Nai Baat:
2025-04-22@06:18:35 GMT

یوم یک جہتی کشمیر… محض خانہ پُری

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

یوم یک جہتی کشمیر… محض خانہ پُری

پچھلی صدی کے نوے کے عشرے کے ابتدائی برسوں سے کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ہر سال پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب جب یوم یک جہتی کشمیر مناتے ہوئے تین عشروں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے تو ایسے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا روایتی جوش و جذبہ اور مظلوم کشمیریوں سے یک جہتی کا مظاہر ہ ہی مفقود نہیں ہو چکا ہے بلکہ یومِ یک جہتی کشمیر منانا بھی محض خانہ پوری یا ایک طرح کی رسمی کارروائی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسے المیہ ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ کشمیر جسے بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور مسئلہ کشمیر جس کے بارے میں قوموں کے لیے حق خود ارادیت کے حصول کے مطالبے پر مبنی ہمارا موقف ہر لحاظ سے جائز اور صحیح ہے، اسے ہم نے جہاں زیب طاق نسیاں کر رکھا ہے وہاں اس کے بارے میں ہر سطح پر خواہ وہ حکومتی سطح ہو، قومی اور عوامی سطح ہو یا ابلاغِ عامہ کی سطح ہو ، غرضیکہ ہر سطح پر ہماری بے حسی ، بے رخی اور بے نیازی نمایاں ہو کر سامنے آ رہی ہے۔
برصغیر جنوبی ایشیا میں انگریزی راج سے آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو کشمیر ی مسلمانوں میں بھی ہندو ڈوگرہ راجا کی حکمرانی سے نجات پانے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی تحریک بھی شروع ہو گئی۔ مارچ 1931ء میں سری نگر میںڈوگرہ راج کے خلاف مسلمان مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا تو پورے کشمیر میں مسلمان احتجاج کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مارچ 1940 ء میں لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے چار ماہ بعد جولائی 1940ء میں کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے کشمیر کی آزادی کے لئے باقاعدہ قرار داد منظور کی اور اپنے قائد احرار ملت چودھری غلام عباس مرحوم کی قیادت میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو اپنی منزل قرار دیا۔ 3 جون 1947ء کو تقسیمِ ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا جس میں ہندوستان کی نیم خو د مختار ریاستوں کو جو براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھیں یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور اپنے عوام کی خواہشات کا خیال رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکیں گی یا اپنی نیم خود مختار حیثیت برقرار رکھ سکیں گی۔

14 اگست 1947ء کو ہندوستان میں دو آزاد مملکتوں پاکستان اوربھارت کے وجود میں آنے کے بعد کشمیرکے پاکستان سے الحاق کے کشمیری مسلمانوں کے مطالبے میں اور شدت آگئی اور پورے کشمیر میں مسلمان اس مطالبے کے حق میں ڈوگرہ راج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پاکستان سے ملحقہ کشمیر کے علاقوں کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرا لیا گیا اور 24 اکتوبر 1947 ء کوآزاد کشمیر حکومت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ شروع میں کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں بھی نہیں تھا لیکن بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ،گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن اور بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل کے دبائو پر اس نے 26 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اور اسکے ساتھ ہی بھارتی فوجیں جو پہلے خفیہ طور پر ڈوگرہ مہاراجہ کی حمایت کے لئے کشمیر میں موجود تھیں اب کھلم کھلا مسلمان مجاہدین کوکچلنے کے لیے حرکت میں آگئیں۔پاکستان کو بھی اپنے فوجی دستے کشمیر میں بھیجنے پڑے یکم جنوری 1948ء کو بھارت کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں لے گیا ۔اقوام متحدہ کی کوششوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی اورطے پایا کہ کشمیری حقِ خود ارادیت کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہونگے اورآزادانہ استصوابِ رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکیں گے۔ بھارت شروع میں اقوام متحدہ کی قرادادوں پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیاں کراتا رہا لیکن بعدمیں وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر ان قراردادوں سے منحرف ہو گیا۔

