اسلام ٹائمز: اہل غزہ کو جبری جلاوطنی پر مجبور کرنے سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات زیادہ تر بچگانہ خواب جیسے ہیں جن کا سرچشمہ اوہام اور غرور ہے۔ امریکہ سے کینیڈا کے الحاق، خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکہ رکھ دینا اور پاناما کینال پر امریکی تسلط کی بحالی جیسے منصوبوں سے صرف ایک چیز ظاہر ہوتی ہے اور وہ حد درجہ لالچ اور زمینی حقائق سے لاعلمی ہے۔ غزہ کے فلسطینی شہریوں کو جبری جلاوطنی پر مجبور کر دینے کے منصوبہ بھی ایسا ہی ہے اور یقیناً اس کا انجام شکست ہو گا۔ چونکہ ٹرمپ ان منصوبوں کو خطے میں امن اور صلح کے عنوان سے پیش کرتا ہے لہذا ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا یہ دعوی بھی جھوٹا ہے کیونکہ اگر وہ حقیقت میں خطے میں امن اور صلح کے درپے ہوتا تو اسے فلسطینی قوم کی بجائے صیہونیوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ کیونکہ صیہونی وہاں کے مقامی باشندے نہیں ہیں اور پہلی عالمی جنگ کے بعد باہر سے آنے والے مہاجرین ہیں۔ اس بحران کا واحد حل غیر مقامی صیہونیوں کو نکال باہر کرنا ہی ہے۔ تحریر: یداللہ جوانی
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں قدم رکھتے ہی ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے جنہیں عالمی ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ کوریج دی گئی ہے اور وہ زیادہ تر آرزوں پر مبنی خیالات ہیں۔ ٹرمپ کا ایسا ہی ایک موقف غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کے بارے میں سامنے آیا ہے جس میں اس نے غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر دیگر عرب ممالک میں منتقل کر دینے کی بات کی ہے۔ غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر جلاوطنی پر مجبور کر دینے کا خیال کوئی نیا خیال نہیں ہے بلکہ گذشتہ چند عشروں کے دوران مختلف حلقوں کی جانب سے پیش کیا جا چکا ہے۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد سرزمین فلسطین خاص طور پر غزہ کی پٹی کے مقامی افراد کو دیگر ممالک منتقل کر دینا ہے تاکہ یوں اس سرزمین پر اسرائیل کے مکمل تسلط اور نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا زمینہ فراہم کیا جا سکے۔
7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد اہل غزہ کو جبری نقل مکانی پر مجبور کر دینے کا ایشو کچھ نئے پہلو اختیار کر چکا ہے۔ اسلامی مزاحمت کے خلاف مسلسل شکست کا شکار ہونے کے بعد اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مسلح فلسطینی گرہوں خاص طور پر غزہ میں حماس کے خلاف ایسا فیصلہ کن فوجی آپریشن انجام دے جس کے نتیجے میں یہ خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ اسی بنیاد پر صیہونی فوج نے طوفان الاقصی آپریشن کے چند دن بعد سے غزہ پر وسیع اور شدید فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس کا بنیادی مقصد اہل غزہ کو جلاوطنی کی زندگی اختیار کر دینے پر مجبور کرنا تھا۔ امریکی حکومت خاص طور پر سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اس منحوس منصوبے کا اصلی حامی ہونے کے ناطے غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور مدد بھی کی۔
امریکی وزیر خارجہ کے مشرق وسطی خطے اور مختلف ممالک کے مسلسل دوروں کا بنیاد مقصد بھی اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنا اور غاصب صیہونی رژیم کی مدد اور حمایت کرنا تھا۔ ان دوروں میں غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کو ہمسایہ ممالک اور دور والے ممالک منتقل کرنے پر بات ہوئی تاکہ غزہ کی پٹی تمام فلسطینی شہریوں سے خالی کروا لی جائے۔ حتی ان مذاکرات میں یہ بات بھی زیر بحث لائی گئی کہ مختلف ممالک غزہ میں مقیم 20 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک پناہ دینے کے لیے اپنے حصے کا اعلان کریں اور بتائیں کہ وہ کتنے فلسطینیوں کو رہائش کی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں اور اس مد میں ان ممالک کو کئی قسم کے لالچ بھی دیے گئے۔ لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود یہ منحوس منصوبہ آخرکار شکست سے روبرو ہو گیا۔
امریکہ، غاصب صیہونی رژیم اور حتی بعض یورپی ممالک کی جانب سے اہل غزہ کو جبری جلاوطنی پر مجبور کر دینے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔ اس کی ایک وجہ خطے کے ممالک کی جانب سے اس منصوبے کو ماننے سے انکار اور حتی امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے پیش کردہ مراعات اور امدادی پیکجز کو بھی مسترد کر دینا تھی۔ اگرچہ خطے کے ممالک مہاجرین قبول کرنے کے منفی نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن ان کے انکار کی زیادہ اہم وجہ اہل غزہ کی بے مثال مزاحمت اور استقامت تھی۔ فلسطینی قوم اپنی سرزمین ترک کر دینے کے نقصان دہ نتائج سے آگاہ ہونے کے ناطے جلاوطنی اور نقل مکانی کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ وہ کسی بھی صورت اپنی آبائی سرزمین ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اہل غزہ نے شدید فضائی حملوں اور غزہ سے نکل جانے کی صورت میں بہتر زندگی کے وعدوں کے باوجود اپنی سرزمین میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔
غزہ کے فلسطینی شہریوں نے مہاجرین کیمپوں، مساجد، چرچوں اور میڈیکل کے مراکز میں پناہ حاصل کی لیکن غاصب صیہونی رژیم نے ان مراکز کو بھی ہوائی حملوں کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔ گذشتہ تقریباً 16 ماہ کی جنگ کے دوران صیہونی رژیم کی جانب سے حد درجہ مجرمانہ اقدامات کے باوجود فلسطینی قوم نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ان کا نعرہ یہ تھا کہ "اپنی سرزمین پر باقی رہیں گے، یا فاتح ہو جائیں گے یا شہید ہو جائیں گے لیکن جبری جلاوطنی قبول نہیں کریں گے۔" یہ نعرہ ان کی استقامت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لہذا جس طرح جو بائیڈن کی حکومت انہیں جبری طور پر اپنا وطن چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور نہیں کر سکی، اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت بھی اپنے اس منحوس منصوبے میں ناکام رہے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اہل غزہ کی مزاحمت اور استقامت اور ٹرمپ کے منصوبوں کا حقیقت پسندی پر مبنی نہ ہونا ہے۔
اہل غزہ کو جبری جلاوطنی پر مجبور کرنے سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات زیادہ تر بچگانہ خواب جیسے ہیں جن کا سرچشمہ اوہام اور غرور ہے۔ امریکہ سے کینیڈا کے الحاق، خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکہ رکھ دینا اور پاناما کینال پر امریکی تسلط کی بحالی جیسے منصوبوں سے صرف ایک چیز ظاہر ہوتی ہے اور وہ حد درجہ لالچ اور زمینی حقائق سے لاعلمی ہے۔ غزہ کے فلسطینی شہریوں کو جبری جلاوطنی پر مجبور کر دینے کے منصوبہ بھی ایسا ہی ہے اور یقیناً اس کا انجام شکست ہو گا۔ چونکہ ٹرمپ ان منصوبوں کو خطے میں امن اور صلح کے عنوان سے پیش کرتا ہے لہذا ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا یہ دعوی بھی جھوٹا ہے کیونکہ اگر وہ حقیقت میں خطے میں امن اور صلح کے درپے ہوتا تو اسے فلسطینی قوم کی بجائے صیہونیوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ کیونکہ صیہونی وہاں کے مقامی باشندے نہیں ہیں اور پہلی عالمی جنگ کے بعد باہر سے آنے والے مہاجرین ہیں۔ اس بحران کا واحد حل غیر مقامی صیہونیوں کو نکال باہر کرنا ہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جلاوطنی پر مجبور کر دینے خطے میں امن اور صلح کے نقل مکانی پر مجبور فلسطینی شہریوں کو غاصب صیہونی رژیم اہل غزہ کو جبری صیہونیوں کو فلسطینی قوم ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کے باوجود دینے کے ٹرمپ کے ہے اور سے پیش کے بعد غزہ کی
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ چین سے تجارتی تعلقات محدود کرنے کے لیے مختلف ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے.بیجنگ کا الزام
بیجنگ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 )چین نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ دوسرے ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارت محدود کر دیں اور بدلے میں انہیں امریکی کسٹم ٹیرف میں چھوٹ مل جائے گی بیجنگ حکومت نے اس پالیسی کو مسترد کر دیا ہے. چین کی وزارتِ تجارت نے پیر کے روز واضح کیا کہ وہ ان تمام فریقوں کا احترام کرتی ہے جو امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی و تجارتی تنازعات کو برابری کی بنیاد پر بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسی کسی بھی ڈیل کی سخت مخالفت کرے گی جو چین کے مفادات پر ضرب لگائے.(جاری ہے)
وزارت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر کوئی ملک ایسی ڈیل کرتا ہے جس کا مقصد چین کے ساتھ تجارتی روابط محدود کرنا ہو، تو چین اس کے خلاف موثر اور متبادل اقدامات کرے گا . ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر کسٹم ٹیرف کے نام پر یک طرفہ طور پر دباﺅ ڈالا ہے اور انہیں جبراایسے مذاکرات میں گھسیٹا ہے جنہیں وہ باہمی ٹیرف مذاکرات کا نام دے رہے ہیں چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ چین اپنے قانونی حقوق اور مفادات کے دفاع کے لیے پرعزم اور مکمل طور پر اہل ہے اور وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کے لیے بھی تیار ہے. چین کایہ سخت موقف”بلومبرگ“کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے ممالک پر مالی پابندیاں عائد کرنے کا سوچ رہی ہے جو امریکہ سے کسٹم ٹیرف میں رعایت کے بدلے چین کے ساتھ تجارتی روابط کم نہیں کریں گے . یاد رہے کہ امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے رواں ماہ کے آغاز میں بتایا تھا کہ تقریباً 50 ممالک نے امریکہ سے رابطہ کر کے اضافی کسٹم ٹیرف پر بات چیت کی خواہش ظاہر کی ہے واضح رہے کہ ٹرمپ نے 2 اپریل کو دنیا بھر کے دسیوں ممالک پر عائد تاریخی کسٹم ٹیرف کا نفاذ روک دیا تھا البتہ چین پر عائد ٹیرف برقرار رکھا تھا جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے.