ٹرمپ کے غزہ پر کنٹرول کے عزائم کا سن کر دھچکا لگا؛ آسٹریلیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر کنٹرول کے اعلان پر آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز کا ردعمل سامنے آگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلوی وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر قبضے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے دھچکا لگا ہے۔
آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ ایسی کسی مہم جوئی کی حمایت نہیں کریں گے جو دو ریاستی حل کے منافی ہو۔
یہ خبر بھی پڑھیں : ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے منصوبے پر حماس کا ردعمل آگیا
وزیراعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ شروع دن سے آسٹریلیا کی غزہ سے متعلق پالیسی واضح ہے اور وہ دو ریاستی حل ہے۔ آج بھی یہی پالیسی ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ واشنگٹن میں ملاقات کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ میں امریکا کی طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھ رہا ہوں۔
یہ خبر پڑھیں : امریکی صدر کا غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان، ہم اس کے مالک ہوں گے، ٹرمپ
نومنتخب امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ مجھے دیگر رہنماؤں کا فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنے کا آئیڈیا پسند آیا ہے، اپنے اس منصوبے کے بعد دنیا بھر سے لوگوں کو غزہ میں آباد ہوتے دیکھ رہا ہوں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹرمپ کے
پڑھیں:
ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔
ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔
افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر احتجاج:
ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