مسئلہ کشمیر کے اس پس منظر اور پیش منظر اور معروضی حالات و واقعات کے تذکرے سے یقینا اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن سچی بات ہے کہ یہ سب نصابی باتیں ہیں اس وقت عملاً صورت حال یہ ہے کہ ہم ایکطرح کے LOOSER (نقصان اُٹھانے والے) اور بھارت WINNER بنا ہوا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کی جیت کو ہار میں کیسے تبدیل کر سکتے ہیں۔ورنہ برسرِ زمین حقیقت یہی ہے کہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور عالمی رائے عامہ بھارت کے اس موقف کو رد کرنے کے لیے تیار نہیں۔جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد ہو اور کشمیریوں کو حق خودارادیت کے تحت آزادانہ رائے شماری کا حق ملے اور وہ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرنیکا فیصلہ کرلیں۔ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی رائے عامہ دن بدن ہمارے اس موقف کا جو ہر لحاظ سے جائز اور مبنی بر حقائق اور انصاف ہے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر کئی برادراسلامی ممالک کی مصلحت آمیز پالیسیوں کی وجہ سے اُن کی کھلم کھلا حمایت سے ہی محروم نہیں ہو چکے ہیں بلک بڑی عالمی طاقتوں میں سے بھی کوئی مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کی کھلم کھلا تائید کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسے المیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے یا ا سے کشمیریوںکی بد نصیبی اور بد قسمتی کا نام دیا جا سکتا ہے کہ سات عشروں سے جاری اُن کی جدوجہدِ آزادی قربانیوں اور ناکامیوں کی ایسی داستان بنی ہوئی ہے جس کی قوموں کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی قربانیاں ہو سکتی ہیں کہ ایک خطہِ ارض پر بسنے والے لاکھوں افراد اپنے اوپر مسلط کی جانے والی غلامی اور جبر و استبداد کے خلاف اتنے طویل عرصے سے برسر پیکار ہوں، لاکھوں افراداپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہوں بستیوں اور آبادیوں کے قبرستان شہیدوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہوں، ظلم وستم اور جبرو استبداد کا بازار گرم ہو اوراسکے خلاف ہڑتالیں احتجاجی مظاہرے، خونریز ہنگامے اور جلسے جلوس روز کامعمول بنے ہوئے ہوں لیکن پھر بھی اس خطہ ارض پر بسنے والے آزادی، خودمختاری اور اپنی منزل مقصود کو پانے سے محروم ہوں۔ یہ خطہ ارض جنت نظیر کشمیر ہے جو گزشتہ تقریباً سات دہائیوں سے اس المناک صورت حال سے دوچار ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے ساتھ الحاق اقوام متحدہ جہتی کشمیر ڈوگرہ راج کشمیر کے بھارت کے ہے کہ ہم کے خلاف یک جہتی کے لیے

پڑھیں:

بھارت؛ 22 سالہ دولھے کے ساتھ دھوکا، دلہن کی والدہ سے شادی کروادی گئی

MEERUT:

بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ میں 22 سالہ دولھے کو دھوکا دے کر ان کی 21 سالہ دلہن کی والدہ سے شادی کرادی گئی۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ دولھے کے ساتھ مبینہ طور پر دھوکا دیا گیا اور ان کی 21 سالہ دلہن کی 45 سالہ والدہ سے شادی کرادی گئی۔

پولیس نے بتایا کہ میرٹھ کے علاقے براہماپوری کے رہائشی 22 سالہ محمد عظیم نے شکایت درج کرائی کہ ان  کے بھائی اور بھابی نے  ان کی شادی ضلع چاملی میں منتشا سے طے کی تھی۔

پولیس نے بتایا کہ شادی 31 مارچ کو ہوئی اور نکاح کے دوران نکاح خواں نے دلہن کا نام طاہرہ لیا اور جب پردہ ہٹایا گیا تو انکشاف ہوا کہ دلہن منتشا کی 45 سالہ بیوہ ماں ہیں اور انہیں دلہن ظاہر کرکے منتشا کے بجائے والدہ سے شادی کرا دی گئی۔

دولھے نے دعویٰ کیا کہ نکاح کی تقریب کے دوران 5 لاکھ بھارتی روپے کا تبادلہ ہوا تھا۔

پولیس کے پاس 17 اپریل کو درج شکایت میں عظیم نے پولیس کو بتایا کہ جب انہوں نے اس دھوکے پر احتجاج کیا تو ان کے بھائی اور بھابی نے انہیں جھوٹے ریپ کیس میں پھنسانے کی دھمکی دی۔

سی او براہماپوری سومیہ استھانا نے بتایا کہ دونوں فریقین کے درمیان راضی نامہ ہوگیا ہے، عظیم نے اپنی شکایت واپس لے لی ہے اور بتایا ہے کہ وہ اس وقت مزید کوئی قانونی چارہ جوئی جاری رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے جابرانہ قبضے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں خونریزی کا سلسلہ جاری ہے
  • جان سینا ریکارڈ 17 ویں بار ڈبلیو ڈبلیو ای چیمپئن بن گئے
  • پائیدار امن و ترقی کیلئے تنازعہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے
  • کشمیری بی جے پی کے کشمیر دشمن ہندوتوا ایجنڈے کے خلاف متحد ہیں، حریت کانفرنس
  • خلیل الرحمٰن پاکستان سے مایوس، بھارت کیلئے کام کریں گے؟
  • جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن و ترقی کیلئے تنازعہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، حریت کانفرنس
  • بھارت؛ 22 سالہ دولھے کے ساتھ دھوکا، دلہن کی والدہ سے شادی کروادی گئی
  • ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ: کیا قومی ٹیم اپنے میچز کھیلنے کے لیے بھارت جائےگی؟
  • ایلون مسک سے ٹیکنالوجی میں امریکہ کے ساتھ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا ہے.نریندرمودی
  • ظلم و جبر بھارت سے آزادی کا راستہ ہرگز نہیں روک سکتا, سرینگر میں پوسٹر چسپاں