وزیراعلیٰ خیبر پختوںخواہ علی امین گنڈا پور نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ہونے والی ملاقات کی اندرونی کہانی سنادی۔تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختوںخواہ علی امین گنڈا پور نے  انٹرویو میں کہا افغانستان سے بات چیت کیلئے اسی مہینے وفد بھیجیں گے، تمام معاملات وفاقی حکومت سے ملکر طے ہوں گے اور وفاقی حکومت اور اداروں کی مرضی سے آگے بڑھیں گے۔علی امین گنڈاپور نے آرمی چیف سے ملاقات کی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف سے ملاقات میں کہا سب کو آن بورڈ ہونا ہوگا، ملاقات میں گاڈفادرکاجملہ استعمال کیا۔انھوں نے بتایا کہ آرمی چیف سے ملاقات میں تمام سیاسی جماعتیں موجود تھیں،آرمی چیف نے کہا وفاقی حکومت کے ساتھ بیٹھیں۔علی امین کا کہنا تھا کہ سیاسی استحکام کیلئےکام کررہاہوں، سیاسی استحکام نہ ہو تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، 26 نومبر کو ہمارے لوگوں کو گولیاں مار کر روکا گیا، 26 نومبر کوحکومت نے گولیاں چلوائیں، جس نے گولیاں چلوائیں وہ ہمارے مجرم ہیں۔انھوں نے بتایا کہ اسحاق ڈار نے کہا 26 نومبر پر کمیشن کیلئےمذاکرات میں بات کرلیں گے، شہباز شریف فارم 47 کے وزیراعظم ہیں، میں فارم 45 والا وزیراعلیٰ ہوں۔26 نومبر کے احتجاج کے حوالے سے سوال پر وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ سنگجانی جانے کیلئے بیرسٹرگوہر اور بیرسٹرسیف کی اسٹیبلشمنٹ سےبات ہوئی، میں نے اس وقت کہا تھا سنگجانی جانے کیلئے بانی سے پوچھ لیں، 26 نومبر کو میرا کسی سے رابطہ نہیں تھا، 26 نومبر کوایک لاکھ لوگ ساتھ تھے، تسلیم کرتا ہوں وہاں رکا تھا، بعدمیں ہم نےدوبارہ مارچ کیا،ڈی چوک چلے گئے۔لانھوں نے مزید بتایا کہ لاہور میں وقت سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچ گیا تھا، لاہور میں جس نے بھی فیصلہ کیا ذمہ داری اس کی بنتی ہے، بانی پی ٹی آئی نے 4 اکتوبر کو مجھے دھرنا دینے کا نہیں کہا تھا۔بشریٰ بی بی کو اکیلا چھوڑنے سے متعلق وزیراعلیٰ خیبر پختوںخواہ کا کہنا تھا کہ میں نے بشریٰ بی بی کو اکیلا کہیں نہیں چھوڑا، راستے کھلوانے کیلئے تھوڑی دیر کیلئے بشریٰ بی بی کو چھوڑا تھا، ڈی چوک سے جانے والوں میں بشریٰ بی بی اور میں آخری لوگ تھے، بشریٰ بی بی اگر کہہ دیں کہ میں نے اکیلا چھوڑا تھا تو اپنا اگلا مؤقف دونگا، بشریٰ بی بی کو کچھ ہو جاتا تو صوبے کو کیا منہ دکھاتا۔پارٹی میں گروپ بندی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں نےآج تک پارٹی میں گروپ بندی نہیں کی، مجھ پرکوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کوئی گروپ بندی کی ہو، شکیل خان کومیں نےنہیں بانی پی ٹی آئی کی کمیٹی نےہٹایا، کمیٹی نےرپورٹ دی شکیل خان اورسیکرٹری کو ہٹایاجائے ۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: کہ میں نے ا رمی چیف علی امین نومبر کو بی بی کو نے کہا

پڑھیں:

ایف آئی آر کی کہانی

ابو سفیان کو تھانے میں موٹرسائیکل چوری کی ایف آئی آر درج کرانی تھی جو اس کے گھر کے باہر سے چوری ہو ئی،وہ ایف آئی آر درج کرانے محلے والوں کے ہمراہ تھانے پہنچا اور محررکو واردات کی جتنی بھی تفصیل بتاسکتا تھا، بتائی،محرر کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او کی اجازت کے بغیر ایف آئی آر کا اندراج نہیں کیاجاسکتا۔چونکہ ایس ایچ او تھانے سے باہر ہیں۔اس لئے محرر نے صبح سے پہلے ایف آئی آر کے اندراج سے معذرت کر لی۔ اس وقت رات کے دس بج رہے تھے جبکہ صبح ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی تھے-محرر جو اے ایس آئی رینک کا افسر تھا،مقدمہ کے اندراج میں مسلسل لیت ولعل سے کام لےرہا تھالیکن ابو سفیان بھی بضد تھاکہ ایف آئی آر درج کرائے بناتھانے سےواپس نہیں جائےگا-کافی بحث و تکرار کےبعد بالآخر محرر نے وائرلیس پر ایس ایچ او کو وقوعہ کی اطلاع دی اور واپس تھانہ آنے کی درخواست کی۔