چین کرغزستان تعلقات جامع اسٹریٹجک شراکت داری کی نئی بلندی پر پہنچ گئے ہیں، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
چین کرغزستان تعلقات جامع اسٹریٹجک شراکت داری کی نئی بلندی پر پہنچ گئے ہیں، چینی صدر WhatsAppFacebookTwitter 0 5 February, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چینی صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں چین کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے کرغزستان کے صدر صدیر جاپاروف کے ساتھ بات چیت کی۔بدھ کے روز شی جن پھنگ نے کہا کہ حالیہ برسوں میں چین کرغزستان تعلقات نئے دور میں جامع اسٹریٹجک شراکت داری کی نئی بلندی پر پہنچ گئے ہیں۔ فریقین کے درمیان باہمی سیاسی اعتماد مزید مضبوط ہوا ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون کے نئے ثمرات سامنے آئے ہیں۔ چین کرغزستان کی حمایت کرتا ہے کہ وہ اپنے قومی حالات کے مطابق ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور چین کرغزستان کے ساتھ ہمہ جہت باہمی فائدہ مند تعاون کو آگے بڑھانے اور دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لئے مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے ۔
شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین کرغزستان کی مزید اعلیٰ معیار کی اشیاء درآمد کرنے کا خواہاں ہے اور کرغزستان میں سرمایہ کاری کے لیے چینی صنعتی و کاروباری اداروں کی حمایت کرتا ہے۔ چین چین اور وسطی ایشیا کے درمیان تعاون میکانزم کو آگے بڑھانے ، شنگھائی تعاون تنظیم کو مضبوط بنانے اور اقوام متحدہ کی مرکزیت پر مبنی بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے کرغزستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ جاپاروف نے صدر شی جن پھنگ اور چینی عوام کے لئے چینی نئے سال کی نیک تمناوں کا اظہار کیا اور چین میں منعقد ہونے والے نویں ایشیائی سرمائی کھیلوں کی کامیابی کے لئے نیک خواہشات پیش کیں۔
انہوں نے کہا کہ چین کرغزستان کا قابل اعتماد دوست اور شراکت دار ہے۔ کرغزستان تائیوان، سنکیانگ اور ہانگ کانگ سے متعلق امور پر چین کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔ کرغزستان کرغزستان چین ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو مزید آگے بڑھانے، اعلی معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کی تعمیر، چین-کرغزستان-ازبکستان ریلوے کی تعمیر نیز صنعت، سرمایہ کاری، تجارت، نقل و حمل، ای کامرس اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لئے چین کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے.
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چین کرغزستان
پڑھیں:
پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ
اسلام ٹائمز: ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جسکے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی
پاکستان اور ایران کے بلوچستان و سیستان کے سرحدی علاقے طویل عرصے سے دہشتگردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں دونوں ممالک کو یکساں نوعیت کے خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، ان کے درمیان دہشتگردی کیخلاف مؤثر تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی واضح کمی ہے۔ باہمی اعتماد، معلومات کا تبادلہ اور عملی اشتراک جیسے بنیادی تقاضے اب تک مکمل طور پر قائم نہیں ہوسکے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، لیکن ان ملاقاتوں کے نتائج دیرپا اور مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب وقتاً فوقتاً ناخوشگوار اور خونریز واقعات جنم لیتے ہیں، جنہیں رسمی بیانات سے نہیں بلکہ سنجیدہ، مربوط اور عملی اقدامات کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان کیساتھ اس کے تعلقات میں بتدریج سرد مہری پیدا ہوئی۔ اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ایران کا امریکہ مخالف مؤقف تھا، جبکہ پاکستان اُس وقت افغان جہاد کے تناظر میں امریکی بلاک کا فعال رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس دور میں مکمل طور پر امریکی اثر و نفوذ کے تحت آچکی تھی، جبکہ ایران میں انقلاب کے بعد شدید امریکہ دشمنی غالب آچکی تھی۔ یہ نظریاتی تفاوت دونوں ممالک کے درمیان فاصلے کا باعث بنا۔ عرب ممالک نے بھی انقلاب اسلامی کو شک کی نظر سے دیکھا اور چونکہ پاکستان کے ان سے تاریخی طور پر نیازمندانہ تعلقات تھے، اس لیے ان کے تحفظات نے بھی ایران سے روابط پر منفی اثر ڈالا۔
ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ آج بھی ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کئی داخلی و خارجی عوامل حساسیت اور پیچیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
علاقائی سیاست، بین الاقوامی دباؤ اور بعض مذہبی گروہوں کا کردار ان رکاوٹوں کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ اگرچہ دونوں طرف سے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے، لیکن کبھی خارجی دباؤ، کبھی داخلی پالیسیاں اور کبھی سکیورٹی خدشات اس راہ میں حائل رہتے ہیں۔ ماضی کے داخلی و خارجی اسباب آج بھی مؤثر ہیں، تاہم چند نئی پیچیدگیاں بھی جنم لے چکی ہیں۔ عرب ممالک، امریکہ اور بعض عالمی معاہدات کی نوعیت پاکستان پر مستقل دباؤ ڈالتی ہے، جبکہ ایران پر عائد عالمی پابندیاں دونوں ممالک کے تعلقات کو محدود رکھتی ہیں۔ داخلی طور پر مذہبی فرقہ واریت ایک مستقل رکاوٹ ہے، جس کے باعث پاکستان کی شیعہ آبادی، خصوصاً پاراچنار جیسے علاقوں میں، غیر ضروری ریاستی حساسیت کا سامنا کرتی ہے۔
بعض مذہبی و سیاسی گروہ دانستہ طور پر ان علاقوں کے مقامی مسائل کو ایران سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ریاستی اداروں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ نتیجتاً مقامی آبادی محاصروں، نقل و حرکت کی بندش اور دیگر مشکلات کا شکار بنتی ہے، حالانکہ ان علاقوں میں بیشتر مسائل کی بنیاد زمینی تنازعات پر ہے اور وہاں شیعہ سنی ہم آہنگی کے باعث اکثر فرقہ وارانہ مسائل حل ہوچکے ہیں۔ ریاستی حساسیت کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پالیسی ساز زمینی حقائق اور مقامی مصالحتی کوششوں کو بنیاد بنائیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ موجود نہیں۔ اگر دونوں ممالک چاہیں تو دہشت گردی جیسے مشترکہ خطرات کے خلاف ایک ہم آہنگ، مربوط اور مؤثر پالیسی ترتیب دے سکتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں سرگرم شدت پسند گروہ دونوں جانب بدامنی پھیلانے کیلئے ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔
ایرانی بلوچستان میں سکیورٹی کیلئے سب سے زیادہ وسائل صرف ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان کا بلوچستان سیاسی اور ریاستی بحرانوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایک طرف بدامنی کا مطلب لازماً دوسری طرف اس کا اثر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان مشترکہ فورس، انٹیلی جنس نظام اور سکیورٹی معاہدات کے ذریعے سرحدی امن کیلئے مکمل اشتراکِ عمل کریں اور اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے باشعور طبقات، پالیسی ساز ادارے اور سیاسی قیادت ان تلخ تجربات کو دشمنی کا ذریعہ بنانے کے بجائے مفاہمت اور تعاون کا نقطۂ آغاز بنائیں۔ دو طرفہ مفاہمت نہ صرف علاقائی امن کی بنیاد رکھ سکتی ہے، بلکہ اسلامی دنیا میں وحدت اور باہمی احترام کی ایک قابلِ تقلید مثال بھی قائم کرسکتی ہے۔ صحافی : تصور حسین شہزاد