بچے نے مانگی بریانی، حکومت مینو تبدیل کرنے پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
بھارت کی ریاست کیرالا کی حکومت ایک بچے کی فرمائش کی روشی میں اسکولوں میں کھانے پینے کی اشیا کے مینو پر نظرِثانی پر مجبور ہوگئی ہے۔ بچے نے کہا تھا کہ اسکولوں میں جو کھانا فراہم کیا جاتا ہے اُس میں بریانی بھی ہونی چاہیے۔
کیرالا کی وزیرِصحت مسز وینا نے کہا ہے کہ بچے کی معصوم فرمائش نے حکومت کو متوجہ کیا ہے۔ ہمیں بچوں کی پسند و ناپسند کا بھی خیال رکھنا ہے۔ بچے جو کچھ بھی کھانا چاہیں گے وہ انہیں فراہم کیا جائے گا۔
کیرالا کے جن اسکولوں میں بچوں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے اُنہیں آنگن واڈی کہا جاتا ہے۔ کیرالا کی وزیرِصحت وینا جارج کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں فراہم کیا جانے والا کھانا اب بچوں کی پسند کی روشنی میں فراہم کیا جائے گا۔ بریانی کی فرمائش کرنے والے بچے کا نام رِجل ایس سندر عرف شنکو ہے۔ اُس نے بہت معصومیت سے سوال کیا تھا کیا ہمیں بریانی نہیں دی جاسکتی کیونکہ ہم ایک جیسا کھانا کھاتے کھاتے تنگ آچکے ہیں۔
شنکو کی ماں نے ایک وڈیو شیئر کی ہے جس میں شنکو کو بریانی کی فرمائش کرتے اور پھر ماں کی طرف سے دی جانے والی بریانی کھاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ کیرالا کی وزیرِصحت نے یہ پورا معاملہ فیس بک پر اپنے پیج پر شیئر کیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسکولوں میں کیرالا کی فراہم کیا
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔
سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔
ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔
اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