کچھ ہی دیرگزری ہو گی کہ ایس ایچ او کی سرکاری گاڑی تھانہ میں داخل ہوئی۔ابو سفیان نے ان کےسامنے اپنا مدعابیان کیا۔تاہم ایس ایچ او نےکوئی خاص نوٹس نہ لیا- اندراج مقدمہ کے لیئے شرط عائد کی کہ وہ کسی پر شک کا اظہار کرے۔ تب ابو سفیان گویا ہوا کہ بلا یقین وہ کسی پر کیسے شک کا اظہار کرسکتا ہےلیکن ایس ایچ او اپنے مدعا پر قائم رہا۔باربار شک کی گردان دہراتارہا۔ بالآخر ابوسفیان تنگ آکر بولا ایس ایچ او صاحب ! سچ پوچھیں تو مجھے آپ پر ہی شک ہے کہ موٹرسائیکل کی چوری میں آپ کا ہاتھ ہے۔ یہ سن کر ایس ایچ او کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ لال پیلا نظر آنے لگا۔ ابوسفیان نے ایس ایچ او کی یہ حالت دیکھی تو مزید کہاایف آئی آر درج نہیں ہونی تو ایس پی کا آفس زیادہ دور نہیں ہے۔ میں ایک صحافی ہوں۔ میری ایف آئی آر درج نہیں ہو گی تو دن چڑھتے ہی بڑے صاحب (ایس پی)کے آفس پہنچ جائوں گا اور آپ کی شکایت کروں گا۔
اس مکالمے کے بعد ایس ایچ او اندراج مقدمہ کے لئے راضی ہوا اور نامعلوم چور کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ یہ لاہور کے تھانہ شاہدرہ کا سچا واقعہ ہے۔ جو کئی سال پہلے پیش آیا۔ یہ بات خود ابوسفیان نے مجھے بتائی، جو ایک ماہنامہ میگزین کا ایڈیٹر و پبلشر تھا۔ ایف آئی آر کے موضوع پر یہ کالم تحریر کرتے وقت مذکورہ واقعہ اس لئے کوٹ کیا کہ آپ سب ایف آئی آر کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ سکیں۔ یہ ایک واقعہ نہیں اس جیسے بے شمار واقعات روزانہ کی بنیاد پرتھانوں میں پیش آتے ہیں اور لوگوں کو اندراج مقدمہ کے لئے در بدر ہونا پڑتا ہے۔ پتہ نہیں، کہاں کہاں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ ایف آئی آر ہے کیا؟ایف آئی آر سے مراد فرسٹ انفارمیشن رپورٹ اورمعنوی اعتبار سے پہلی اطلاعی رپورٹ ہے۔ جرم ناقابل دست اندازی ہو تو روزنامچے میں رپورٹ تحریر کرکےمحرر کی جانب سے سائل کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیےکہاجاتا ہے۔ موجووہ قانون میں کسی بھی فوجداری مقدمہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جس میں جرم، وقت، جائے وقوعہ اور چشم دید گواہان پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہ چاروں چیزیں ایف آئی آر کی بنیاد بنتی ہیں۔ یعنی جرم، وقت، جائے وقوعہ اور چشم دید گواہان۔ ایف آئی آر کا متن جتنے کم الفاظ میں ہوگا، مدعی یااستغاثہ اتنے ہی اچھے انداز میں اسے ٹرائل کے وقت عدالت میں ثابت کرسکے گا۔ عدم ثبوت کی بنیاد پر ملزم یا ملزمان کے بری ہونے کے سو فیصد چانسز ہوتے ہیں۔ اس لئے جب بھی کسی وقوعہ کی ایف آئی آر درج کرائی جائے ، اس کی نوعیت عمومی ہو یا سنگین، کم سے کم الفاظ میں درج کرانی چاہیے ۔ مثال کے طور پر فلاں وقت اور فلاں مقام پر ایک نامعلوم شخص (کسی کو نامزد بھی کیاجا سکتاہے)نے یہ جرم کیا۔ جرم کی نوعیت کے مطابق ہی دفعات لاگو کی جاتی ہیں جو قابل ضمانت بھی ہو سکتی ہیں اور ناقابل ضمانت بھی۔پاکستان میں مخالفین کو پھنسانےکے لئےفرضی کہانیوں پرمبنی جھوٹی ایف آئی آرزکا اندراج عام سی بات ہے۔ تعزیرات پاکستان میں کسی کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔ جس کی سزا سات سال تک قید ہو سکتی ہے۔
پاکستان پینل کوڈ سیکشن 193 اور 194 کے تحت جھوٹی گواہی دینے والے کو سزائے موت تک دی جا سکتی ہے-کسی کے خلاف اگر جھوٹی ایف آئی آر درج ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ ایسی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اگر چالان متعلقہ عدالت میں پیش نہیں ہوا تو آئین کے آرٹیکل 199اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 561اے کے تحت جھوٹی ایف آئی آر کے اخراج کے لئے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔ اگر ملزم اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایسی ایف آئی آر کے اخراج کا حکم جاری کر سکتی ہے۔اس کی مثال 2008ء میں ہائی کورٹ کے جسٹس کاظم علی ملک کے ایک فیصلے سے دی جاسکتی ہے۔ اس کیس میں مخالفین کا آپس میں لین دین کا مسئلہ تھا۔ فیکٹری کے مالک نے ایک شخص سے تیل خریدا اور ادائیگی نہیں کی۔ یہ دیوانی نوعیت کا معاملہ تھا لیکن مدعی نے پولیس کی ملی بھگت سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 406 کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔ عدالت نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ایف آئی آر کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 406 کے خلاف قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر کے اخراج کا حکم جاری کر دیا، کہا یہ صریحا دیوانی مسئلہ ہے۔ اس میں پولیس نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا۔ نہ صرف یہ کہ ایف آئی آر کے اخراج کا حکم سنایا گیا بلکہ جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے والے لاہور کے تھانہ باغبانپورہ کے سب انسپکٹر اور تفتیشی افسر پر 50ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ یہ بھی حکم دیا کہ جرمانہ کی رقم مدعی کو ادا کی جائے۔ تاہم اگر کسی جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کاچالان عدالت میں پیش کر دیا گیا ہو اور ٹرائل شروع ہو جائے تو پٹیشن کی صورت میں ہائی کورٹ متعلقہ عدالت سے ریلیف حاصل کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے۔ ایسی صورت میں علاقہ مجسٹریٹ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265کے تحت ملزم کو کسی بھی وقت مقدمہ سے ڈسچارج کر سکتا ہے۔ پولیس رولز 1934 میں درج قانون کی شق 24 اعشاریہ 7بھی متعلقہ تفتیشی افسر کو درج شدہ جھوٹی ایف آئی آر کو منسوخ یا خارج کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ پاکستان میں ہر روز ایسی سینکڑوں ایف آئی آرز درج ہوتی ہیں جن کا حقیقت یا سچ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے تفتیشی پولیس افسر کو پتہ چل بھی جائے کہ ایف آئی آر جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔ پھر بھی اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسے خارج نہیں کرتا۔ تفتیشی افسر کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ ایف آئی آر کو بے بنیاد سمجھے اور مدعی سے شواہد طلب کرنے پر شواہد نہ ملنے کی صورت میں وہ اپنے قانونی اختیار کو استعمال کر کے مقدمہ خارج کر سکتا ہےلیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ایک بےگناہ کو بھی جھوٹی ایف آئی آر میں نامزد ہوکربڑی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • علی امین گنڈاپور نے اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان پر ردعمل دے دیا
  • غیرقانونی مائننگ نہیں ہونے دوں گا،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا  علی امین گنڈاپور
  • منرلز بل پر تنقید کے پیچھے پورا مافیا، عمران خان سے ملاقات میں بات کلیئر ہو جائےگی، علی امین گنڈاپور
  • علی امین گنڈاپور نے خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرل ایکٹ پر سوشل میڈیا بیانیہ اڑا دیا
  • فائیوجی اسپیکٹرم کی نیلامی کیوں نہیں ہورہی، پی ٹی اے نے اندر کی بات بتادی
  • تمام شعبوں میں میرٹ پہلی ترجیح رہے گی، علی امین گنڈاپور
  • تمام شعبوں میں میرٹ پہلی ترجیح رہے گی؛ علی امین گنڈاپور
  • علی امین گنڈاپور مائنز اینڈ منرلز بل پاس کروائیں گے، یا اپنی نوکری بچائیں گے، گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی
  • علی امین گنڈاپور مائنز اینڈ منرلز بل پاس کروائیں گے، یا اپنی نوکری بچائیں گے، گورنر پختونخوا
  • ایف آئی آر کی کہانی