انسان کی حقیقت اور قدر و قیمت
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
انسان وہ مخلوق ہے جس کی حقیقت کو جسمانی، حیاتیاتی، نفسیاتی، جمالیاتی، فلسفیانہ، اخلاقی اور روحانی زاویوں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ مگر یہ سب پہلو اس وقت مکمل تصویر پیش کرتے ہیں جب انسان کو ایک جامع وحدت کے طور پر دیکھا جائے۔ انسانیت کا تصور محض ایک سادہ تعارف نہیں بلکہ ایک آفاقی سچائی ہے جو ارتقائی شعور اور روحانی بیداری پر مبنی ہے۔
قرآنِ حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ (البقرہ: 30)
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کے لیے منتخب فرمایا اور اسے ایسی خصوصیات سے نوازا جنہوں نے اسے تمام مخلوقات پر فضیلت دی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی ذہنی، فکری، اور روحانی قوتوں کے باعث تخلیقِ کائنات کا نچوڑ اور مرکز ہے اور دنیا میں ہر چیز اس کے لئے مہیا کی۔ پرندے‘ جانور سمند‘ پہاڑ ‘جنگل طرح طرح کے میوے پھل ‘ خوراک‘ سبزیاں پانی سب اس کیلئے مفت فراہم کئے۔ مگر شیطان کی چالوں میں آکر یہ انسان لالچ اور طمع کا شکار ہوکر مادیت کے دھوکہ میں ٹریپ ہوکر مادی نظام کا غلام بن کر رہ گیا اور اپنی اصل روحانیت کو بھول گیا۔ یہ جان کر بھی کہ وہ اس عالم خا کی میں محدود وقت کے لئے ہے اور اچانک خال ہاتھ اپنے اصل گھر لوٹ جائے گا۔ یہ معاشی غلامی کو کامیابی سمجھ کر اس میں غرق ہوگیا۔
مولانا رومی ؒفرماتے ہیں:’’ایں بدن را، جان زِ گوہر آفریدزِ خدا داند کہ گوہر را چہ دید‘‘ یہ جسم تو محض خول ہے، اصل گوہر تو روح ہے، اور خدا ہی جانتا ہے کہ اس گوہر میں کیا عظمت پوشیدہ ہے۔
انسان کے متضاد پہلو‘ قرآنِ پاک میں انسان کی صفات کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
بیشک ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔(التین: 4)
دوسری طرف فرمایا:’’بیشک انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے۔‘‘(ابراہیم: 34)
انسان کے اندر ایک طرف نورِ الٰہی کی چمک ہے تو دوسری طرف نفس کی تاریکی۔ وہ ایک ایسا وجود ہے جو فرشتوں سے برتر ہو سکتا ہے، لیکن جب اپنے نفس کے دھوکے میں پڑ جائے تو حیوانیت کے درجے تک گر سکتا ہے۔
مولانا رومیؒ نے انسان کے ان دو پہلوئوں کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے:’’آدمی مخفی است در زیرِ زبان ایں زبان پردہ است بر درگاہِ جان‘‘ا نسان کی حقیقت اس کی زبان کے پیچھے چھپی ہوتی ہے، اور زبان دل کے دروازے پر ایک پردہ ہے۔
انسان اور دنیا کی حقیقت‘ انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اپنی اصل قدر کو فراموش کرکے دنیاوی چمک دمک میں کھو جاتا ہے۔ دولت، شہرت، اور عہدوں کی طلب اسے اپنی اصل حقیقت سے دور کر دیتی ہے۔ وہ چیزوں کا غلام بن جاتا ہے جنہیں اس کے تابع ہونا چاہیے تھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کے لیے دنیا کی محبت خوبصورت بنا دی گئی ہے: عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر۔‘‘(آل عمران: 14)
مولانا رومیؒ کہتے ہیں:’’این جہان چون خط و خال و چشم و ابروست کہ بود مر عاشقان را دامِ راہ‘‘ دنیا تو محض ایک خوشنما دھوکہ ہے، جو عاشقانِ حق کے لیے راہ میں ایک آزمائش ہے۔
انسان کی اصل عظمت‘ انسان کی اصل عزت و عظمت اس کے اخلاق، علم، اور روحانی شعور میں ہے۔ جس دن انسان اپنے اندر کی دنیا کو فتح کرلے، اسی دن وہ اپنی اصل حقیقت کو پا لیتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور نفس کی قسم اور اسے درستگی دینے والے کی، پھر اس میں اس کی بدی اور پرہیزگاری کا شعور ودیعت کیا۔‘‘ (الشمس: 7-8)
’’رومیؒ فرماتے ہیں:تو بظاہر قطر آبی، ولیکن درحقیقت بحرِ نابی ‘‘ظاہری طور پر تو ایک قطرہ ہے، مگر حقیقت میں تو ایک بے کنار سمندر ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی اصل حقیقت کو پہچانے، دنیاوی دھوکے سے نکل کر روحانی کمالات کی طرف گامزن ہو۔ وہ خود ایک جہانِ معنی ہے، اور اس کے اندر پوری کائنات سمٹی ہوئی ہے۔
