ای کامرس اور آن لائن کا عروج
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اگر ہمیں کوئی چیز خریدنی ہوتی ہے تو ہم کسی مارکیٹ کی دکان سے خرید لیتے ہیں لیکن اگر وہی چیز ہم آن لائن گھر بیٹھے منگوائیں تو اسے ای کامرس کہتے ہیں۔ ایمازون، علی بابا اور دراز جیسے پلیٹ فارم جہاں بڑے پیمانے پر آن لائن کاروبار ہوتا ہے ایک حالیہ سروے کے مطابق ایمازون ہر ماہ بے پناہ آمدنی حاصل کرتا ہے۔ 2024 کی تیسری سہ ماہی میں، ایمازون کی کل آمدنی تقریباً 158.
ای کامرس کاروبار اور صارفین دونوں کے لیے بے شمار فوائد فراہم کرتا ہے۔ کاروباری اداروں کے لیے، یہ نہ صرف عالمی مارکیٹ تک وسیع رسائی فراہم کرتا ہے بلکہ 24/7 فروخت کی سہولت بھی پیش کرتا ہے جو روایتی کاروباری اوقات سے آگے بڑھتا ہے۔ صارفین کے لیے، ای کامرس آرام دہ اور اکثر معقول قیمتوں کی پیشکش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ یہ مشقت، اسٹورز اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی ضرورت کو کم کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی سہولت صارفین کہیں بھی کسی بھی موقع پر کوئی چیز خرید سکتے ہیں جیسے کہ اکثر ہم دراز پہ کوئی پروڈکٹ دیکھ رہے ہوتے ہیں اگر وہ پروڈکٹ پسند آجائے تو اسی وقت آرڈر کردیتے ہیں یا پھر ہم کو اس کو محفوظ کرلیتے ہیں کہ بعد میں خرید لیں اس کے علاوہ طرح طرح کی ورائٹی دستیاب ہوتی ہیں، اس میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عام اسٹور سے زیادہ مصنوعات ہوتی ہیں اس کے علاوہ جو چھوٹے کاروبار والے بھی اپنے کاروبار کو ای کامرس پلیٹ فارم پر منتقل کرسکتے ہیں اور یہ ان کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوگا نہ صرف ان کے لیے بلکہ صارفین کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوگا۔
جس طرح ای کامرس کا رحجان بڑھ رہا ہے تو چھوٹے اسٹور والوں کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں کیونکہ اکثر لوگ چھوٹے اسٹور کے پاس جانے سے کتراتے ہیں اکثر صارفین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں گھر بیٹھے مصنوعات مل جائیں۔ اور ان سب میں سے بڑا نقصان ڈیٹا کی پراوئیسی ہے ای کامرس پلیٹ فارم صارفین کی ذاتی معلومات حاصل کرتی ہیں جو کہ ایک بڑا چیلنج ہے صارفین کے لیے یہ بھی ایک بڑے خطرے کی بات ہے کیونکہ جب تک وہ اپنی ذاتی معلومات کسی ای کامرس پلیٹ فارم پر نہیں دیں گے تو ان کی پسند کی گئی مصنوعات ان تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس علاوہ ای کامرس میں بھی انوینٹری، مینجمنٹ اور شپنگ کے مسائل کا سامنا بھی ہوتا ہے کیونکہ کسی مصنوعات کی پیکنگ کے لیے کئی چیزیں درکار ہوتی ہیں جیسے کوئی کارخانہ یا کوئی گودام اس کے علاوہ پورا اسٹاف پھر شپنگ کے ذریعے صارفین تک پہنچانا تو اس میں قیمتیں بڑھتی ہیں جو کہ صارفین کے لیے شکایات اور اخراجات میں اضافہ کرتی ہیں پھر ہم ایک اسٹوز سے کوئی مصنوعات خریدتے ہیں تو اس میں صارفین کے مسائل کو سمجھانا اور براہ راست تعلق قائم ہوتا ہے لیکن اس کے بہ نسبت ای کامرس میں ایسا نہیں ہوسکتا صارفین کو سمجھانا اور پھر ان سے تعلق بنانا یہ بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے اس کے علاوہ ای کامرس میں ریٹرن اور واپسی کی مشکلات بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے صارفین کو اگر وہ مصنوعات پسند نہ آجائے تو وہ ہر حال میں اس کو اپنے پاس رکھنی پڑتی ہے اس کے علاوہ ای کامرس پلیٹ فارم جب بھی کوئی مصنوعات دیکھتے ہیں تو اس کی ایک تصویر ہوتی ہے اور اس کی کچھ تفصیلات ہوتی ہیں دیکھنے میں کچھ ہوتا لیکن جب وہ مصنوعات صارفین تک پہنچتی ہے ویسا نہیں ہوتا اکثر ایسے واقعات ہوتے ہیں صارفین کی شکایات کا سبب بنتے ہیں اس لیے اکثر صارفین کسی مارکیٹ کا رخ کرکے اس مصنوعات کو اچھی طرح دیکھ کے خرید لیتے ہیں تو یہ بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
موجودہ دور ہمارے سامنے ہے جس طرح ٹیکنالوجی آرہی ہے اس میں ای کامرس کا مستقبل ہے کیونکہ اب آدھا کاروبار آن لائن ہی ہورہا ہے اس کا مستقبل تو ہی ہے لیکن صارفین کو مطمئن کرنا ان کا اعتماد حاصل کرنا یہ ایک مشکل چیلنج ہے کیونکہ صارفین کی شکایت یہ ہوتی ہے ان کا ڈیٹا لیک نہ ہوجائے سیکورٹی کے حوالے صارفین کو بہت مشکلات ہوتی ہیں پھر ان کی جو مصنوعات ہوتی ہے وہ دیے گئے وقت تک ان کو پہنچتی ہے یا نہیں پھر شپنگ کا خرچہ، اگر ان کی مصنوعات میں کوئی خرابی ہوتی ہے یہ بھی صارفین کے ایک مشکل ہوتی ہے بہرحال آج کے دور کو ہم سامنے رکھیں جہاں فائدے ہیں وہیں نقصانات بھی ہیں جو ای کامرس کا کاروبار کرنا چاہتا ہے اس پہ دارو مدار ہے وہ اپنے صارفین کو کیسے مطمئن کرسکتا ہے کیسے ان کا اعتماد حاصل کرسکتا ہے ان کے فائدے کے لیے کیا کچھ کرسکتا ہے۔ اگر کوئی ای کامرس کاروبار کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ ایمازون، علی بابا اور دراز جیسے اداروں سے سیکھے کس طرح وہ آن لائن کاروبار کررہا ہے کس طرح ان کی قیمتوں کو اور بازار کی قیمتوں میں کتنا فرق ہے ان کی مصنوعات میں اور باہر کی مصنوعات میں کتنا فرق ہے وہ اپنے صارفین کو مطمئن کرپاتے ہیں یا نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کامرس پلیٹ فارم صارفین کے لیے اس کے علاوہ کامرس کا صارفین کی صارفین کو ہے کیونکہ ہوتی ہیں ہے اس کے ا ن لائن کرتا ہے بھی ایک ہوتی ہے یہ بھی
پڑھیں:
نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں
اسلام ٹائمز: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ صاحب! ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ بچی ہمیں یہ سمجھا گئی ہے کہ فرقہ پرست مُلاّں یہ شعور نہیں رکھتے کہ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ بچیوں کے جنازوں پر فرقوں کی سیاست نہیں کی جاتی۔ بچیاں، محبت کا وہ معصوم روپ ہوتی ہیں، جو کسی ایک مسلک، قبیلے یا قوم کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ وہ کائنات کے حُسن کی روشن تجلی ہیں۔ انکے قہقہے، انکی شرارتیں، انکے ننھے ہاتھوں کی معصوم دعائیں۔۔۔ بیٹیاں خدا کیجانب سے انسانوں کو دی گئی وہ رحمتیں ہیں، جنہیں کوئی دیوار، کوئی فرقہ، کوئی جغرافیہ محدود نہیں کرسکتا۔ جب ایک بچی فوت ہو جاتی ہے، تو گویا بہاروں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور جب ایک معصوم بچی کے جنازے پر کوئی مولوی فساد کھڑا کرے تو یہ صرف ایک بدنصیب خاندان کا سانحہ نہیں ہوتا بلکہ ایسا فساد پورے معاشرے کے ماتھے پر شرمندگی کی ایک نمایاں انمٹ سلوٹ بن جاتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
دریڑی پلانی، نکیال گاؤں میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ سوشل میڈیا کے مطابق ایک حادثے یا ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والے مولانا چوہدری ساجد رحمانی کا کہنا ہے کہ پہلی ٹکر میں ہم لوگ معمولی زخمی ہوئے، لیکن ڈرائیور نے دوبارہ گاڑی ریورس کرکے مجھے، میری بیوی اور بچی پر گاڑی چڑھا دی، جس سے ہم شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے حوالے سے شیعہ علماء کونسل آزاد کشمیر کے وفد نے ڈپٹی کمشنر کوٹلی، میجر (ر) ناصر رفیق اور ایس ایس پی کوٹلی، عدیل لنگڑالوی سے اہم ملاقات کی ہے۔ شنید ہے کہ جس گاڑی نے موٹر سائیکل پر سوار مولانا کو ٹکر ماری، وہ نکیال کے ہی کسی شخص کی ملکیت ہے۔ دمِ تحریر مولانا چوہدری ساجد رحمانی کی بیوی اور بچی اس دارِ فانی سے کوچ کرچکی ہیں۔
یہ واقعہ فرقہ وارانہ منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ریاستی اداروں کو کرنا چاہیئے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر میں مقامی سطح پر نہ فرقہ واریت کے نیٹ ورکس موجود ہیں اور نہ ہی مذہبی ٹارگٹ کلنگ کے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ رونماء ہوتا ہے تو اُس کے تانے بانے آزاد کشمیر سے باہر کے دینی مدارس یا عسکری تنظیموں سے جا ملتے ہیں۔ اس سے قبل عباس پور اور مظفرآباد میں بھی ایسا بہت کچھ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں پر یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا مشترکہ اور ازلی دشمن ہندوستان ہے۔ ماضی میں انڈین ایجنسی را کی گود میں بیٹھنے والے ہمارے نام نہاد مجاہد بھائیوں نے جس بے دردی سے مساجد، امام بارگاہوں، اولیائے کرام کے مزارات، پبلک مقامات، صحافیوں، شاعروں، ڈاکٹروں اور پولیس و فوج کے اہلکاروں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے، اُسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس بربریت کا براہِ راست فائدہ ہندوستان کو پہنچا اور بارڈر کے دونوں طرف کے کشمیری یہ نعرہ لگانا ہی بھول گئے کہ "کشمیر بنے گا پاکستان۔"
لوگوں کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ یہ نام نہاد "مجاہدین" اپنے جرگے بٹھا کر اور خود ساختہ عدالتیں لگا کر ہمیں درختوں سے لٹکا کر گولیاں ماریں گے اور ہماری خواتین و بیٹیوں کو کنیز بنا لیں گے۔ سانحہ اے پی ایس، سانحہ کوہستان، سانحہ بابوسر۔۔۔ یہ سب سانحات گواہ ہیں کہ ایسے عناصر انسانیت سے عاری ہوتے ہیں اور ان کے لیے نہ کوئی فرقہ اہم ہوتا ہے، نہ قوم، نہ عمر، نہ جنس، نہ بچہ اور نہ بچی۔۔۔۔ آزاد کشمیر جو اولیائے کرام کی سرزمین ہے، وہاں مولانا چوہدری ساجد رحمانی کی معصوم بچی کے جنازے کے موقع پر دھنگا فساد کرانے کی کوشش کوئی معمولی بات نہیں۔ نکیال سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ شاہ نواز علی شیر، جو کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کے ممبر اور بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل بھی ہیں، انہوں نے اپنے کالم میں بالکل درست کہا ہے کہ "حکامِ بالا! اگر آج آپ خاموش رہے، تو کل یہ آگ کسی تھانے، مدرسے، مسجد، اسکول یا بازار تک پہنچ جائے گی۔ یہ محض ایک جنازے پر جھگڑا نہیں تھا؛ یہ معاشرے کے ضمیر کی موت، قانون کی بے بسی اور انسانیت کے چہرے پر ایک سیاہ داغ تھا۔
محترم کالم نگار کے مطابق، مولانا چوہدری ساجد رحمانی کا مسلک شیعہ ہے۔ موقع پر موجود ویڈیوز اور عینی شاہدین کے مطابق، اہلِ تشیع نے ہمیشہ کی طرح واضح کیا کہ جنازے دو ہی ہوں گے؛ ایک اہلِ سنت کے مطابق اور دوسرا اہلِ تشیع کے مطابق۔ اس وضاحت کے باوجود ایک مولوی صاحب نے اہلِ سنت کے عمومی اخلاق کے برعکس، یہ اعلان کیا کہ "نہیں، جنازہ تو صرف ایک ہی ہوگا اور وہ بھی صرف اہلِ سنت طریقے کے مطابق۔ ہم دوسرا جنازہ نہیں پڑھنے دیں گے۔" انسان کے اندر سب سے قیمتی چیز اس کا اخلاق ہے اور یہی اخلاق اس کی شناخت اور مقام کی گواہی دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ رویہ اہلِ سنت کا اخلاق نہیں ہوسکتا، کیونکہ آزاد کشمیر میں اہلِ سنت کے اندر مدبر، تعلیم یافتہ اور روشن فکر شخصیات کی کمی نہیں۔
اس موقع پر بچی کے ورثاء نے کہا کہ اگر ایک ہی جنازہ ہونا ہے، تو پھر ہمیں اپنا شیعہ جنازہ پڑھانے دیں اور اہلِ سنت حضرات ہماری چوتھی رکعت کے اختتام پر اپنی نماز مکمل کرلیں۔ اس پر وہی مولوی صاحب چِلانے لگے کہ صرف اہلِ سنت کی چار تکبیریں "اصلی" ہیں، اس لیے صرف وہی جنازہ پڑھائیں گے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ اخلاق اہلِ سنت کا نہیں۔ لہٰذا اس مولوی صاحب کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیئے کہ کہیں وہ اس حسّاس سرحدی علاقے میں بھارتی انٹیلیجنس "را" کے لیے تو کام نہیں کر رہے؟ ان دنوں بلوچستان اور افغان بارڈر سمیت پورے پاکستان میں را کی سرگرمیوں اور ایجنٹوں کی موجودگی میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ ایسے میں نکیال جیسے حساس سرحدی علاقے میں ایسی حرکت کسی دشمن ملک کے ایجنڈے کا حصہ بھی ہوسکتی ہے۔
بہرحال عوامِ علاقہ کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ جب ہم انسانی احترام اور حب ُّ الوطنی کو فراموش کر دیتے ہیں، تو پھر ہم جنگ انسانیت اور اپنے ہی وطن کے خلاف لڑ رہے ہوتے ہیں، نہ کہ کسی مذہب یا فرقے کے خلاف۔ نکیال کے ایڈوکیٹ نے بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر کے خلاف فوری، غیرجانبدار اور مؤثر قانونی کارروائی کی جائے۔ جنازوں اور لاشوں کی بے حرمتی کو سختی سے روکا جائے۔ تحصیل و ضلع کی سطح پر بین المسالک ہم آہنگی کے لیے نمائندہ کمیٹی تشکیل دی جائے۔ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے SOPs مرتب کیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو تحصیل و ضلعی سطح پر جمع کرکے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے، جس میں واضح کیا جائے کہ معصوموں کے جنازے، دعائیں اور تدفین کسی مسلک سے بالاتر ہیں۔
شاہ نواز علی شیر کا یہ جملہ ہر باشعور انسان کے دل کو چھو لیتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا ماحول چھوڑنا ہے، جہاں جنازے رشتوں کو توڑیں نہیں، جوڑیں۔ جہاں مذہب دلوں کو نرم کرے، سخت نہ کرے۔ جہاں تکبیر کی تعداد نہیں، دعا کی تاثیر دیکھی جائے۔ وہ اپنے سماج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم سب کو یہ یاد دلانا ہوگا کہ اسلام اخلاص کا نام ہے، نمازِ جنازہ ایصالِ ثواب اور دعا کا عمل ہے، نہ کہ فرقوں کی برتری کا میدان۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ کے اس جملے کے بعد میرے لکھنے کو کچھ نہیں بچتا کہ ان فتنہ گروں کے بیچ وہ معصوم بچی صرف ایک کفن چاہتی تھی، ایک دعا اور ایک پُرامن رخصتی۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ صاحب! ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ بچی ہمیں یہ سمجھا گئی ہے کہ فرقہ پرست مُلاّں یہ شعور نہیں رکھتے کہ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
بچیوں کے جنازوں پر فرقوں کی سیاست نہیں کی جاتی۔ بچیاں، محبت کا وہ معصوم روپ ہوتی ہیں، جو کسی ایک مسلک، قبیلے یا قوم کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ وہ کائنات کے حُسن کی روشن تجلی ہیں۔ ان کے قہقہے، ان کی شرارتیں، ان کے ننھے ہاتھوں کی معصوم دعائیں۔۔۔بیٹیاں خدا کی جانب سے انسانوں کو دی گئی وہ رحمتیں ہیں، جنہیں کوئی دیوار، کوئی فرقہ، کوئی جغرافیہ محدود نہیں کرسکتا۔ جب ایک بچی فوت ہو جاتی ہے، تو گویا بہاروں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور جب ایک معصوم بچی کے جنازے پر کوئی مولوی فساد کھڑا کرے تو یہ صرف ایک بدنصیب خاندان کا سانحہ نہیں ہوتا بلکہ ایسا فساد پورے معاشرے کے ماتھے پر شرمندگی کی ایک نمایاں انمٹ سلوٹ بن جاتا ہے۔