UrduPoint:
2025-04-22@15:56:52 GMT

جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 فروری 2025ء) جب جرمن شہری ووٹ دینے کے لیے اپنے طے شدہ پولنگ اسٹیشنوں پر جاتے ہیں، جو اسکولوں اور دیگر سرکاری عمارتوں میں قائم کیے جاتے ہیں، تو انہیں پولنگ عملے کی طرف سے جو بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے اس پر انہوں دو ووٹ دینا ہوتے ہیں۔ ایک اپنے حلقے کی نمائندگی کرنے والے امیدوار کے لیے اور دوسرا پارٹی کی ریاستی نمائندگی کے لیے، جس میں عام طور پر 10 سے 30 امیدواروں کی فہرست ہوتی ہے۔

اس نظام کو اکثر ذاتی متناسب نمائندگی یا 'پرسنل پروپورشنل ری پریزنٹیشن‘ کہا جاتا ہے۔ ووٹ دینے کے لیے دو خانے

پہلا ووٹ، متعلقہ انتخابی حلقے میں براہ راست امیدوار منتخب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ووٹ پارلیمنٹ کی کل ساخت کے نصف کا تعین کرتا ہے، اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پارلیمان میں ہر ضلع کی نمائندگی ہو۔

(جاری ہے)

دوسرا ووٹ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یا 'بنڈس ٹاگ‘ میں پارٹیوں کی طاقت کا تعین کرتا ہے۔

یہ ووٹ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اس جماعت کی ریاست کی فہرست میں سے کتنے امیدواروں کو بنڈس ٹاگ میں نشستیں دی جائیں گی۔

2025 سے پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد 630 نشستوں تک محدود کر دی جائے گی۔ 2024 میں انتخابی نظام میں اصلاحات متعارف کرائی گئی تھیں، جس میں ان شقوں کو ختم کر دیا گیا تھا، جن کی وجہ سے پارٹیوں کے سائز میں کمی کے ساتھ قانون سازوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا تھا۔

ان اصلاحات کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جزوی طور پر منسوخ کر دیا تھا۔

جرمنی کی کُل 83 ملین آبادی میں سے تقریباﹰ 61 ملین ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ یعنی یہ ووٹر جرمن شہریت رکھتے ہیں اور 18 سال اور اس سے زائد عمر کے ہیں۔ ایسے جرمن شہری، جو بیرون ملک مقیم ہیں، وہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈال سکتے ہیں، لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ گزشتہ 25 سالوں کے دوران کم از کم تین ماہ مسلسل جرمنی میں رہے ہوں۔

جرمنی کے فیڈرل ریٹرننگ آفیسر کی ویب سائٹ نے سفارت خانوں یا قونصل خانوں کو بیلٹ بکس رکھنے سے منع تو نہیں کیا ہے لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ اس کے لیے 'غیر متناسب کوششیں‘ درکار ہوں گی۔

ایک عدالت ان افراد کے لیے ووٹ کا حق منسوخ کر سکتی ہے، جنہوں نے کچھ سیاسی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ جیسے جاسوسی اور ریاستی رازوں کو افشا کرنا۔ اس کے علاوہ کسی اور مجرم کے ووٹ کے حق کو منسوخ نہیں کیا جاتا، قتل اور بچوں کے جنسی استحصال جیسے سنگین جرائم جیسے معاملات کی صورت میں بھی نہیں۔

یہی اصول ان امیدواروں پر بھی لاگو ہوتا ہے، جنہیں ان کی متعلقہ جماعتوں نے شارٹ لسٹ کیا ہو۔

جرمنی میں نصف سے کچھ زیادہ رائے دہندگان خواتین ہیں، جن میں سے تقریباﹰ 40 فیصد 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہیں اور 14 فیصد 30 سال سے کم عمر کی ہیں۔

جرمنی میں ووٹر ٹرن آؤٹ کافی زیادہ رہتا ہے۔ گزشتہ دو عام انتخابات میں یہ شرح 76 فیصد سے کچھ اوپر ہی رہی۔

پانچ فیصد کی حد کیا ہے؟

جرمنی کے انتخابات سے متعلق قانون کے تحت، کسی بھی پارٹی کے لیے پارلیمان میں جگہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارٹیوں کی نمائندگی کے لیے ڈالے گئے کُل ووٹوں کا کم از کم پانچ فیصد حاصل کریں۔

یہ شق سب سے پہلے 1953 میں متعارف کرائی گئی تھی اور اس کا مقصد چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے اور جمہوری عمل میں مشکلات پیدا کرنے سے روکنا تھا۔

تاہم، ان جماعتوں کو اس سے استثنیٰ مل جاتا ہے، جن کے امیدوار کم از کم تین انتخابی اضلاع میں کامیاب ہوئے ہوں۔ مثال کے طور پر، 2021 میں، اس کا اطلاق ’دی لِنکے‘ یعنی لیفٹ پارٹی پر ہوا، جس نے پارٹی ووٹوں کا صرف 4.

