بلوچستان: 8 فروری کے احتجاج سے قبل پی ٹی آئی سیکریٹریٹ پر چھاپہ، 3 عہدیدار گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
8 فروری کے احتجاج سے قبل بلوچستان میں پی ٹی آئی سیکریٹریٹ پر پولیس نے چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے 3 عہدیداروں کو گرفتار کرلیا۔
ذرائع کے مطابق گرفتار ہو نے والوں میں آئی ایل ایف کے صدر، مرکزی نائب صدر اور ضلعی صدر شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں پی ٹی آئی کا 8 فروری کا احتجاج ماضی کے احتجاجوں سے کیسے مختلف ہوگا؟
ذرائع نے بتایا کہ پولیس نے اس وقت چھاپہ مارا جب 8 فروری کے احتجاج کے حوالے سے مشاورتی اجلاس ہورہا تھا۔
دوسری جانب تحریک انصاف بلوچستان کے ترجمان نے 3 پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ ہم نے ہمیشہ پرامن طریقے سے احتجاج کیا، اس بار بھی ہمارا احتجاج کامیاب ہوگا، قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق کا دفاع کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں مبینہ انتخابی دھاندلی: پاکستان تحریک انصاف کا 8 فروری کو ملک گیر احتجاج کا فیصلہ
واضح رہے کہ 8 فروری کو عام انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر پی ٹی آئی نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی جانب سے بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا جائےگا، جبکہ دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی اجتماعات ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
8 فروری احتجاج wenews بلوچستان پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی چھاپہ عہدیدار گرفتار وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ا ئی چھاپہ عہدیدار گرفتار وی نیوز تحریک انصاف کے احتجاج پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔
پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم’’ (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔
یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دبائو یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم، پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کی گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔
پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔
اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اپنے قیدی رہنمائوں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا، اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔
Post Views: 5