو جائے ۔