9 فیصد حاصل کیا، لیکن اس جماعت کے تین امیدواروں نے اپنے حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی، اس لیے اسے 733 ارکان پر مشتمل پارلیمان میں 4.9 فیصد نشستیں بھرنے کے لیے 28 قانون سازوں کو بھیجنے کی اجازت دی گئی۔

حکومت کی تشکیل اور چانسلر کا انتخاب

اگر کوئی پارٹی 50 فیصد ووٹ حاصل کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پارلیمان میں حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ لیکن عام طور پر ایسا امکان نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے، جرمنی میں جماعتوں کو عام طور پر ایک یا ایک سے زیادہ جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بنڈس ٹاگ میں ایک مؤثر اور مضبوط حکومت تشکیل پا سکے۔

روایتی طور پر، سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کا امیدوار چانسلر بن جاتا ہے اور جونیئر اتحادی پارٹنر کے سرکردہ امیدوار کو اکثر وزیر خارجہ کی ذمہ داری ملتی ہے۔ چانسلر وزراء کے نام اور ان کے قلمدان صدر کو پیش کرتا ہے، جو حکومت کے ارکان کا تقرر کرتا ہے۔

کوئی بھی جرمن شہری، جس کی عمر کم از کم 18 سال ہو، وہ چانسلر بن سکتا ہے۔

اس کے لیے بنڈس ٹاگ میں نشست کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اسے قانون سازوں کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

جرمن آئین کے مطابق نئی منتخب شدہ پارلیمان کا پہلا اجلاس انتخابات کے بعد 30 دن کے اندر ہونا ضروری ہے۔

صدر چانسلر کے امیدوار کے نام کی باضابطہ طور پر تجویز پیش کرتا ہے، جسے پھر ووٹوں کی مطلق اکثریت یعنی 50 فیصد سے زائد حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر امیدوار ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بنڈس ٹاگ کے ارکان کسی دوسرے امیدوار کا انتخاب کر سکتے ہیں اور اسے 15 دن کے اندر ووٹنگ کے لیے پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے پھر، مطلق اکثریت کی ضرورت ہے۔

اگر ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں بھی کوئی امیدوار مکمل اکثریت حاصل نہیں کرتا ہے تو، فوری طور پر حتمی بیلٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں جو بھی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے وہ سادہ اکثریت سے منتخب ہوتا ہے۔

اگر چانسلر مکمل اکثریت سے منتخب ہوتا ہے تو صدر کو سات دن کے اندر اس کا تقرر کرنا ہو گا۔ اگر منتخب شخص تیسرے مرحلے میں صرف سادہ اکثریت حاصل کرتا ہے تو صدر کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ یا تو سات دن کے اندر اسے چانسلر مقرر کر دے یا پھر بنڈس ٹاگ کو تحلیل کر دے، جس سے 60 دن کے اندر نئے انتخابات کرانا ہوں گے۔

انتخابی نتائج پر اعتراض

جرمنی کے الیکشن ریویو کے قانون کے مطابق، جرمنی میں ووٹ ڈالنے کا اہل کوئی بھی فرد انتخابات کی درستی پر سوال اٹھا سکتا ہے اور یہی کام ووٹ ڈالنے کے اہل افراد پر مشتمل گروپ بھی کر سکتے ہیں۔

ہر عام انتخابات کے بعد نتائج چیلنج کرنے کے سینکڑوں معاملات سامنے آتے ہیں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے دن کے دو ماہ کے اندر برلن میں بنڈس ٹاگ کے الیکشن ریویو کمیشن میں تحریری طور پر اعتراضات جمع کرائے جائیں۔

الیکشن ریویو کمیشن تمام درخواستوں پر کارروائی کرتا ہے۔ ہر انفرادی چیلنج پر ایک فیصلہ کیا جاتا ہے اور ہر اعتراض کنندہ کو بنڈس ٹاگ سے تحریری طور جواب دیا جاتا ہے۔

بنڈس ٹاگ کے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دینے کے لیے، اٹھائے گئے اعتراض کو دو شرائط کو پورا اترنا چاہیے، پہلی یہ کہ ایسی انتخابی غلطی جو فیڈرل الیکشن ایکٹ، فیڈرل الیکشن کوڈ یا آئین کی خلاف ورزی کرتی ہو، اور دوسری یہ ہے کہ مبینہ انتخابی غلطی کا اثر بنڈس ٹاگ میں نشستوں کی تقسیم پر پڑے۔

کمیشن کو تمام اپیلوں پر کارروائی کرنے کے لیے تقریباﹰ ایک سال درکار ہوتا ہے۔ عام طور پر ان میں سے چار فیصد سے بھی کم مقدمات آئینی عدالت تک پہنچتے ہیں۔ جرمن میں قومی انتخابات کو کبھی بھی غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا ہے۔

عام حالات میں، انتخابات چار سال بعد دوبارہ ہوتے ہیں اور پھر سے یہ سارا عمل دہرایا جاتا ہے۔

ا ب ا/ا ا (ڈی ڈبلیو)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پارلیمان میں بنڈس ٹاگ میں انتخابات کے دن کے اندر اس کے لیے ضروری ہے سکتے ہیں ووٹ حاصل کی ضرورت سے زیادہ ہے کہ وہ ہوتا ہے جاتا ہے کرتا ہے ہیں اور اور اس

پڑھیں:

گورننس سسٹم کی خامیاں

پاکستان میں طرز حکمرانی اور داخلی و خارجی معاملات پر مسلسل سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اس نظام پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔اسی کے ساتھ ملک کو سیکیورٹی و معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اصل میں حکمران طبقہ حکمرانی کی فرسودگی کو یا تو سمجھنے کا ادراک نہیں رکھتے یا ان کی ترجیحات میں ان مسائل کا حل شامل نہیں ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم عملاً حکمرانی کے نظام کے تناظر میں متعدد تجربات کے باوجود ناکامی کا شکار ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا میں ہونے والے بہتر حکمرانی کے تجربات کی بنیاد پر بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے تناظر میں طرز حکمرانی کے مسائل کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی نشاندہی کی تھی اور ان کے بقول اگر ہم نے گورننس کے بحران کو ترجیح بنیادوں پر حل نہ کیا تو دہشت گردی سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہوگا ۔

حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کے قانونی مشن نے اپنے 12 روزہ دورے کا اختتام کیا ہے۔ یہ تفصیلی رپورٹ اس برس اگست میں آنے کی توقع ہے۔یہ رپورٹ کرپشن کی امکانات کو ختم کر کے اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلوں کے ذریعے زیادہ شفافیت کو یقینی بنا نے اور پبلک سیکٹر کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

آئی ایم ایف نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں سیاست زدہ بیورو کریسی،کمزور احتساب پر مبنی نظام،قلیل مدتی اہداف پاکستان کی اہم خامیاں ہیں۔ان کے بقول پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں اہم افراد یا عہدے دار سیاسی وفاداریاں رکھتے ہیں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔اسی طرح پاکستان پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف بھی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہے ۔

 آئی ایم ایف نے ابتدائی طور پر جن مسائل کی نشاندہی کی ہے وہ اہمیت رکھتے ہیں۔کیونکہ ہمارا بیوروکریسی پر مبنی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس نظام کی موجودگی میں گورننس کے نظام کی شفافیت کی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہے۔اس بات کی درست طورپر نشاندہی کی گئی ہے کہ جب حکمران طبقہ انتظامی اداروں کو سیاسی بنیادوں پر چلائے گا یا اہم عہدوں پر میرٹ سے زیادہ سیاسی بنیادوں کو بنیاد بنا کر تقرریاں اور تبادلے کیے جائیں گے تو پھر نظام کی شفافیت کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔

آئی ایم ایف نے کمزور احتساب کے نظام کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ہمارے بہت سے سیاسی پنڈت یا دانشور یا کاروباری طبقات کے بڑے افراد کرپشن کو ایک بڑا مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ان کے بقول سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن اس نظام کا حصہ ہے اور ہمیں اس کو قبول کرنا ہی ہوگا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جب بھی کرپشن کی یا احتساب پر مبنی نظام کی بات کی جاتی ہے تو یہ سارا عمل سیاسی طور پر متنازعہ بن جاتاہے یا اس کو متنازعہ بنادیا جاتا ہے۔پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جو بھی ادارے بنائے گئے ہیں وہ خود بھی کرپشن کا شکار ہیںیا ان پر اس حد تک سیاسی دباؤ ہے کہ وہ شفافیت کی بجائے سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں گورننس کے مسائل محض آئی ایم ایف کی پیش کردہ نکات تک محدود نہیں ہیں بلکہ اور بھی مسائل ہمیں حکمرانی کے نظام میں درپیش ہیں۔مثال کے طور پر عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت پر مبنی نظام جہاں اختیارات کا مرکز کسی ایک سطح تک محدود ہوتا ہے یا ہم سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

اسی طرح سے پاکستان میں حکمرانی کے نظام میں موجود جو سائز آف گورننس ہے وہ ریاستی اور حکومتی نظام پر نہ صرف سیاسی اور انتظامی بوجھ ہے بلکہ اس کی بھاری مالیاتی قیمت بھی ہمیں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