مولانا رومیؒ کے ایک شعر پر یہ مضمون ختم کرتا ہوں:’’گر درونِ خود سفر کنی، مردِ راہ شوی زِ خاک تا افلاک، ہمہ در تو جاں شوی‘‘ اگر تو اپنے اندر کا سفر کرے، تو راہِ حق کا مرد بن جائے گا، مٹی سے لے کر آسمان تک سب کچھ تیرے اندر جلوہ گر ہے۔‘‘
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مولانا رومی اور روحانی کی حقیقت انسان کو اپنی اصل انسان کی
پڑھیں:
’شہد کی مکھی کے خاتمے سے انسانیت کا ایک ہفتے میں خاتمہ‘، آئن سٹائن کی تھیوری کی حقیقت کیا؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)”اگر شہد کی مکھی اس کرہ زمین سے غائب ہو جائے تو انسان صرف چار سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔“ یہ مشہور قول اکثر عظیم سائنسدان البرٹ آئن سٹائن سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن کیا واقعی آئن سٹائن نے یہ الفاظ کہے تھے؟ لیکن سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا شہد کی مکھیاں واقعی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور کیا وہ انسانی زندگی کے لیے واقعی اتنی اہم ہیں؟
شہد کی مکھیاں انسانوں کی بقا کے لیے کیوں اہم ہیں؟ شہد کی مکھیاں بظاہر صرف شہد فراہم کرنے والی مخلوق نظر آتی ہیں، مگر ان کا اصل کردار قدرت کے ایک وسیع اور نازک نظام میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں سے رس اور پولن جمع کرتی ہیں اور پھر مختلف پھولوں تک منتقل کرتی ہیں، جس کے ذریعے پودوں کا تولیدی عمل مکمل ہوتا ہے۔
یہ پودے نہ صرف زمین کی خوبصورتی اور ماحول کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ کروڑوں چرند و پرند اور جانداروں کی خوراک بھی ہیں۔ ان پودوں کو کھانے والے جانور، خود گوشت خور جانوروں کی خوراک بنتے ہیں، جن میں انسان بھی شامل ہے۔ اگر شہد کی مکھیوں کی مدد سے پودوں کی افزائش نہ ہو، تو پوری غذائی زنجیر یا فوڈ چین متاثر ہو جاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں انسانوں سمیت بہت سی مخلوقات معدومی کے دہانے پر جا سکتی ہیں۔
کیا شہد کی مکھیاں واقعی ناپید ہو رہی ہیں؟
مختلف تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق، اگرچہ شہد کی مکھیوں کے فوری طور پر مکمل طور پر ختم ہونے کا خطرہ موجود نہیں، تاہم ان کی آبادی میں تشویشناک حد تک کمی آئی ہے۔ اس کی اہم وجوہات میں شامل ہیں،
جنگلات کی کٹائی، قدرتی ماحول میں محفوظ جگہوں کی کمی، پھولوں کی عدم دستیابی، فصلوں پر زہریلے کیمیکلز اور کیڑے مار دواؤں کا استعمال، مٹی کی ساخت میں تبدیلی، اسکے علاوہ موبائل فونز اور دیگر الیکٹرانک آلات سے خارج ہونے والی نقصان دہ ریڈیائی لہریں۔
کچھ ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ 90 فیصد شہد کی مکھیوں کی اقسام معدومی کے قریب پہنچ چکی ہیں، تاہم یہ دعویٰ ابھی تک سائنسی سطح پر مکمل طور پر ثابت نہیں ہو سکا۔
آئن سٹائن کا مشہور قول، حقیقت یا افسانہ؟
جہاں تک اس مشہور قول کا تعلق ہے، جس میں آئن سٹائن سے شہد کی مکھیوں کی ناپیدگی اور انسانی بقا کو جوڑتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’اگر شہد کی مکھی غائب ہو جائے تو انسان صرف چار سال تک زندہ رہ سکتا ہے‘ تو اس بات کا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں کہ آئن سٹائن نے واقعی یہ بات کہی ہو۔
دنیا بھر میں کئی معتبر اداروں اور محققین نے اس حوالے سے تحقیق کی ہے اور کسی بھی کتاب، اخباری ریکارڈ، یا آئن سٹائن کے خط و کتابت میں یہ قول موجود نہیں پایا گیا۔
شہد کی مکھیاں، فطرت کی خاموش محافظ
اگرچہ یہ قول آئن سٹائن کا نہیں، مگر یہ پیغام نہایت اہم اور درست ہے۔ شہد کی مکھیاں قدرتی ماحول، فصلوں، اور انسانی خوراک کے نظام میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی حفاظت نہ صرف ماحول بلکہ انسانی زندگی کے تسلسل کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
ہمیں بحیثیت معاشرہ، ان ننھی محنتی مخلوقات کے تحفظ کے لیے شعور بیدار کرنے اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ شہد کی مکھیوں کے بغیر نہ پھولوں کی مہک باقی رہے گی، نہ کھیتوں کی رونق، اور نہ ہماری زندگیوں کا تسلسل۔
مزیدپڑھیں :ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکل سواروں کو خبردار کردیا گیا