ڈکی بھائی کا رجب بٹ اور ندیم نانی والا سے علیحدگی پر حیران کن انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
پاکستانی یوٹیوبر ڈکی بھائی (سعد الرحمان) نے رجب بٹ اور ندیم نانی والا کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کی اصل وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔
ڈکی بھائی، جو 8 ملین سبسکرائبرز کے مالک ہیں، حال ہی میں طلحہ ریویوز اور شام ادریس کے ساتھ تنازعات میں الجھے رہے ہیں۔ شام ادریس نے ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ ڈکی بھائی چھوٹے یوٹیوبرز کو دھمکاتے ہیں اور ان پر زبانی و جسمانی حملے کرتے ہیں۔
ادریس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انہوں نے ڈکی بھائی کا فیس بک پیج بند کروانے میں کردار ادا کیا۔ ان الزامات کے بعد، ڈکی بھائی کے سبسکرائبرز تیزی سے کم ہونا شروع ہو گئے، اور ایک ہفتے میں وہ 8.
ایک پوڈکاسٹ میں، ڈکی بھائی نے انکشاف کیا کہ راجب بٹ نے طلحہ ریویوز تنازع کے دوران ان کا مذاق اڑایا تھا، جس کی وجہ سے ان کے تعلقات خراب ہو گئے۔
ندیم نانی والا کے حوالے سے، ڈکی نے بتایا کہ ان کی دوستی اس وقت شروع ہوئی جب ندیم نے ان سے ایک گاڑی خریدی اور ڈکی کے وی لاگز میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ تاہم، تنازعات کے بعد، ندیم نے ڈکی بھائی کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیں اور نجی وائس نوٹسز شیئر کیے، جس سے تعلقات مزید بگڑ گئے۔
ڈکی بھائی نے دعویٰ کیا کہ ندیم نانی والا نے ایک مشترکہ دوست سے کہا: "ڈکی تو اب ختم ہو گیا ہے"، جس کے بعد ڈکی نے خود کو ان دونوں سے الگ کر لیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ندیم نانی والا ڈکی بھائی کیا کہ
پڑھیں:
چھوٹے چھوٹے باپ
’’ میرا انام… میرا نام لماں ہے جی! ماں باپ نے تو نام محمد اسلم رکھا تھا مگر انھوں نے خود ہی اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ میری یا میرے نام کی عزت کرتے تو دنیا میں اورکون ایسا کرتا۔ ہم دو بھائی ہیں، چھوٹے چھوٹے سے ہی تھے کہ اماں کو ہمار ے ’’ابے‘‘ نے جوئے میں ہار دیا۔
ہم نے اس سے پہلے بھی کہاں زندگی میں سکھ کا کوئی ساہ لیا تھا، ہمارے ابا نے چند مہینوں کے بعد ہمارے لیے ایک نئی اماں ڈھونڈ لی ۔ نئی اماں کو دیکھ کر ہمیں اس وقت اتنی ہی خوشی ہوئی تھی جتنی کسی دودھ پیتے بچے کو دودھ ملنے پر ہوتی ہے۔
ابا خود تو حقہ، سگریٹ اور نشہ کر کے پڑا رہتا اور چار پیسے جڑ جاتے تو جوا ء کھیل لیتا ، ہمیں تو یہ بھی کبھی علم نہیں ہوا کہ ابا کام کیا کرتا تھا۔ پہلی والی اماں کے جانے سے ہمیں سوکھی روٹی ملنا بھی مشکل ہو گئی تھی، کبھی ہم بھوکے سو جاتے تھے تو کبھی ابا کہیں سے کچھ کھانے کو لے آتا تھا اور کبھی میں بھوک سے بے تاب ہو کر محلے کے ہی گھروں سے مانگ تانگ کر کھانے کو کچھ لے آتا۔
نئی اماں کے آنے پر بھی ہمارے حالات میں کوئی فرق نہ پڑا کہ وہ ہمیں کیا پکا کردیتی، جب گھر میں کچھ تھا ہی نہیں، نئی اماں بھی ان حالات سے گھبرا کر بھاگ نکلی، یوں بھی اسے جلد ہی علم ہو گیا تھا کہ غربت کے علاوہ اسے اس گھر سے کچھ ملنے والا نہ تھا۔
کبھی کبھار مسجد چلا جاتا کہ وہاں سے کچھ کھانے کو کچھ مل جائے، مولوی صاحب ڈانٹ پھٹکار کے بعد وہ بچا کھچا کھانا یوں دے دیتے جیسے کہ میرے منہ پر مار رہے ہوں۔
انھیں تو علم تھا کہ اس سے اگلے وقت کا کھانا بھی انھیں تازہ کسی نہ کسی گھر سے مل جائے گا، بہترین بھی اور باقی گھر والوں کے کھانے سے پہلے بھی مگر ہم جیسے لاوارث بچوں کے نصیب میں ایسے ہی کھانا ملنا رکھا تھا، ہر کسی کی ڈانٹ پھٹکار کھا کر۔
محلے والوں کو ابا کی حرکتوں کی وجہ سے ہم پر ترس بھی آتا تھا مگر وہ کیا کرتے۔ مولوی صاحب ہر بار گھسیٹ کر بٹھا کر پہلے تو قرآن پاک کا سبق دیتے، اس پر سیکڑوں نصیحتیں کرتے اور کہتے کہ مرد کے بچے ہو، مرد ہو، مانگ تانگ کر کھانے کے بجائے اپنے زور بازو سے کچھ کما کر کھاؤ۔
ایک کم عمر لڑکے کو وہ اچھی خاصی دانٹ پلا دیتے، میری انا کو اس سے بڑی چوٹ لگتی تھی۔ آج کل تو کسی چھوٹے سے بچے کو بھی ڈانٹا نہیں جاسکتا، اپنے بچے کو بھی ڈانٹتے ہوئے والدین ڈرتے ہیں، ہمیں تو ہر کوئی ڈانٹ دیتا تھا-
میں نے اسکول سے واپس آ کر محلے کے مختلف گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا، کسی کو فلٹر سے پانی کی بوتلیں بھر کر لا دیتا،کسی کو سودا سلف لادیتا، کسی باجی کے دوپٹے کھڑے ہو کر رنگساز سے رنگوا کر لاتا، کسی کے گھر کے صحن میں جھاڑو لگا دیتا اور کسی کے گھر کے باہر کی گلی کی صفائی کردیتا، کسی کی بکری کے لیے چارہ لے آتا تو کسی کے لیے حقہ گرم کردیتا۔
میں ہر کام پوری دیانتداری اور تندہی سے کرتاتھا۔ سردیاں اور گرمیاں اپنی پروا کیے بغیرمیں کام کرتا تھا۔ اس کے عوض کوئی مجھے روپیہ دو روپیہ دینا چاہتا تو میں انھیں کہتا کہ پیسوں کے بجائے پکاہوا کھانا دے دیں۔
صرف اتنا ہو جاتا کہ اپنا اور اپنے بھائی کا پیٹ بھر سکوں، بھائی تو و ہ مجھے لگتا ہی نہیں تھا، میرے بیٹے جیسا ہی تھا کیونکہ مجھے اس کی فکر ہوتی تھی، اس کی پڑھائی کی، اس کے کھانے کی۔
لوگ مجھ سے ذرا مشکل کام بھی کروانے لگے، بینکوں کی قطاروں میں جا کر دن بھر کھڑے ہو کر ان کے بل جمع کرواتا، ان کے گیس کے سلنڈر بھروا کر اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا کر لاتا۔
اب کھانے کے علاوہ مجھے رقم کی بھی ضرورت ہوتی تھی تا کہ میرے بھائی کو اجلا یونیفارم مل سکے، دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر مل جائے جو کہ میں کہیں نہ کہیں سے مانگ کر لے آتا تھا، کبھی کبھار سالن مل جاتو تو روٹی تنور سے لے لیتے۔ ابا سے ہمارا واسطہ صرف نام کا ہی تھا، نہ اسے ہماری پروا رہی تھی اور نہ ہمیں اس کی-
میں نے سرکاری اسکول سے میٹرک کر لیا، اچھے نمبروں سے امتحان پاس کرنے کے باوجود بھی اتنی استطاعت نہ تھی کہ کالج میں داخلے کے لیے فارم بھی لے سکتا یا کتابیں ۔
اپنے بھائی کو سب اچھا دینے کی کوشش میں میں نے اپنے آپ کو تج دیا، میرے کپڑے گھسے پرانے ہوتے یا جوتے پھٹے ہوئے مگر میرا بھائی کسی قابل ہو جائے، اس کے لیے میں ایک باپ ہی طرح خود کو تج کر کچھ نہ کچھ کرتا رہتا اور دن گزرتے رہے تو اندازہ ہوا کہ یوں محلے کے لوگوں کے لگ بھگ مفت میں کام کرنا کافی نہیں، تب میں نے اپنے چھوٹے سے قصبے کے اپنے گھر کو چھوڑا اور اپنے بھائی کی خاطر بڑے شہرمیں گھر سے دور کمائی کرنے کو آگیا۔
(جاری ہے)