بے تحاشہ ادارے،محکمے اور ان کے سربراہان کی فوج در فوج سے نہ تو عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ یہ موجودہ نظام میں کوئی شفافیت کا عمل پیدا کر سکے ہیں۔دنیا کے جدید حکمرانی کے نظام میں نچلی سطح پر موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔لیکن ہم مسلسل مقامی حکومتوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔

حالانکہ پاکستان کے آئین میں اس وقت بھی تین سطحوں پر حکومت کا تصور موجود ہے یعنی وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتیں لیکن اس کے باوجود ہمارا ریاستی نظام مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کا شکار نظر آتا ہے۔مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی بنیادی طور پر ریاست،حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی خلیج کو پیدا کرتی ہے اور یہ خلیج ان فریقوں میں بد اعتمادی کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔

بااختیار مقامی حکومتی نظام معاشرے میں موجود کمزور اور محروم طبقات کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام طبقاتی تقسیم کا شکارہے اور اس تقسیم میں طاقتور طبقات کے مفادات کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں کمزور طبقات مختلف سطح پر استحصال کاشکار ہوتے ہیں۔

 18 ویں ترمیم کی منظوری کہ باوجود بھی ہم صوبائی یا مقامی سطح پر حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل حل نہیں کر سکے ہیں۔ماضی میں وفاق کا نظام مرکزیت پر مبنی تھا تو آج صوبائی حکومتوں کا نظام صوبائی مرکزیت کا شکار نظر آتا ہے۔

اس طرز عمل کی وجہ سے صوبوں میں موجود ضلعوں کا نظام نہ صرف کمزور ہے بلکہ اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے۔ایک طرف سیاسی نظام میں موجود سیاسی طاقتور افراد ہیں جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی صورت میں سیاسی نظام پر قابض نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بیوروکریسی ہے جو نظام کی شفافیت میں خود بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

اسی طرح سے ہمیں سیاسی اور بیوروکریسی پر مبنی نظام کا ایک ایسا کٹھ جوڑ بالادست نظر آتا ہے جو عوامی مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی سطح کے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ہمارے ہاں وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ادارے اپنے اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنے کے عادی نہیں ہیں۔

ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہمارے نظام کی اہم خصوصیت بن چکی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی دلچسپی قانون سازی یا پالیسی سازی کی شفافیت کی بجائے ترقیاتی فنڈ تک محدود ہوتی ہے اور اس وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان خود بھی ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کے عملی طور پر خلاف ہیں ۔

ایک طرف ہم اپنے نظام کو عوام کے منتخب نمائندوں کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری ترجیحات عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی پر حد سے بڑھتا ہواانحصار ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود ارکان اسمبلی موجودہ نظام سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ 

ہم عملاًحکومتوں کے مقابلے میں یا منتخب نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بجائے کمپنیوں اوراتھارٹیوں کی بنیاد پر صوبوں کے نظام کوچلانااپنی ترجیح سمجھتے ہیں۔یہ دوہرے معیارات اورمختلف تضادات پر مبنی پالیسیوں نے حکمرانی کے نظام کواور زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

یہ نظام جہاں اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے وہیں اس کی ساکھ پر بھی بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔حکمران طبقات کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں یا ان کی پسند پر مبنی حکمرانی کا یہ نظام لوگوں کو سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کر رہا ہے۔ان کو لگتا ہے کہ اس نظام میں بہتری کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھیں توان کے بقول ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔حکمرانوں اور عوام کی سوچ و فکر میں یہ تضاد ہمارے حکمرانی کے نظام کی خرابی کواور زیادہ نمایاں کرتاہے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کی اعلان کردہ مفت الیکٹرک اسکوٹی کیسے حاصل کریں، شرائط کیا ہیں؟
  • اسلام آباد میں یونیورسٹی طالبہ کا قتل، قاتل ہاسٹل میں ڈیڑھ گھنٹے تک کیا کرتا رہا؟
  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • انتخابی نظام میں بہت کچھ گڑ بڑ چل رہا ہے، راہل گاندھی
  • بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور، ایف بی آر پر تجربہ کامیاب
  • وزیراعظم نے بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور کرلیا، FBR پر تجربہ کامیاب، تنخواہیں کامیابی سے مشروط
  • مسیحیوں کے تہوار ’ایسٹر‘ کی دلچسپ تاریخ
  • بلاول کی تائید کرتا ہوں، شیر جب بھی آتا، سب کچھ کھا جاتا ہے: گیلانی 
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • شیر جب بھی آتا ہے سب کچھ کھا جاتا ہے، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی